یہ ہمارا یقین ہے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عمل خدا کے نصب کیے گئے 'کیمرے‘ کی آنکھیں ریکارڈ کر رہی ہیں اور یومِ جزا پر یہ ہر چیز کا حال کھول کر بیان کر د یں گی، اس روز دلوں کے بھید تک کھول کر رکھ دیے جائیں گے۔ جب جسم کا ایک حصہ فر فر اپنے ذریعے کیے جانے والے اعمال کی گواہی دے گا تب ہر جرم‘ ہر گناہ کا حساب لیا جائے گا۔ اس وقت نہ تو کسی کا اثر و رسوخ، نہ کسی کا عہدہ اور نہ ہی کسی کی دولت اس کے کام آئے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثریت دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ بیٹھی ہے اور ساری تگ و دو دنیا کی زندگی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر کوئی جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ مال کے حصول کا خواہشمند ہے‘ ہر کوئی اونچی‘ بڑی اور مہنگی گاڑی میں گھومنا چاہتا ہے۔ یہی حال ہمیں اپنے انتظامی افسران اور اہلکاروں میں نظر آتا ہے جو‘ سب نہیں‘ حکامِ بالا، سیاسی رہنمائوں اور اپنے تھوڑے سے مفادات کے لیے ہر غیر قانونی و غیر آئینی حکم بجا لانے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔
ماڈل ٹائون لاہور میں جو کچھ ہوا تھا‘ جو بربریت روا رکھی گئی تھی‘ جس طرح انسانی جانوں کو قتل کیا گیا تھا‘ جس طرح 90 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں مار کر انہیں زندگی بھر کیلئے اپاہج اور معذور کیا گیا تھا‘ جس طرح ایک حاملہ خاتون اور اس کی نند کو چند فٹ کے فاصلے سے برسٹ برسا کر شہید کیا گیا تھا‘ جس طرح زخمی افراد کئی کئی ماہ ہسپتالوں میں درد اور تکلیف کی شدت برداشت کرتے رہے‘ وہ مناظر آکائیوز میں آج بھی محفوظ ہیں مگر آج تک‘ چھوٹے اہلکار سے اس بربریت کا حکم صادر کرنے والے اعلیٰ عہدیدان تک‘ کوئی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا۔ ننھی بسمہ گھنٹوں عدالتوں‘ کچہریوں کے باہر انصاف کے حصول کے لیے کھڑی رہی مگر اس کی شنوائی نہیں ہو سکی۔ اعلیٰ ترین مناصب پر فائز افراد نے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا وعدہ کیا مگر 8 سال گزرنے کے باوجود‘ آج تک کوئی ذمہ دار اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ تو کئی برس ہوئے‘ بیت چکا‘ اب کیا جا سکتا ہے‘ فلاں تو اب اس منصب پر فائز ہوا ہے‘ اس کا تو اس بہیمانہ قتل عام سے کوئی تعلق نہیں تو یہ اس کی اور ہم سب کی بھول ہے۔ انتظامی کرسیاں کسی ایک شخص کیلئے مخصوص نہیں ہوتیں‘ انسان اس دنیا سے اسی طرح آتے جاتے رہتے ہیں جس طرح گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے صدر اس دنیا سے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا مدفن ہر کسی نے دیکھا ہو گا‘ اسی طرح ہم سب نے بھی ایک دن دنیا کے کسی بھی کونے میں جمع کیے گئے ڈالرز‘ پائونڈز‘ مال و اسباب‘ پُر تعیش گھر‘ مہنگی گاڑیوں اور اپنے محلات اور پلازوں کو چھوڑ کر اپنے اعمال کے ہمراہ‘ خالی ہاتھ اپنے رب کے حضور چلے جانا ہے‘ جہاں ہم سب سے پوچھا جائے گا کہ جب تمہیں پتا تھا کہ دنیا میں ظلم و بربریت کا بازار کس نے گرم کیا‘ ایک حاملہ خاتون کے چہرے پہ سیدھی گولیوں کس نے اور کس کے حکم پر برسائی گئیں‘ وہ ماں‘ جو چند ماہ بعد ایک نئی جان کو دنیا میں لانے والی تھی‘ اس کو کس نے قتل کیا‘ تو تم نے اپنے اختیارات کا استعمال انصاف کے حصول کی خاطر کیوں نہیں کیا؟ تم نے انصاف کیوں نہیں کیا؟
اعلیٰ عہدیداران کو ان کے جرائم کی سزا نہ ملنے کے سبب ہی معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے‘ اگر کوئی اعلیٰ عہدہ ہے‘ اگر سیاسی اثر و رسوخ ہے تو پھر کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انتظامی افسران کو ایسے ہی واقعات سے یہ شہ ملتی ہے کہ وہ حکمرانوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں‘ وہ شاید یہی سوچتے ہیں کہ ان کی خدمت سے کسی بڑے عہدے یا بیرونِ ملک کسی سفارت خانے میں پُرکشش پوسٹنگ حاصل کر لیں گے اور یوں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پُرسکون زندگی گزاریں گے حالانکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی زندگی‘ خواہ ہر آسائش ہی کیوں نہ میسر ہو‘ ایک عارضی زندگی ہے‘ انسان کی اصل زندگی تو اس کی موت کے بعد شروع ہو گی جہاں اسے اپنے ہر ہر عمل کا حساب دینا ہو گااور وہاں یہ عذر کام نہ آ سکے گا کہ فلاں کا م کا آرڈر فلاں شخصیت نے دیا تھا یا نوکری بچانے کی خاطر یہ غلط کام سرانجام دینا پڑا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے سیالکوٹ جلسے کے لیے منتخب کی جانے والی پہلی گرائونڈ کو خالی کرانے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے‘ان سے آمرانہ ادوار کی یاد تازہ ہو گئی۔ جس طرح سرکاری افسران کی نگرانی میں پی ٹی آئی کے بینرز اور پوسٹر وغیرہ پھاڑ کر سٹیج کو تہس نہس کیا گیا‘ وہ منا ظر سب نے دیکھے اور ان کا ایک ایک لمحہ موبائل کیمروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری قوم تک پہنچ گیا۔ سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے جلسے کیلئے مخصوص جگہ کے حوالے سے ایک طرف وفاقی وزیر داخلہ پے در پے ٹویٹس کر کے جذبات بھڑکانے کی کوشش میں مشغول نظر آئے تو دوسری طرف مریم نواز صاحبہ ڈی پی او کو براہِ راست احکامات جاری کر رہی تھیں۔ جس طرح مسجد نبوی کے باہر حکومتی وفد کے ساتھ پیش آئے واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی‘ وہ تو بھلا ہو سچائی اور حق کا کہ اس واقعے میں پکڑے گئے بیشتر افراد کا تعلق حکمران جماعت سے نکلا‘ اسی طرح سیالکوٹ کے واقعے کو بھی مذہبی رنگ دینے اور اقلیتوں کو اکسانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ہلہ شیری دے کر جلسہ گاہ اکھاڑنے کی کوشش کے علا وہ سارا دن مسیحی نوجوانوں کو پنجاب بھر سے سیالکوٹ پہنچنے کی ہدایات کی جاتی رہیں۔ جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ملک میں مذہبی منافرت کو بھڑکا کر ایک اور محاذ کھڑا کر دیاجائے۔اس سے قبل مدینہ منورہ میں پیش آئے واقعے کی بنیاد پر پاکستان کے شہر فیصل آباد میں سیاسی مخالفین کے خلاف پرچہ درج کرایا گیا‘ جس طرزِ عمل کی اسلام آباد ہائیکورٹ نے سختی سے مذمت کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالے سے5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیاجس میں کہا گیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے کوئی سیاسی یا ذاتی مفاد کے لیے مذہب کا استعمال نہ کرسکے، ماضی میں ریاستی عناصر کی جانب سے مذہب کے غلط استعمال نے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔ایسے حساس ایشو پر غلط مقدمات سے پیدا ہونے والا ماحول عدم برداشت اور ماورائے عدالت قتل کا باعث بنا، مشال خان اور سری لنکن شہری کا بہیمانہ قتل اس کی مثال ہیں۔ تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ مذہبی جذبات کا ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال بذاتِ خود توہینِ مذہب ہے۔ یہ مسجدنبوی والے واقعے کو غلط انداز سے اچھالنے ہی کا شاخسانہ تھا کہ ایک مقامی مسجد میں ایک انتہائی ناخوشگوار اور قابلِ مذمت واقعہ پیش آیا۔ سیالکوٹ واقعے کے پیچھے بھی کوئی ایسا ہی منصوبہ کارفرما دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ چرچ کے قریب گرائونڈ میں قائم سٹیج تہس نہس کرنے کے بعد جس دوسری جگہ پر جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی‘ وہاں سکیورٹی کا لیول صفر تھا۔ تمام راستے اس طرح کھول دیے گئے کہ جس کا جہاں سے جی چاہتا تھا‘ بغیر کسی روک ٹوک اور تلاشی کے‘ جلسہ گاہ میں داخل ہو جاتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ شاید لوگوں کو جو مرضی میں آئے‘ وہ کرنے کیلئے کھلا ماحول فراہم کیا جا رہا تھا۔ اس دن اس جلسہ گاہ اور سٹیج کو ایک شاہراہِ عام بنا دیا گیا تھا‘ اس سے زیادہ سکیورٹی تو دیہات اور گائوں میں ہونے والے ایک عام سے میلے یا کبڈی میچ کے دوران فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیں۔ یہ سب کیوں کیا گیا ؟ اس کی لازمی انکوائری ہونی چاہیے۔ سیالکوٹ میں عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اسے معمولی نہ لیا جائے کیونکہ یہ وہی جلسہ گاہ تھی جہاں عمران خان نے پہلی مرتبہ اپنے قتل کی سازش کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے قتل کی سازش تیار ہوئی ہے جس میں کچھ مقامی کردار بھی شامل ہیں اور جن کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک وڈیو میں انہوں نے سب کچھ ریکارڈ کرا دیا ہے۔