ایوب خان کے دورِ حکومت میں امریکہPL480 (US Public Law 480جسے ''فوڈ فار پیس‘‘ یعنی خوراک برائے امن کا نام دیا گیا)کے تحت پاکستان کو جو گندم بیچتا اس کی رقم ڈالرز کے بجائے پاکستانی روپے میں وصول کرتا تھا اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیا دت نے واشگاف الفاظ میں الزام لگایا تھا کہ امریکی سفارت کارJoseph S. Farlandجو 15نومبر 1969ء سے 30اپریل 1972ء تک پاکستان میں تعینات رہے‘ نے مبینہ طور پر ان کے مخالفین کو35 کروڑ روپے بانٹے تھے۔آج ملکی حالات کے تناظر میں یہ قصہ یونہی یاد آنے لگا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چند گھنٹوں میں ہی نو ستاروں اور قومی اتحاد کا قیام اوراس کی نگرانی میں چلنے والی خونریز احتجاجی تحریک حیران کن تھی۔ مال روڈ لاہور اور انار کلی کے علاقے میں مظاہرین اورپولیس میں تصادم ہر روز کا معمول بن چکا تھا۔ ایسی ہی ایک سہ پہر مال روڈ لاہور پر واقع نقی مارکیٹ پہنچے تو دوستوں کی زبانی پتہ چلا کہ آج لاہور ہوٹل کے قریب واقع آسٹریلشیا بلڈنگ میں قائم پیپلزپارٹی کے دفتر کو نشانہ بنایا جا رہاہے ۔ نقی مارکیٹ‘ جہاں خواجہ حامد مرحوم کی چھوٹی سی لیکن اُس وقت کی بہت ہی مشہور کتابوں کی دکان ملکی اورمقامی سیاست کا گڑھ سمجھی جا تی تھی‘ شام ہوتے ہی کئی اعلیٰ سرکاری افسر‘ بزنس مین اور کئی سیا سی جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیا دت وہاں پہنچ جاتی۔اُس وقت لاہور پریس کلب چونکہ ریگل چوک کے قریب دیال سنگھ مینشن تھا‘ اس لئے مشہور صحافیوں کے علاوہ حکومتی ایجنسیوں کے لوگ بھی رونق بخشتے۔ غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں بلا ناغہ آیا کرتے۔
آسٹریلشیا بلڈنگ لاہور ہوٹل چوک جانے کے لیے نقی مارکیٹ سے نکل کر جیسے ہی پنجاب اسمبلی کے قریب سے گزرتے ہوئے منٹگمری روڈ کی جانب بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اونچا لمبا اور بالکل سیدھی قامت کا غیر ملکی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوااُسی جانب چل رہاہے ۔ہم نے سمجھا شاید یہ کسی غیر ملکی میڈیا کے صحافی ہیں یا بی بی سی کے مارک ٹیلی کی طرح کا رپورٹر ہے۔ جب ہم منٹگمری روڈ پر گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی مارکیٹ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک عمارت کے نیچے عوام کا جم غفیر ہے جو آسٹریلشیا بلڈنگ پر پتھر پھینک رہا ہے۔ اسی دوران پولیس کی گاڑیاں جن کے گرد لوہے کے جال لگے تھے‘ آنسو گیس کے شیل ادھر ادھر داغنا شروع ہو گئیں۔ کچھ نے مظاہرین اور بلوائیوں کو بھگانے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی جس پر نوجوانوں کی ٹولیاں بھاگ کر قلعہ گوجر سنگھ کی جانب جانے والی تنگ گلیوں میں گھس گئیں اور میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ وہ طویل قامت غیرملکی بھی ہمارے ساتھ ہی اس گلی میں دیوار کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس سے بات چیت شروع کی۔ اب یہ اتفاق تھا کہ اس وقت کی تمام سیاسی شخصیات اور مرکزی لیڈرزسے راقم ذاتی طو رپر بھی متعارف تھا اور اُس وقت کی سب سے مشہور سیا سی شخصیت ایئر مارشل اصغر خاںمرحوم سے بھی اچھی خاصی جان پہچان تھی۔
کوئی ایک گھنٹہ ہم اکٹھے رہے اور اس دوران ہونے والی گفتگو میں تمام بڑی سیاسی شخصیات اور لیڈرز سے اپنے تعلقات اور سیا سی سوجھ بوجھ میں مہارت دکھانے کے لیے اسے ملکی سیا ست پر اپنا تجزیہ پیش کیا ۔اس کی یہ بات دل کولگی کہ اگر جماعت اسلامی اس تحریک کا ایکٹو حصہ نہ ہوتی تو بھٹو کو نکالنا بہت ہی مشکل تھا۔ آج جب ملک میں مذہب کے نام پر سیا ست کرنے والی ایک جماعت کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپنی فورس کے ہمراہ پی ڈی ایم کا ہراول دستہ بنے دیکھتا ہوں تو مجھے پروفیسر Louis Dupree کی بات پھر سے یاد آنے لگی ہے ۔
آسٹریلیشیا بلڈنگ کو اس وقت کی سیا سی اور عسکری پلان کی نظروں سے دیکھیں تو وہ لاہورمیں پی پی کا ایک قلعہ تھا‘ جیسے ہی وہ سر ہوا اور ملکی اخبارات میں اگلے کئی دن اس آپریشن کی تصویریں شائع ہوئیں تو قومی اتحاد کے ہمدردوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔ ساتھ ہی پی پی کا مورال بھی زمین بوس ہو گیا اور عمارتوںپر پی پی کے جھنڈے غائب ہونا شروع ہو گئے ۔ اوپرسے فائرنگ کے با وجود کچھ لوگ آسٹریلیشیا بلڈنگ پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں سے پی پی کے جھنڈے اور بورڈ کو اتار دیا گیا‘ جس نے بھی یہ منا ظر دیکھے وہ کئی برس تک اس جرأت اور دلیری پر حیران ہوا کرتا۔ جیسے جیسے یہ خبریں پھیلتی گئیں‘ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم میکلوڈ روڈ جانے والی ہر سڑک پر دیکھا جانے لگا اور جب تک آسٹریلشیا بلڈنگ پر بلوہ چند ہلاکتوں کی صورت میں مکمل نہ ہوا ہجوم وہیں کھڑا نعرے لگاتا رہا۔
شام ڈھلے پروفیسرLouis Dupree سے گپ شپ کرتے ہوئے واپس مال روڈ کی جانب چل پڑے۔ فلیٹیز ہوٹل کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مجھ سے الوداعی ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ ملک وزیر علی کا گھر کدھر ہے ؟ان کا تعلق تحریک استقلال سے تھا ۔جب میں نے ان کا ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر بتایا تو وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے: کل نیلا گنبد سے نوابزادہ نصر اﷲ خان کی قیادت میں جلوس نکل رہا ہے ‘کل چار بجے وہاں ملاقات ہو گی۔ نو جوانی کے دن‘ ملکی سیا ست کی گرما گرمی اور کسی '' مارک ٹیلی جیسے انگریز صحافی‘‘ سے دوستی اس وقت کا گلیمر تھا ۔اگلے روز جب میں نیلا گنبد پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ طویل قامت شخص ہاتھ میں کیمرہ پکڑے دور سے ہی ہاتھ ہلاتا ہوا میری جانب بڑھ رہاہے ۔میرے قریب آتے ہی مجھے کہنے لگا کہ ملک وزیر علی نے آپ کے لیے سلام بھیجا ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ انہیں جلد ہی ملنے کیلئے آئوں۔
نیلا گنبد سے چیئرنگ کراس اور گورنر ہائوس تک جانے والے جلوس میں ہم ایک ساتھ ہی رہے۔ اس دوران مارک ٹیلی سے بھی ہیلو ہائے رہی اور شام گئے جب Louis Dupreeفلیٹیز جانے کے لیے نکلا تو جاتے ہوئے اس نے مجھے اپنی جیب سے ایک کارڈ نکال کر دیا جسے میں نے بغیر دیکھے جیب میں رکھ لیا ۔مال روڈ پر خواجہ حامد مرحوم کی دکان پرپہنچے تو وہاں آسٹریلشیا بلڈنگ کاواقعہ ہی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی گفتگو کامحور تھا۔ جب میں نے انہیں آنکھوں دیکھا حال بتانا شروع کیا تو سب میری جانب ہی متوجہ رہے۔ رات گئے تک ملکی حالات اور سیا ست پر گرما گرم بحث ہوتی رہی‘ گھر پہنچ کراس کارڈ کودیکھا تو اس پر'' مسٹر لوئیس ڈوپری۔ پروفیسر آف انتھرو پالوجی یونیورسٹی آف کابل‘ افغانستان ‘‘تحریر تھا۔ وہ کارڈ کوئی تیس برس میرے پاس رہا اور پھر گھر بدلنے کے دوران نہ جانے کدھر گم ہو گیا۔
45برس قبل قومی اتحاد کی تحریک کے دوران کسی انگریز یا گورے کو دیکھ کر سب یہی سمجھتے تھے کہ یہ بھی مارک ٹیلی کی طرح بی بی سی یا امریکہ اور جرمنی کے ریڈیو کا ہی کوئی نمائندہ ہو گا۔ نوابزادہ نصر اﷲ خاں کی قیادت میں نکلنے والا جلوس جب لاہور ہائیکورٹ کے قریب پہنچا تو پروفیسرLouis Dupreeسے مارک ٹیلی کہنے لگا: Louis Mark My words‘آسٹریلشیا بلڈنگ دیکھنے کے بعد لکھ لیجئے کہ اب بھٹو حکومت نہیں رہ سکتی۔ اس کایہ جملہ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ فلیٹیز میں اس کے کمرے میں آج اور کل کی بہت سی اہم شخصیات سمیت طالب علم اور مزدور لیڈروں کو آتے جاتے کئی بار دیکھا ۔کئی برس بعد احساس ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ‘ یورپی یونین کو برا بھلا کیوں کہا؟ امریکہ کو Absolutely Notکہنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس قسم کے قومی حمیت سے سرشار جملے سنتے ہوئے ‘عمران خان کے خلاف عدم اعتماد اور شہباز شریف سمیت اپوزیشن کے بیانات سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہوں ۔جس سے بھی بات کریں وہ یہی کہہ رہا ہے کہ عمران خان کو بھی بھٹو کی طرح خو دی نہ بیچنے کی سزا دی جارہی ہے۔