بھارتی میڈیاکوپڑھنے‘ دیکھنے اور سننے والے دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں کہ بھارتی میڈیا کو کیا تکلیف پہنچ رہی ہے جو وہ ہکلاتے اور چلاتے ہوئے واویلا کئے جا رہا ہے کہ اگرعمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی تو بھارت کے لیے مشکلات پیدا ہوںگی۔ گودی میڈیا کی چیخ و پکار سے تو لگتا ہے بھارتی فوج کی خفیہ ایجنسیوں اور راء کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ عمران کی حکومت ختم ہو جائے۔شاید اسی معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کی جانب سے براہموس میزائل چھوڑ دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ٔروس اور اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے تھوڑے دن بعدبھارتی میزائل کا واقعہ غالباً آزمائشی اور پیغاماتی تھا۔ حکومت اور افواج پاکستان نے اس واقعے کا سخت ترین ایکشن لیتے ہوئے بھارت سے اس کی جواب طلبی کرنے کے علا وہ دنیا کو بھی اس جانب متوجہ کیا ہے۔دفتر خارجہ سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا تھاکہ اس واقعے کی سنگین نوعیت‘ سکیورٹی پروٹوکول کے خلاف تکنیکی تحفظات کے حوالے سے کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس طرح کے سنگین معاملے کو بھارتی حکام کی جانب سے پیش کی گئی سادہ وضاحت سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو حادثاتی میزائل لانچ اور اس واقعے کے خاص حالات کو روکنے کے لیے اقدامات اور طریقہ کار کی وضاحت کرنی چاہیے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ حادثاتی طور پر چھوڑا گیا میزائل پاکستان میں کیسے داخل ہوا؟ کیا میزائل خود تباہی کے طریقہ کار سے لیس تھا تو یہ حقیقت میں کیوں ناکام رہا؟ بھارت میزائل کے حادثاتی لانچنگ کے بارے میں پاکستان کو فوری طور پر مطلع کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے واقعے کا اعلان کئے جانے اور وضاحت طلب کیے جانے تک بھارت نے انتظار کیوں کیا؟بھارت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی میزائل کو اس کی مسلح افواج نے ہینڈل کیا تھا یا کوئی اور عناصر تھے۔ یہ واقعہ بھارت کے سٹریٹجک ہتھیاروں سے نمٹنے میں سنگین نوعیت کی بہت سی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی اندرونی عدالتی تحقیقات کا فیصلہ کافی نہیں کیونکہ میزائل پاکستانی حدود میں گرا۔ پاکستان نے اس واقعے کے بارے میں حقائق کادرست تعین کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا نیز پاکستان نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ جوہری ماحول میں سنگین نوعیت کے اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔
اس صورتحال کے دوران سب سے حیران کن رویہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیا سی جماعتوں کا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہی اپوزیشن کی سیاست کا بنیادی مشن اور مقصد تھا اور نریندر مودی کا بھیجا گیامیزائل ان کے لیے نہیں بلکہ صرف عمران خان کی حکومت کے لیے کوئی مسئلہ تھا۔مگرسب سے شرمناک رویہ اقوام متحدہ ‘امریکہ ‘برطانیہ اور یورپی یونین اور اور عالمی میڈیاکا تھا۔فرض کیجئے کہ اگر بھارت کا یہ میزائل وار ہیڈ سے لیس کیا گیا ہوتا تو اس کے نتیجے میں ہونے والی ہولناک تباہی کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔مگر اس قسم کا کوئی چھوٹا یا بالکل ہی ہلکا سا فائر پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف ہو جاتا تو کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے آسمان سر پر نہ اٹھا لینا تھا؟ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب روس اور یوکرین میں جنگ ہو رہی ہے۔ان حالات میں بھارت کا یہ اقدام غیر معمولی خطرات کا سبب بن سکتا تھا‘ مگر اس واقعے پر بھارت کی قیا دت کا محاسبہ کرنے اور اس پر پابندیاں لگانے کے بجائے ایسے لگتا ہے کہ مغربی ممالک اس واقعے اور اس کے ممکنہ نتائج سے لاعلم ہیں۔ ان کی خاموشی کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہمیں کیا ‘ اس کے نتائج تو ایشیا نے بھگتنے ہیں۔
بھارت کا یہ کہنا کہ یہ واقعہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوا ہے‘ سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں ۔ ہماری قیا دت کو بھارت کی اس منطق کو قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر انڈین میڈیا کو دیکھا جائے تو ان کے پروگرام چوبیس گھنٹے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مودی آزاد کشمیر پر حملہ اپنی زندگی کا مشن سمجھتا ہے۔ مودی کی یہ دھمکی ممکن ہے کہ کل کو ایک ایسی غلطی بن جائے جس کی تلا فی مشکل ہو جائے‘ لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی کس حد تک پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ہمنوا اور خیر خواہ ہیںاس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔سب کو یاد ہو گا کہ جیسے ہی بھارت میں 26/11 کے ممبئی حملوں کے واقعات ہوئے تو چند دنوں بعد ہی امریکی وزیردفاع اور اور برطانوی وزیر اعظم بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے تمام ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے لیے بھارت پہنچ گئے اور پاکستان کو دھمکیاں دیناشروع ہو گئے۔ لیکن آج لاپروائی اور ہتھیاروں کی غیر ذمہ داری کی آخری حد سے گزرنے والے بھارت اور مودی کے خلاف مغرب کی مجال نہیں کہ کوئی ہلکی سی آواز ہی نکلی ہو۔
پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور دفاعی ماہرین کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آر ایس ایس کا وجود اورمشن پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی وقت کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت پارٹی کے پردے میں آر ایس ایس کی حکومت ہے ۔ وہاں صرف آر ایس ایس کا فلسفہ اور ایجنڈا کام کر رہا ہے ۔ نریند رمودی سات سال کی عمر میں‘ جب وہ قریبی ریلوے سٹیشن پر چائے بیچا کرتا تھا ‘ اس نے راشٹریہ سیوک سنگھ کا آلہ کار بن کر ریلوے سٹیشن پر ہر آنے اور جانے والے مسلمان اور ان کے مہمانوں پر نظر رکھنے کا کام کر تا رہا اورسات سال کی عمر کاآر ایس ایس کا وہی جاسوس لڑکا بنگلہ دیش کے قیام کے لیے پاکستان کے خلاف مکتی باہنی کا سیکٹر کمانڈر بن کر لڑتا رہا اور اسی مسلم دشمنی کے زہر میں بجھی ہوئی آر ایس ایس کی سوچ کی وجہ سے ہی بڑی اکثریت کے ساتھ دوبار بھارت کا وزیر اعظم بن چکا ہے۔
یو پی میں اسلام اور پاکستان کی سب سے بڑی دشمن جماعت اور یوگی جیسے عفریت کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حالیہ فتح سے پہلے آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت کی سربراہی میں جو اجلاس ہوا اس میں بھارت سرکار کے وزیر مملکت برائے دفاع کی خصوصی شرکت معنی خیز تھی۔ تین دن تک ہونے والے اس اجلاس کے دوران اس کی دوسری کوئی بھی سرکاری مصروفیت سامنے نہیں آسکی۔ اس میں شرکت کے لیے اس نے سرکاری گاڑی کا بھی استعمال نہیں کیااور وزارت دفاع میں اپنی اس غیر حاضری کے بارے میں یہی بتایا کہ وزیر مملکت برائے دفاع طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے گھر پر آرام کر رہے ہیں ‘لیکن ان کے گھریلو ملازمین اور سٹاف کے مطا بق وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جو اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ اس اجلاس میں خطرناک منصوبے بنائے گئے ہوں گے کیو نکہ موہن بھگوت اور ڈاکٹر سبھاش بھابرے کے علا وہ اس میں تین مرتبہ مسلسل آر ایس ایس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہونے والے سریش بھیا جی کے ساتھ سریش سونی سیکرٹری آر ایس ایس‘ عسکری ونگ کے کرشن گوپت اور بم بنانے کے ماہر مجوج بیانی بھی موجود تھے۔
پاکستان کی قومی قیادت کوچاہئے کہ اپنی داخلی اور دفاعی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت مت بھولیں کہ سات سال کی عمر میں چائے بیچتے ہوئے جاسوسی کرنے والے جس لڑکے کی گھٹی میں مسلمانوں سے نفرت ڈال دی گئی ہو‘ جو اپنے بچپن سے آر ایس ایس کے لیے جاسوسی کے فرائض انجام دیتا رہا ہو ‘جس نے شادی کے دو ماہ بعد آر ایس ایس کے کہنے پر اپنی نو بیاہتا بیوی اور گھر بار چھوڑ دیا ہو اور جس نے1971ء کی بنگلہ دیش تحریک میں مکتی باہنی کے سیکٹر کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا ہو‘جس کی رگ رگ میں پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی‘ اس کے ہر عمل اور ہر سوچ کوسامنے رکھنا چاہیے ۔