کوئی ضمیر بیچ رہا ہے یا نہیں‘ کسی کے خفیہ اکائونٹس میں پچیس سے تیس کروڑ روپیہ پہنچ رہا ہے یا نہیں‘ اس کا حقیقی علم تو ربِ کریم کی ذات کو ہی ہے اور وہ جب چاہتا ہے سمندرکی تہوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو باہر لے آتا ہے‘ اس لیے کسی پر الزام لگانا یا کسی پر انگلی اٹھانا میں مناسب نہیں سمجھتا لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ '' کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘، اس کے مصداق جس طرح سندھ ہائوس میں جا کر لوگوں کے ''ضمیر‘‘ جاگ رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ کوئی بہت ہی خاص 'کرم‘ ہو رہا ہے جو یہ لوگ مفت میں گھر آنے والی نعمتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت سمجھ رہے ہیں۔
تاریخ انسانیت میں ریاستِ مدینہ کے بعد‘ پاکستان دوسری ریاست ہے جس نے کسی فکر و عقیدہ اور نظریۂ حیات کے بطن سے جنم لیا۔ ریاست مدینہ ہی کی طرح‘ پاکستان میں بسنے والی اس کی قوم پہلے وجود میں آئی اور اس قوم کی مسلسل، طویل جدوجہد اور پھر ہجرت کے نتیجے میں ہمارا یہ ملک پاکستان کی شکل میں معجزۂ خداوندی بن کر وجود میں آ یا۔ وہ لوگ جو پاکستان کو معجزۂ خداوندی نہ مانتے ہوئے اس کی قدر و منزلت سے بے پروا ہوکر اپنے ضمیر اور خمیر کی قیمت وصول کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ مولانا عبدالرحیم پچھمیؒ اور ارباب گلاچی کے ضمیر کا آج اپنے ضمیر اور خمیر سے موازنہ کر لیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے بہت پہلے‘ بھائو تائو کی خبریں میڈیا کے کچھ حصوں کو ملنا شروع ہو گئی تھیں اور یہ بھی پتا چل رہا تھا کہ کون کسے اور کس طرح رام کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر ہی سہی‘ یہ سنا اور کہا جا رہا ہے کہ ایک ماہ قبل پندرہ سے بیس کروڑ اور اب پچیس سے تیس کروڑ تک کی بولی لگائی جا رہی ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اس سودے کا حصہ بننے والے اپنے اپنے ''ضمیر‘‘ کے مطابق ووٹ دیں گے۔ ایسے تمام لوگ‘ جو بازار کی کسی جنس کی طرح اپنے ووٹ کا سودا کرتے ہوئے امانت میں خیانت کے مرتکب ہوں گے‘ ان کے بارے میںہمارے دین میں کیا حکم ہے‘ اخلاقی لحاظ سے یہ عمل کیسا ہے‘ اس سے قطع نظر‘ آئین و قانون میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ ایسے افراد کو‘ پارٹی قائد کی درخواست پر اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار دیا جائے گا لیکن مملکتِ خداداد میں یہ جو میلہ مویشیاں کی طرح ہر قسم کی خرید و فروخت کے آنکھوں دیکھے حال پیش ہو رہے ہیں‘ ایسے تمام لوگوں اور پاکستان کی نئی اور پرانی نسل کی آگاہی کیلئے‘ تاریخ پاکستان کا ایک روشن باب پیش کیا جا رہا ہے‘ جو ایک مردِ درویش اور اللہ کی بارگاہ میں ایک نظریاتی اور اسلامی ریا ست کی بنیاد رکھنے کے عمل میں خود کو سرخرو کرنے والے کی وہ نہ مٹے والی داستان ہے جس کی حلاوت اتنی دہائیوں بعد بھی بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ مردِ درویش کے سامنے اس دنیا کی ہر دولت اور آسائشوں کے ڈھیر لگا دیے گئے لیکن اس کا ایمان رتی کے ہزارویں حصے تک بھی نہ ڈگمگایا۔ سوچتا ہوں کہ آج جب اس درویش کی روح کو یہ پتا چل رہا ہو گا کہ ملک عزیز کے سیاسی ایوانوں میں کس طرح کی منڈی سجائی گئی ہے تو اس کو کس قدر تکلیف پہنچتی ہو گی کہ جن کیلئے اس نے اپنی ا ور اپنی سات پشتوں کے نصیب میں آنے والی دولت کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا‘ جس ملک اور قوم کیلئے اس نے ہر طرح کی دنیاوی آسائش کو ٹھکرا دیا تھا‘ اسی ملک کے لوگ آج اپنا ووٹ اور ضمیر کوڑیوں کے بھائو بیچ رہے ہیں۔ مبینہ طور پر ہی سہی‘ جو اپنے وجود کا سودا کرتے ہیں جو اس ملک کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے اور اپنی بولیاں لگواتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ مولانا عبدالرحیم پچھمیؒ اور ارباب گلاچی کی قربانیوں کو یاد کریں جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے کا ناممکن کام ممکن کر دکھایا۔
1942ء کے انتخابات کے بعد جب سندھ اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین زبردست معرکہ جاری تھا تو سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ‘ دونوں کو پریشانی سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ ان دونوں پارٹیوں کے ووٹ برابر تھے۔ اب سندھ کی حکومت حاصل کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کو ایک ووٹ کی ضرورت تھی اور اسی ایک ووٹ نے سندھ میں حکومت سازی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ میں سے جس کو بھی یہ ایک ووٹ مل جاتا‘ وہی سندھ میں حکومت بناتا ۔وہ ووٹ‘ جو ابھی تک غیر جانبدار رہتے ہوئے کسی طرف بھی نہیں جھکا تھا‘ ارباب گلاچی کا تھا۔ پنڈت نہرو نے ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس علاقے کے بااثر مسلمانوں کو بلایا اور انہیں ارباب گلاچی کا ووٹ ہر قیمت پر حاصل کرنے کا ٹاسک دے کر مولانا خیر محمد اور بدین کے پیر عالی شاہ کو گلاچی صاحب کے پاس بھیجا۔ انہوں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ان کے ووٹ کا اختیار مولانا عبد الرحیم پچھمیؒ کے پاس ہے‘ وہ جو حکم دیں گے‘ میں اسی کے مطابق ووٹ دوں گا۔ مولانا پچھمی ایک سادہ لوح دیہاتی تھے جنہیں تحریک پاکستان اور ہندوستانی سیاست کا کچھ بھی علم نہ تھا۔ پنڈت نہرو نے چارٹرڈ جہاز کروا کر کانگریس کے حامی دو علما کو مولانا پچھمیؒ کی رہائش گاہ ''ککر‘‘ بھیج دیا۔ وہاں پہنچ کر نہروکے حامی مولانا خیر محمد نے مولانا پچھمیؒ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کہا کہ ہمارے ساتھ کراچی چلیے‘ آپ سے ہندوستان اور مسلمانوں کی بھلائی کا کام لینا ہے۔ وہ مولانا کو لے کر جلدی سے جہاز میں سوار ہو گئے۔ جب جہاز نے اڑان بھری تو مولانا پچھمیؒ جن کے لیے جہاز ایک با لکل انوکھی چیز تھی‘ حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ انہیں کہا گیا کہ جناب! مسلم لیگ اور جناح صاحب کا نام تو آپ نے سنا ہو گا‘ یہ سب دینی تعلیم سے ناواقف اور مغربی تہذیب میں رنگے ہوئے کلین شیو اور انگریزی لباس پہننے والے لوگوں کی جماعت ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر ورغلا رہی ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطۂ زمین بنایا جائے گا جسے یہ لوگ پاکستان کا نام دیتے ہیں۔ مولانا کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ کے لیڈروں کو تو نماز پڑھنا بھی نہیں آتی‘ یہ برطانوی سرکار کے ایجنٹ ہیں۔ ان کے مقابلے میں کانگریس چاہتی ہے کہ ہندوستان کو مغربی تہذیب اور اس کے اثرات سے آزاد کرایا جائے اور وہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم نہ ہو تاکہ انگریز کے مقابلے میں ہندوستان ایک مضبوط طاقت بنے۔ یہ ساری تمہید باندھنے کے بعد دونوں کانگریسی رہنمائوں نے مولانا پچھمیؒ سے کہا ''ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ ارباب گلاچی کو پابند کر دیں کہ وہ اپنا ووٹ کانگریس کو دے، اس کے بدلے آپ دونوں کو دس‘ دس لاکھ روپیہ بھی دیا جائے گا‘‘۔
مولانا عبد الرحیم پچھمیؒ نے ان کی باتیں بڑے غور سے سننے کے بعدکہا ''آپ اگر اپنا سدھایا ہوا کتا خرگوش کے پیچھے چھوڑ تے ہیں اور وہ کتا خرگوش پکڑ کر زندہ حالت میں آپ کے پاس لاتا ہے تو یہ شکار کھانا اسلام کی روح کے مطا بق جائز ہے یا ناجائز؟‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ شکار جائز ہو گا۔ اس پر مولانا پچھمیؒ نے کہا ''جناح صاحب اور مسلم لیگ کے لیڈران آپ کے کہنے کے مطابق لاکھ برے ہوں گے لیکن پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے جو علیحدہ ملک حاصل کر رہے ہیں‘ انہوں نے وہ حاصل کر کے مسلمانوںکے حوالے ہی کرنا ہے‘‘۔ دونوں کے چہروں پر اوس پڑ گئی۔ انہوں نے اپنے تئیں بہت کوشش کی لیکن مولانا پچھمیؒ نہیں مانے اور انہوں نے اپنے مرید اور عقیدت مند ارباب گلاچی کو سختی سے ہدایت کی کہ تم نے اپنا ووٹ مسلم لیگ کو ہی دینا ہے۔ اس طرح ایک درویش کی بصیرت سے کانگریس سندھ میں ایک ووٹ سے شکست کھا گئی اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ مسلم لیگ کی اسی سندھ حکومت نے 1943ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست پاکستان کی قرارداد منظور کی۔ اگر ارباب گلاچی بھی آج کے ''منحرف‘‘ اراکین کی طرح اپنا ضمیر 'بیدار‘ کر لیتے تو شاید قیام پاکستان کی یہ صورت ممکن نہ ہو پاتی۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے کروڑوں مسلمان آج بھی ہندوتوا کی اس غلامی میں پس رہے ہوتے کہ جو حال آج بھارت میں مسلمانوں کا کیا جا رہا ہے۔ خدا کی اپنی تدبیر ہوتی ہے، اس کا لاکھ لاکھ شکر کہ مولانا عبد الرحیم پچھمیؒ اور ارباب گلاچی کے ایک ووٹ نے ہمیں اس سب سے بچا لیا۔