سیاسی جھمیلوں اور ایک ہی طرح کے منظرنامے سے دل اوب جائے تو موضوعِ تحریر غیر سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی اور دینی موضوعات میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اگر چند باعلم اور دین سے گہری وابستگی رکھنے والوں کو چھوڑ کر کسی انسان کو یہ بتایا جائے کہ قرآن مقدس میں ہمارا یعنی بنی نوع انسان کا بطورِ خاص تذکرہ کیا گیا ہے تو ان کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہو گی اور کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ کہاں ہم جیسے گنہگار انسان اور کہاں اﷲ کی اپنے محبوب اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ پر نازل کی جانے والی کتاب قرآن پاک! یہی بات جب کوئی مستند صاحبِ علم تصدیق کرتے ہوئے کہے کہ ہاں! یہ سچ ہے کہ قرآنِ مجید میں ہم سب کا بحیثیت انسان تذکرہ موجود ہے پھر فوری طور پر ذہن میں سوال اٹھے گا کہ قرآن پاک میں میرا ا تذکرہ کہاں اورکن الفاظ میں کیا گیا ہے۔ دل میں خیال آیا کہ میرے جیسا گناہگار انسان‘ جس سے نجانے کتنے لوگ ناراض ہوں گے‘ جس نے جانے انجانے میں خدا تعالیٰ کے کتنے ہی احکامات کی نافرمانی کی ہو گی‘ اس کا اچھے الفاظ میں تذکرہ نہیں ہو سکتا لیکن میرے سامنے موجود صاحبِ علم ہستی مسکرا کر کہنے لگی کہ اس میں تو شک ہی نہیں کہ قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے جگہ جگہ اسے ہدایات دیتے ہوئے‘ خوشخبری دے کر اور ڈرا کر سمجھایا گیا ہے۔ جیسے جیسے قرآنِ مجید کو پڑھتے جائیں تو معلوم ہو گا کہ انسانی طرزِ زندگی کو اچھے طریقے سے اور اللہ رب العزت کی جانب سے پسند کیے جانے راستے یعنی دین اسلام اور اس کے طے کیے جانے والے ضابطے کی رو سے گزارنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ اس میں ہم سے پہلی قوموں کی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو ملنے والے عذاب کے نظارے بھی کرائے گئے ہیں تاکہ ہم ان گناہوں، غلطیوں اور اعمالِ بد سے دور رہیں۔ درویشوںکا کہنا یہ ہے کہ جس دن کسی انسان نے قرآن پاک میں اپنا تذکرہ غور سے دیکھ لیا‘ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے رب کو ناراض کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔
حضرت احنف بن قیسؒ، جو ایک مشہور تابعی تھے‘ کے متعلق روایت ہے کہ وہ ایک بڑے عرب سردار تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر احنف کو غصہ آتا تو ایک لاکھ تلواروں کو غصہ آ جاتا۔ ایک دن ان کے سامنے کسی شخص نے قرآنِ مجید کی ایک آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے: ''ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟ (الانبیاء: 10) عربی چونکہ ان کی اپنی زبان تھی‘ یہ آیت سن کر چونک پڑے‘ جیسے انہوں نے کوئی نئی بات سنی ہو۔ کہنے لگے: قرآن مجید میں میرا تذکرہ! ذرا قرآن پاک لائو تاکہ میں دیکھوں کہ میرا کیا تذکرہ کیا گیا ہے اور میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟ وہ قرآنِ مجید پڑھتے گئے تو لوگوں کی مختلف صورتیں‘ مختلف گروہ ان کے سامنے آنے لگے۔ ایک گروہ آیا جس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ''(وہ لوگ) رات کے تھوڑے سے حصے میں سوتے تھے۔ اور اوقاتِ سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے۔ اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے‘ (دونوں) کا حق ہوتا تھا۔ (الذاریات: 17 تا 19) پھر کچھ ایسے لوگ آئے جن کا حال یہ تھا کہ: ''ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے‘ اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (السجدہ: 16) پھر کچھ ایسے لوگ کہ: ''اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدے کر کے (عجز و ادب سے ) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں‘‘۔ (الفرقان: 64) پھر ایک گروہ آیا جس کی شان یہ تھی کہ: ''جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 134) پھر کچھ ایسے جوان سامنے آگئے جن کا عالم یہ تھا: ''اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور لوگوں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود ہی ضرورت ہو‘‘۔ (الحشر: 9) ابھی ان سے ہٹے ہی تھے کہ ایک دوسرا گروہ سامنے آیا: ''جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اوراپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ: 37 تا 38)
حضرت احنفؒ اپنے آپ کو بخوبی پہچانتے تھے۔ کہنے لگے: خدایا! میں تو ان میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اب انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور یہاں ان کو دوسری طرح کے لوگ ملے۔ ایک جماعت: ''ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ بھلا ہم دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں‘‘۔ (الصافات: 35 تا 36) مزید آگے بڑھے تو کچھ ایسے لوگ ملے کہ: ''جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں‘‘ ۔(الزمر: 45) کچھ ایسے بدقسمت بھی ملے جن کے بارے میں کہا گیا کہ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ جہنم میں کیوں داخل کیے گئے تو وہ کہیں گے: ''ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور نہ فقروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اوراہلِ باطل کے ساتھ مل کر حق سے انکار کرتے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔ (المدثر: 43 تا 44)
حضرت احنفؒ یہ صورتیں دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ خدایا! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! میں ان سے بیزار ہوں، اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اپنے متعلق نہ تو دھوکے میں تھے اور نہ ایسے بدگمان کہ اپنے کو مشرکوں اور باغیوں میں سمجھ لیں۔ان کو ایسے گروہ کی تلاش تھی جس کو وہ اپنا تذکرہ کہہ سکیں۔ ان کو اپنے ایمان کا یقین تھا اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا علم بھی۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت پر بھروسہ بھی کامل تھا۔ ان کا یقین تھا کہ اس صورتحال کی جامع و مکمل تصویر کشی اس صحیفۂ ہدایت میں ضرور ملے گی۔ حضرت احنفؒ کو بالآخر اپنی تلاش میں کامیابی ہوئی اور اس پاک کتاب میں انہوں نے اپنے آپ کو ڈھونڈ نکالا: ''اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں ، انہوں نے چھے برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (التوبہ: 102) یہ آیت پڑھتے ہی وہ بولے: بس! میں نے اپنا مقصود پا لیا۔ میں نے اپنے آپ کو تلاش کر لیا۔ مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ خدا کی توفیق سے جو کچھ نیک اعمال ہوئے‘ مجھے ان کا انکار نہیں‘ ان کی ناقدری نہیں۔ مجھے خدا کی رحمت سے نااُمیدی بھی نہیں کہ ''اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہو سکتے ہیں جو گمراہ ہیں‘‘۔ (الحجر: 56) ان سب سے مل جل کر جو صورت تیار ہوئی‘ وہی میری صورت ہے۔ اس آیت میں میرا اور میرے جیسوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ قربان اپنے رب کے‘ جس نے اپنے گناہ گار بندوں کو فراموش نہیں فرمایا۔
حضرت احنفؒ کی تلاش ختم ہو گئی مگر یہ کتاب موجود ہے اور قیامت تک رہے گی۔ اگر آج ہم بھی اپنے آپ کو اس میں تلاش کریں گے تو ضرور پا لیں گے۔ اس کتاب میں اللہ پاک نے غریبوں، معذوروں، ناداروں، یتیموں، بیماروں اور مظلوموں کا خیال رکھنے والوں سے متعلق جو ذکر فرمایا ہے‘ اگر ہم اللہ کی مخلوق سے پیار کرنا شروع کر دیں‘ غریب، نادار ، بیمار، بھوکے پیاسوں، یتیموں کو سینوں سے لگا لیں‘ ان کے درد اور تکلیفیں بانٹنا شروع کر دیں‘ اپنی خواہشات کی قربانی دے کر ضرورت مندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں تو پھر تو کوئی شک نہیں ہم اعلیٰ ترین گروہوں میں شمار ہو جائیں۔ قرآن پاک تو اپنے پڑھنے والوں کو کھل کر کہہ رہا ہے کہ ''ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے‘ تم سمجھتے کیوں نہیں‘‘۔ اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے ا حکامات کو خود پر لازم کر لیں تو پھر رحمن کے بندوں کی جو تعریف کی گئی ہے‘ اس میں ہمارا ذکر بھی لازمی ہو جائے گا۔