پنجاب میں ہی نہیں‘ بلکہ پاکستان میں یہ معاملہ دیکھا گیا ہے کہ اگر دو گروپوں‘ دو افراد میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے یا کوئی قتل کی واردات ہو جائے تو بجائے اس کے کہ اصلی مجرم کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے‘ ملزم کے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے نام بھی نا حق ایف آئی آر میں درج کرا دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل دینِ اسلام کی تعلیمات کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔ بے گناہوں کو اس دوران ہمارے قوانین نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی جانب سے جس بد ترین سلوک سے گزرنا پڑتا ہے‘ یہ وہی جان سکتے ہیں جن کا کبھی اس سب سے واسطہ پڑا ہے۔ اس لیے کسی ایک کے جرم یا قصور کو پورے خاندان یا دوستوں کے گروپ کے سر تھونپنا جائز نہیں۔
میرے ملک کی افواج‘ میرے شیر جوان دفاعِ وطن کیلئے بے دریغ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں‘ ان کی سہاگنیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ مائوں کی گودیں اجڑ رہی ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کیلئے‘ کسی خاص گروہ یا جماعت کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے کسی ایک فرد کی ضد یا مصلحت کو افواج کی قربانیوں پر ترجیح نہ دیں۔ ان شہدا‘ ان غازیوں کا دل سے احترام کریں جو ہماری سلامتی کے لیے ملکی سرحدوں پر اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ یہی ہماری زندگی اور ہمارا جنون ہے۔پاکستان کے بیشتر با شعور عوام اس وقت زخم خوردہ ہیں‘ وہ موجودہ سیاسی منظر نامے پر سخت غصے میں ہے لیکن اس غصے کو اپنے دست و بازو کے خلاف استعمال مت کیجئے‘ اس غصے کو مثبت سمت دیجیے‘ یا کسی مناسب وقت کیلئے اسے سنبھال لیجئے۔
اس وقت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کے خلاف مختلف مقدمات اور ریفرنسز تیار کیے جا رہے ہیں۔ ہر روز پریس کانفرنسز میں انہیں دھمکایا جاتا اور جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کس نے کیا سلوک کیا‘ ان کی حکومت کے خلاف کس کس نے اغیار کی سازشوں کا آلہ کار بننا گوارا کیا۔ یہ سب کچھ اگر کچھ سینوں میں محفوظ ہے تو اس لوح میں بھی لکھا جا چکا ہے جہاں نہ توکسی کے خلاف ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی سے ناانصافی کی جاتی ہے۔ صرف اتنا یاد رکھ لیجئے کہ تاریخ اور وقت بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ دیکھ لیجئے جن کے سائے سے بھی خوف آتا تھا‘ آج وہ کہاں ہیں۔ آج جس کا دل چاہتا ہے‘ ایو ب خان، ٹکا خان،نواب آف کالا باغ، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف سمیت ہر کسی کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے کسی قسم کا خوف اور ڈر محسوس نہیں کرتا۔اقتدار اور طاقت کا آناجانا تو لگا رہتا ہے‘ جو آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔ ایسے میں کسی بھی آنے والے وقت میں پوچھا جا سکتا ہے کہ ''آصف علی زرداری کو گھوڑوںکے اصطبل کا انچارج کیوں اور کس کے کہنے پر مقرر کیا گیا تھا‘‘ ؟ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں زرداری صاحب نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بتا یا ہے کہ ان کی جھولی میں عمران خان کے تمام اتحادیوں کو کس نے‘ کب اور کس طرح ڈالا۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ اتحادی مخصوص اشارے کے بغیر اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے ۔آج کی گزارشات کو کسی ادارے کی تضحیک سے کسی طو ربھی منسلک نہ کیا جائے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کی سلامتی کو جو زک سیاستدانوں اور سیاست نے پہنچائی ہے‘ اس کا مداوا ہمیشہ ریاستی اداروں ہی نے کیا ہے۔
لاہور گیریژن میں ریٹائرڈ فوجی افسران سے سوال و جواب کی طویل محفل میں بہت ہی خوش کن باتیں کی گئیں۔ اب ملک میں یہ خوش آئند سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی غدار نہیں ہے‘ سب اپنی اپنی سوچ اور اپنے اپنے نظریات کی بنا پر پاکستانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب علی و زیر‘ محسن داوڑ اور منظور پشتین پر اس طرح اعتراضات نہیں کیے جاتے مگر کوئی ہمارے شہداء کی تضحیک کرے گا تو پھر ہم خاموش نہیں رہ سکتے کیونکہ ہمارے شہدا میں سے‘ چاہے کوئی سپاہی ہو یا افسر‘ ہر ایک کی شہا دت لا الٰہ الا اﷲ کے نام سے حاصل کیے گئے وطن کی حفاظت کیلئے ہوتی ہے۔ رب کریم ہمارے شہدا کی شہا دت کو قبول کرتے ہوئے‘ انہیں دنیا ا ور آخرت میں جو مقام دیتے ہیں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے:
17 اپریل 2012ء کے تمام ملکی اخبارات نے حیران کن خبر دیتے ہوئے بتایا کہ شہدا کے متعلق قرانِ کریم میں اﷲ کی گواہی کہ شہید مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں‘ ان تمام لوگوں کی آنکھیںاور متعصب ذہن کھول دینے کیلئے کافی ہے جس کا نظارہ پسرور کے چند ایک نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کیا۔ یہ منظر دیکھ کر ہزاروں کے مجمع نے اﷲ کی وحدانیت اور پاکستان کے اسلام کے قلعے کی حفاظت کیلئے جان دینے والوں کے اعلیٰ مقام اور مرتبے کی گواہی دی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 16 اپریل 2012ء کو پسرور کے نواحی گائوں 'بٹھے‘ کے پرانے قبرستان میں ایک خاتون کی تدفین کیلئے جب قبر کھودی جا رہی تھی تو گورکنوں کی غلطی سے ایک پرانی قبر کھل گئی جس میں ستمبر 1965ء کی جنگ میں شہید ہونے والے ایک پاکستانی فوجی کا جسدِ خاکی تھا۔ یہ منظر سب کو حیران کر دینے والا تھا کہ اس شہید فوجی کا جسدِ خاکی اور اس پر پہنی ہوئی پاک فوج کی خاکی وردی اپنی اصلی حالت میں اور تروتازہ موجود تھی۔ قبرستان میں موجود لوگ یہ نظارہ دیکھ کر بے ساختہ کلمہ طیبہ ، درود پاک اور سبحان اﷲ کا اونچی اونچی آواز میں ورد کرنا شروع ہو گئے۔ ان کیلئے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ جنگ ستمبر کے گمنام شہید کے جسم سے اٹھنے والی انجانی خوشبو فضا کو ہر جانب معطر کر رہی تھی۔ اس چھوٹے سے گائوں سے یہ خبر موبائل فون کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے دور دور تک پہنچ گئی اور سینکڑوں کلومیٹر دور سے بھی لوگ اس کی تصدیق کرنے اور شہید کی زیارت سے فیض یاب ہونے کیلئے قبرستان پہنچنا شروع ہو گئے۔ قبرستان میں چاروں طرف اﷲ اکبر اور کلمہ شہادت کے نعرے گونجنا شروع ہو گئے۔ شام تک اپنی آنکھوں سے اس معجزے اور شہدا کی عظمت کی تصدیق کرنے والوں کا اس چھوٹے سے گائوں کے قبرستان میں تانتا بندھا رہا ۔ لوگوں کا ایمانی قوت اور جذبۂ شہا دت پر ایمان مزید پختہ ہو گیا۔ پھررات ہونے پر سب کی مشاورت سے جنگ ستمبر کے اس گمنام شہید کو کلام پاک کی تلا وت کے سائے میںایک نئی قبر میں دوبارہ دفنا دیا گیا۔ پینتالیس سال کا عرصہ کوئی معمولی بات نہیں ہوتی‘ آج کے ایک انسان کی اوسط عمر اس سے کچھ ہی زیا دہ ہوتی ہے۔47 برس بعدبھی 6 ستمبر کی جنگ میں پاک فوج کے شہید ہونے والے سپاہی کا جسم اور اس پر پہنی ہوئی خاکی وردی کا با لکل صحیح حالت میں ظاہر ہوکراپنے اطراف میں خوشبو بکھیرکر پورے قبرستان کو مہکا دینا قرآنِ پاک کی ان آیات مبارکہ کی گواہی ہے کہ'' شہید کو مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس موجود بہتر رزق پا رہے ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے‘‘۔(مفہوم)
آج جب ملک کے مختلف حصو ں میں اس وردی کے خلاف نعرے سننے کو ملتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اس کے خلاف کمپین چلائی جاتی ہے تو سوچنے لگتا ہوں کہ چھ ستمبر کے شہید جوان کی وردی پینتالیس سال بھی اسی حالت میں ملتی ہے توکیا اس سے اس وردی کے تقدس و احترام کی گواہی نہیں ملتی۔ پسرور کا یہ قصبہ کوئی زیا دہ دور نہیں‘ آج اس واقعے کو دس سال ہو چکے ہیں اور اس گمنام شہید کو دیکھنے والے لوگ ابھی زندہ ہیںجن سے اس واقعے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔اس شہید کے ترو تازہ چہرے اور قائم دائم اس کی خاکی وردی اپنی پاکیزگی اور وطن سے محبت کا اعلان کر رہی تھی۔