"MABC" (space) message & send to 7575

ڈالرز کم نہیں ‘بس گم ہیں کہیں

اس وقت جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے‘ ہر اس شخص‘ جس نے اس ملک کی دولت لوٹی ہے‘ کے خلاف صاف اور شفاف تحقیقات شروع کرنے میں ایک دن کی بھی تاخیر اگر قومی جرم نہیں تو کیا ہے؟ ملک کی دولت لوٹ کر کسی بھی شکل میں اسے ملک میں چھپانے یا باہر منتقل کرنے والوں سے ایک ایک پائی کی وصولی ہی اس ملک کی معیشت میں بہتری لا سکتی ہے۔ اس سے ایک طرف ملک کے معاشی نظام میں سدھار آئے گا اور دوسری جانب باقی لوگوں کو عبرت ہو جائے گی اور وہ وطن عزیز کی دولت کو مالِ مفت سمجھ کر اڑانے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اگر عدالتی حکم پر ہمیش خان کو لندن سے اور منصور الحق کو امریکا سے لایا جا سکتا ہے تو پھر کسی کو بھی بااثر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین‘ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کیا جانے والا یہ مطالبہ اس وقت پاکستانیوں کے دل کی آواز بن چکا ہے اور ''اکراس دی بورڈ انصاف‘‘ کی گونج‘ جو ہر جانب سے سنائی دے رہی ہے‘ کو نظر انداز کرنا ملکی معیشت سے کھلواڑ اور ملک کے دفاع سے غفلت کے مترادف ہے۔
عمران خان نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے جب 2014ء میں یہ مطا لبہ کیا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ''کیا وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں احتسابی اداروں کو مطلوب کسی بھی شخص کو ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں انتظامیہ ملزمان کی گرفتاری کے بجائے انہیں سلیوٹ مارنے اور وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے میں دن رات مصروف رہتی ہے؟‘‘۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے کے مدمقابل رہا کرتی تھیں۔ 'ڈالر گرل‘ کی طرح نجانے کتنے افراد لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے خلیجی ریا ستوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ ایان علی کیس تو ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ وہ اپنے ساتھ پانچ لاکھ ڈالر لے کر دبئی جا رہی تھی کہ پکڑی گئی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے کئی ماہ پیشتر ایک خط کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ ان کی معلومات کے مطابق‘ دبئی سمیت بعض خلیجی ممالک میں سینکڑوں پاکستانیوں نے اربوں روپے غیر قانونی طریقوں سے منتقل کیے ہیں۔ مراسلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں امارات اور سعودی عرب کی ٹیکس اتھارٹیوں سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اب تک ان کی معلومات کے مطابق کراچی سے 265، لاہور سے 182، راولپنڈی اور اسلام آباد سے 106، پشاور سے 15 اور 92 دیگر افراد‘ جن کا تعلق مختلف شہروں سے ہے‘ غیر قانونی طور پر پیسہ بیرونِ ملک منتقل کر چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ بلیک منی پاکستان سے صرف دبئی اور سعودی عرب ہی بھیجی جا رہی تھی؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا کیونکہ اوور سیز پاکستانی ہمیشہ سے یہ شکوہ کرتے آئے ہیں کہ ہمیں تو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے کہا جاتا ہے جبکہ ہماری آنکھوں کے سامنے عرب امارات، برطانیہ، کینیڈا، سپین، سنگاپور، جنوبی افریقہ، مالٹا ، کینیا اور امریکا سمیت بہت سے ممالک میں پاکستان سے ناجائز طور پر کمایا جانے والا پیسہ گردش کر رہا ہے۔ ان سب کی بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ دھڑلے سے دنیا کے ہر ملک میں مختلف ناموں سے مہنگی جائیدادوں کی خریداریاں کی جا رہی ہیں۔ اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ ایسی جائیدادوں کو خفیہ یا پوشیدہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ لگ بھگ پانچ‘ چھ برس قبل عمران خان خان خیبر پختونخواہ میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کیلئے دبئی پہنچے تو اس کانفرنس میں ان سے یہی سوال کیا گیا تھا کہ آپ کے ملک کا سارا سرمایہ تو دبئی اور یورپ پہنچ رہا ہے اور آپ ہمیں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔
اگر ملکی دولت کا سنجیدگی سے سراغ لگانا چاہتے ہیں تو احتسابی اداروں کو چاہئے کہ وہ بڑی شخصیات کے بجائے ان کے فرنٹ مینوں اور قانونی مشیروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اس بات کا کھوج لگائیں کہ کس شخصیت نے پیسہ کس ملک میں چھپایا ہوا ہے۔ آئس لینڈ کی ایک بڑی گروسری سٹور چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بیشتر حصص ایک سیاسی شخصیت کے ہیں اور یہ ان کے ایک جانے پہچانے فرنٹ مین نے خرید رکھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اکتوبر 2014ء میں 90 ملین ڈالر سے اس گروسری سٹور چین کے حصص خرید ے گئے تھے۔ اس طرح کے مفروضوں کی تحقیقات کرنا بھی لازم ہے کہ بیشتر ایسے مفروضے جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتے۔ آئس لینڈ کے ایک بڑے سٹور کی چین خریدنے والے کا نام کھوجنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ پتا کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ کون صاحب ہیں اور ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حصص خریدنے کے بعد سب سے پہلے وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کو پندرہ دن کا نوٹس دیتے ہوئے ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تھا۔ شنید ہے کہ جب یہ حکم جاری ہوا تھا تو اس وقت پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا کیونکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے ایشیائی افراد‘ جن میں بھارتی بھی شامل تھے‘ کی ملازمتوں کو برقرار رکھا گیا تھا۔ پھر انہیں پتا چلا کہ غریب پاکستانیوں پر یہ نزلہ اس لیے گرایا گیا ہے کہ یہ سٹور پاکستان سے لوٹی گئی دولت سے خریدا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی آئس لینڈ ہے کہ جس کے وزیراعظم کا نام جب پاناما سکینڈل میں آیا تو اسی رات لاکھوں افراد وزیراعظم ہائوس کے باہر یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے کہ وزیراعظم فوری استعفیٰ دیں کیونکہ ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارا وزیراعظم کرپٹ ہو۔ موصوف نے لاکھ وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کی کہ پاناما کا الزام ان پر نہیں بلکہ ان کی بیگم پر ہے لیکن ان کا یہ عذر کسی نے بھی تسلیم نہ کیا اور مظاہرین اس وقت تک ان کے گھر کا گھیرائو کیے رہے جس تک وزیر اعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دیا۔
ایک جا نب پاکستان کے خزانوں سے ڈالر لوٹ لوٹ کر بیرونی ممالک میں انویسٹ کیے گئے تو دوسری جانب سندھ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان کے کئی علا قوں میں جانور اور انسان ایک گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ چولستان اور تھر میں قحط اور پانی کی کمی سے ہزاروں مویشی اور درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں ناگفتہ بہ ہیں۔ لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں دل کے مریضوں کے علاج تو کجا‘ ان کو معمول کے مطابق دیکھنے کی سہولت بھی میسر نہیں۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ایک سٹریچر پر دو‘ دو مریض لیٹے ہوتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وہیل چیئرز کو بھی اب سٹریچر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مریضوں کو اسی پر ڈرپ لگا دی جاتی ہے اور لواحقین باری باری اس ڈرپ کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر آج تیل کی خریداری کیلئے ڈالرز نہیں‘ اگر بیرونی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں تو جس طرح بے گناہ شیریں مزاری کو گاڑی سے نکال کر گھسیٹا گیا اور مرد پولیس اہلکاروں کے ذریعے گرفتار کر کے ساتھ لے جایا گیا‘ اگر چند بڑے کرپشن کیسز کے فرنٹ مینوں کو اسی طرح گرفتار کیا جائے اور کسی رو رعایت کے بغیر ان سے سب کچھ اگلوایا جائے تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے۔ ابھی تو محض آئس لینڈ کے ایک سٹور کی کہانی سنائی گئی جو لگ بھگ 90 ملین ڈالر سے خریدا گیا۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ اگر فرنٹ مینوں کو یہ پیشکش کر دی جائے کہ نشاندہی کی گئی رقم کا 10فیصد انہیں بطور معاوضہ دیا جائے گا تو ممکن ہے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ بھر کر ملک کی خدمت کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ جاننے کے لیے کسی ماہر اقتصادیات کی ضرورت نہیں کہ اس وقت پاکستانیوں کی کتنی دولت بیرونی ممالک میں موجود ہے۔ یقینا سب اثاثے لوٹ مار کا نتیجہ نہیں‘ بہت سے افراد نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھی بیرونِ ملک جائیدادیں بنائی ہیں مگر بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کا اگر دس فیصد بھی‘ جو لوٹ مار کے مال سے بنایا گیا ہے‘ اگر واپس آ جائے تو یہ اتنی خطیر رقم ہو گی کہ ملک کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں