"MABC" (space) message & send to 7575

دہلی کو کیسے بچایا گیا؟

ایک نجی چینل کے پروگرام میں پاکستان کے ایک سابق سینئر سفارتکار کے ان الفاظ نے اپنے سننے والوں کو اس وقت چکرا کر رکھ دیا کہ جب انہوں نے تاریخی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ستمبر1965ء میں پاکستان چھمب اور اکھنور پر قبضہ کر کے آگے بڑھنے لگا تھا تو امریکا نے پاکستان کی پیٹھ میں زہریلا خنجر گھونپتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی کو پھر سے غلامی میں بدل دیا ۔ اکھنور سیکٹر میں پاکستانی فوج کی تیز رفتار پیش قدمی کو دیکھ کر امریکی اداروںنے رپورٹ دی کہ جس طرح پاکستانی فوجیں بھارتی علاقوں پر قبضہ کر رہی ہیں‘ ڈر ہے کہ اگلے دس دنوں میں یہ دستے دہلی تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت امریکی شہ دماغ سرجوڑ کر بیٹھے اور غور کیا کہ آخر ان فتوحات کے پیچھے کون ہے؟ معلوم ہوا یہ کہ آپریشن گرینڈ سلام کی کمان کرنے والے میجر جنرل اختر حسین ملک ہیں جو ہر طرح کے نامساعد حالات کے باوجود آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے ملتے ہی امریکا نے اپنے سارے مہروں کو متحرک کر دیا اور جنرل ملک کو اسی طرح آپریشن کی کمان سے نکال دیا گیا‘ جیسے آج عمران خان کے خلاف سارے مہروں کو اکٹھا کر کے انہیں وزیراعظم ہائوس سے بے دخل کیا گیا ہے۔ جس طرح اپوزیشن کی بعد المشرقین جماعتوں کو ایک فورم پر اکٹھا کر کے حکومت طشتری میں رکھ کر انہیں پیش کی گئی‘ یہ سارا منظر نامہ دیکھ کر ستمبر65ء کے وہ واقعات ذہن میں تازہ ہو گئے جو اب متعدد کتابوں میں تاریخ کی صورت میں قلمبند کیے جا چکے ہیں اور جن کی طرف ایک سابق سینئر سفارتکار نے اپنے ایک حالیہ پروگرام میں اشارہ کیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ چھمب سیکٹر کی کمان تبدیلی کے کردار ہی سانحہ 71ء کے اصل ذمہ دار تھے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ ایک ایسا مو ضوع ہے جس کے بارے میں آج کی نئی اور بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھی نسل کو بھی سوچنا ہو گا کہ ہم کب تک ایسے مہروں کے ستم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ کب تک یہ لوگ ہمارا گوشت نوچتے رہیں گے؟ ان مہروں سے لاعلمی کی روش اب ختم ہونی چاہئے۔ ہمیں اپنے دوست اور دشمن کی کھل کر پہچان ہونی چاہئے۔ یہ لا علمی ہی دراصل بعد میں قوم کی بد قسمتی بن جاتی ہے کہ لوگوں کو بھوک اور افلاس کا خوف دلاتے ہوئے انہیں ان کے حقیقی دشمنوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا ۔
GOC بارہ ڈویژن‘ میجر جنرل اختر حسین ملک کو آپریشن گرینڈ سلام کی کمان سونپتے ہوئے کہا گیاتھا کہ اس آپریشن کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ احکامات ملتے ہی جنرل اختر ملک نے 28 اگست کو مری سے کھاریاں‘ اپنا ٹیکٹیکل ہیڈ کوارٹر قائم کر لیا۔ 30 اگست کو جلال پور میں 7ڈویژن ہیڈ کوارٹر میںایک کانفرنس ہوئی جس میں ساتویں ڈویژن کے جی او سی میجر جنرل یحییٰ خان اور دسویں انفنٹری بریگیڈ کے بریگیڈیئر عظمت حیات بھی شریک تھے۔ دورانِ کانفرنس جب جنرل یحییٰ خان کی باری آئی تو وہ بار بار ایک ہی بات کہتے رہے کہ ''میں صاف کہہ رہا ہوں کہ دسواں انفنٹری بریگیڈ ابھی اس حملے میں حصہ نہیں لے سکے گا‘‘۔ اس حملے میں شرکت سے انکار کا جواز موصوف نے یہ پیش کیا کہ یہ بریگیڈ ابھی ابھی بھائی پھیرو سے یہاں پہنچا ہے۔ اس پر جنرل ملک نے خاصازک ہو کر کر کہا: جب آپ قصور سے چلے تھے تو کیا آپ کو جی ایچ کیو کا واضح حکم نہیں ملا تھا؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ مجھے آج صبح چھمب پر حملے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے؟ لیکن یحییٰ خان کسی صورت نہ مانے جس پر جنرل ملک نے 102 بریگیڈ کے ظفر علی خان کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا:اﷲ مالک ہے ظفر! ہم ان کے بغیر ہی چھمب پر حملہ کریں گے۔
یحییٰ خان کو دیکھتے ہوئے ان کی انفنٹری کے بریگیڈیئر عظمت حیات نے بھی اس آپریشن میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ اب اس انکار کے بعد صرف 102 بریگیڈ کے ظفر علی خان ، 4 کور آرٹلری کے بریگیڈیئر امجد علی چودھری اور آرٹلری کے بریگیڈیئر خور شید احمد خان نے گرینڈ سلام کے کمانڈر جنرل ملک کا ساتھ دینا تھا۔ یحییٰ خان کے انکار کے اگلے روز‘ اس اہم ترین مرحلے پر جنرل ملک کی نفری میں مزید کمی کرتے ہوئے 102 انفنٹری بریگیڈ کی کچھ رجمنٹس اور 19 AKR بھی 12ویں ڈویژن سے واپس لے لی گئیںلیکن جنرل اختر ملک نے اس پر بھی ہمت نہ ہاری اور اکھنور پر قبضہ کیلئے قدم بڑھا دیے ۔ اس وقت حیران کن طور پرکسی نے بھی یحییٰ خان کی اس حرکت پر جواب طلبی نہیں کی حالانکہ یہ اسی طرح کا فعل تھا جیسے سینکڑوں سال قبل کی لڑائیوں میں عین حملے کے وقت لشکر میں سے کوئی راجہ اپنی فوجیں نکال کر واپس لے جائے۔
چھمب پر حملے کیلئے یکم ستمبر‘ پانچ بجے کا وقت مقرر ہوا تھا۔ اس سے پہلے‘ ساڑھے تین بجے بریگیڈیئر امجد علی نے اپنے توپخانے سے دشمن کے ٹارگٹس ڈھونڈ ڈھونڈ کر دیوا، برسال، چھمب اور ساتھ ہی دریائے توی کے مغربی کناروں پر شدید قسم کی گولہ باری شروع کرا دی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ 102 بریگیڈکے کمانڈر ظفر علی خان کا پلان تھا کہ توی کے مغربی حصے‘ پیر جمالانوالی پر قبضہ کرتے ہوئے دشمن کی ہر رکاوٹ اور پوسٹ کو تباہ کرتے ہوئے چک نواں اور چک پنڈت پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے۔ انہوں نے یہ مشن9 بجے تک مکمل کرنے کے بعد یکم ستمبر کو ہی بارہ بجے تک چھمب اور سکرانہ سیکٹر کو اپنے قبضے میں لینا تھا۔ ٹھیک پانچ بجے آپریشن گرینڈ سلام شروع ہوا اور چھمب کی جانب بڑھنے کیلئے 11 کیولری نے سٹارٹ لائن کو عبور کیا۔ دشمن کی مشین گنوں نے مزاحمت کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہیں جلد ہی خاموش کر دیا گیا۔ ساڑھے دس بجے پٹ پارا پر قبضہ ہو چکا تھا، پھر دو بجے دیوا بھی قبضے میں آ گیا۔ یہاں سے بھارتی توپخانے کاایک آبزرور گرفتار ہوا جس سے انتہائی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ دوسری جانب 5 آزاد کشمیر رجمنٹ نے مائرہ، موئل اور پیر جیمل پر قبضہ کر لیا‘ اسی دوران منڈیالہ بھی دشمن کے ہاتھ سے نکل گیا۔
جنرل ملک نے 102 بریگیڈ کو حکم دیا کہ وہ دریائے توی کے مغربی حصے کے علاقوں پر قبضہ کریں مگر اسی وقت 11 کیولری کی براوو اور چارلی کمپنیوں کو نجانے کس کے حکم پر 9ٹینکوں تک محدود کر دیا گیا۔ جنرل اختر ملک یہ سب حالات بخوبی دیکھ رہے تھے مگر انہوں نے نہ رکنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے حوصلہ نہ ہارتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی اور جلد ہی خیرووال، سکرانہ اور پھاگلہ پر بھی پاکستانی فوج قابض ہو گئی اور پھر یکم ستمبر کو ہی بارہ بجے براوو سکواڈرن کے ٹینک چھمب کے اطراف سے گزرنا شروع ہو گئے لیکن انہیں شمال کی جانب واپس آنا پڑگیا کیونکہ ٹینک سکواڈرن کی جانب سے دشمن کو پیچھے دھکیلنے کیلئے 10 انفنٹری بریگیڈ کا انتظار تھا کہ شاید یحییٰ خان نے آرام کرنے کے بعد اسے آپریشن میں شمولیت کی اجازت دے دی ہو لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ بریگیڈئر عظمت حیات سے رابطہ ایسے ختم ہوا جیسے وہ کہیں غائب ہو گیاہو۔
امریکا اور اس کے حواریوں سمیت بھارت کی خیر خواہ قوتیںآپریشن گرینڈ سلام کے ابتدائی حملوں میں پاک فوج کی چھمب میں چڑھائی کے ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی ناقابلِ یقین فتوحات دیکھ کر بوکھلا گئیں اور انہوں نے جنرل ملک کے زیر کمان10ویں بریگیڈ کی مدد کرنے سے ان کو رکوا دیا۔ دفاعی مبصرین اور جنرل ملک کے مطا بق ڈیفیکٹو کمانڈ نے چھمب کی فتح سے پہلے ہی ان کے ہاتھ اس طرح کمزور کر دیے کہ عظمت حیات نے ان سے وائرلیس سمیت ہر قسم کا رابطہ منقطع کر لیا یہاں تک کہ جنرل ملک خودہیلی کاپٹر پر اسے ڈھو نڈنے کیلئے نکلے لیکن اس کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ دوپہر کے بعد جنرل ملک نے ملٹری پولیس کے میجر گلزار اور کچھ دیگر افراد کو اس کی تلاش کیلئے روانہ کیا لیکن وہ بھی ناکام رہے ۔ جب نفری کی کمی بھی جنرل اختر ملک کو نہ روک سکی تو آخری حربے کے طور پر 2 ستمبر کی شام جنرل موسیٰ نے جنرل ملک کو حکم دیا کہ ''آپ دریائے توی عبور کریں اور وہاں دسویں انفنٹری بریگیڈ کیلے برج ہیڈ بنائیں‘‘ اور پھر آپریشن گرینڈ سلام کی مکمل کمانڈ میجر جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی گئی۔ وہی یحییٰ خان جس کے عہدِ حکومت میں ملک دو لخت ہوا تھا۔ اس طرح امریکا نے اپنے گماشتوں کے ذریعے کشمیر یوں کی آزادی چھین لی۔ عمران خان بالکل درست کہتا ہے کہ اگر آج ہم نے اپنی حقیقی آزادی کا اعلان نہ کیا تو ہماری نسلیںہمیشہ ہمیشہ کے لیے مغربی استعمار کی غلامی میں رہیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں