16 جنوری 2022ء کا میاں شہباز شریف کا ٹویٹ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں وہ عمران خان اور ان کی ''نااہل‘‘ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''پٹرولیم مصنوعات میں تین روپے فی لٹر مزید اضافہ سراسر ظلم اور غریب عوام کا معاشی قتل ہے‘ عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہونے پر تو عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا تھا لیکن اضافے پر خوب پھرتی دکھائی جاتی ہے، نااہلی، نالائقی اور کرپشن میں ڈوبی حکومت عوام کو مہنگائی کی دلدل میں ڈبو چکی ہے‘‘۔ محترمہ مریم نواز کا 21 جنوری 2021ء کا یہ ٹویٹ دیکھیں جس میں وہ پی ٹی آئی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرما رہی ہیں: ''پٹرول بم گرانے کے ایک ہفتے کے اندر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عوام دشمنی ہے، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کا اثر ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا پر پڑتا ہے، کیا عمران حکومت نے عوام کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ نااہلی کے عذاب کا مقابلہ کر سکیں؟ سوچئے کہ غریب کیسے زندہ رہے‘‘۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی یکم اکتوبر 2021ء کی پریس کانفرنس کا ایک کلپ کل رات سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ فرماتے ہیں: ''مہنگائی شروع ہوتی ہے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرنے سے، اس وقت کون ہے جو مہنگائی کے اس دور میں 137 روپے فی لٹر پٹرول خرید سکتا ہے۔ کیا کامیابی اس کو کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے آپ بلین ڈالر لے لیں اور پٹرول کی قیمت میں 30 روپے اضافہ کر دیں؟ مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم پٹرول کی قیمت میں ایک پیسہ بڑھانے کی بھی اجازت نہیں دے گی۔ یہ ہم نہیں کر سکتے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر پٹرول مہنگا کر دیں‘‘۔ سابق وزیراعظم اور سینئر لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی صاحب فروری 2021ء میں کہتے ہیں کہ ''موجودہ عالمی منڈی میں جو تیل کی قیمت ہے‘ اس حوالے سے پاکستان میں یہ کسی بھی طرح پچھتر روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارا اندازہ ہے کہ 70 روپے سے بھی کم ہونی چاہیے مگر آج پٹرول 111 روپے کا فی لٹر مل رہا ہے‘‘۔
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں کی یہ دکھ اور درد بھری باتیں سنتے ہوئے عوام کو لگتا تھا کہ ان سے زیادہ ملک کے غریب عوام کا دکھ‘ درد کسی دوسرے کو نہیں اور عمران خان حکومت کی ''ظالمانہ‘‘ پالیسیوں کی وجہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے لوگ ایک بار پھر سے یہ امید لگا کر بیٹھ گئے کہ اب کی دفعہ جیسے ہی مسلم لیگ کی حکومت آئے گی تو مہنگائی اور کرپشن کا اس طرح خاتمہ ہو جائے گا جیسے پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کا صفایا ہو گیا۔ ہمارے وہ ساتھی جو گزشتہ کئی برسوں سے عمران خان کی کسی بھی بات اور فیصلے کو سراسر غلط کہتے ہوئے میاں صاحبان کے تمام فیصلوں کا جواز پیش کرتے ہوئے تکرار کیے جاتے تھے‘ عدم اعتمادکی تحریک پیش ہونے سے پہلے ہمیں کھڑاک کرتے ہوئے بتاتے تھے کہ ''شہباز سپیڈ‘‘ دیکھئے گا‘ پی ٹی آئی کی مچائی ہوئی ہر تباہی کو وہ بہترین قسم کے پلستر اور رنگ و روغن سے اس طرح چمکا دیں گے کہ عمران خان کے گرد ان کے چند حاشیہ نشین ہی رہ جائیں گے۔
گزشتہ روز‘ رات گئے جو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا‘ اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے یہ تو چند دنوں میں ہی دیکھنے اور سہنے کو مل جائے گا لیکن اس کی ایک چھوٹی سی جھلک مجھے آج صبح ہی سننے کو مل گئی کہ گھر میں کام کرنے والی ماسی نے روک کر کہا: صاحب جی! صبح جب میں کام کیلئے گھر سے نکل رہی تھی تو مالک مکان نے کہہ دیا کہ اس مہینے سے مکان کا کرایہ بڑھائوں گا کیونکہ پٹرول اور ڈیزل میں 30 روپے اضافے کی وجہ سے ہر چیز کے دام بڑھ جائیں گے اور اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اس نے کہا ہے کہ اگر تم کرایہ نہیں بڑھا سکتی تو یکم جون سے پہلے میرا مکان خالی کر دینا۔ ماسی نے ہمیں بھی الٹی میٹم دے دیا کہ فی الفور اس کی تنخواہ بڑھائی جائے ورنہ وہ کسی دوسری جگہ کام ڈھونڈ لے گی۔ دودھ والے نے بھی صبح صبح کہہ دیا ہے صاحب جی! دس روپے فی لیٹر دودھ کی قیمت بڑھا رہا ہوں، دہی کی قیمت بھی اب بڑھ جائے گی۔ یہ تو ابھی آغاز ہے‘ ابتدا ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی ایسی لہر آئے گی کہ لوگ عمران خان کی حکومت کو یاد کرنے لگیں گے کہ جس نے بجلی اور پٹرول پر عوام کو سبسڈی دے کر مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھ رکھا تھا اور جسے موجودہ سیٹ اپ نے ہٹا دیا ہے۔
عرب امارات سے اوور سیز پاکستانی عثمان خالد نے ایک کمال کی پوسٹ بھیجی ہے‘ جسے پڑھتے ہوئے ایک لمحے کیلئے تو ہنسی آئی لیکن پھر یہ سوچ کر دل دہل سا گیا کہ کل سے جب بسوں‘ رکشوں‘ پک اپ وین‘ لوڈرز‘ ٹرکوں‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیوں‘ ریل گاڑیوں اور جہازوں کے کرایے بڑھیں گے تو ہمارے جیسے سفید پوشوں اور بیس‘ پچیس ہزار ماہانہ کمانے والے کروڑوں خاندانوں کا کیا بنے گا؟ عثمان خالد کی پوسٹ ملاحظہ کیجئے ''ہوتی نہیں جو قوم 150 کے پٹرول پر خوش... 180 کا لٹر ہی فقط اس کی سزا ہے‘‘۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد علی محمد خان کی تقریر کے آخری حصے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ پوچھتے ہیں ''کیا وہ دوبارہ سنائوں؟‘‘۔
محترم شہباز شریف‘ جناب آصف زرداری‘ مریم نواز صاحبہ اور جناب بلاول بھٹو عوام سے یہی وعدے کرتے رہے‘ انہیں خوش خبریاں سناتے رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے غریبوں کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں‘ وہ آئیں گے تو ان سب اقدامات کا مداوا کریں گے۔ محض دو ماہ قبل بلاول بھٹو نے کراچی سے اسلام آباد اور مسلم لیگ نواز نے لاہور سے اسلام آباد تک ''مہنگائی مارچ‘‘ کیا تھا لیکن یہ کیا کہ جیسے ہی عمران کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا‘ دو دن بعدہی بجلی کے نرخوں‘ جن میں عمران خان حکومت نے پانچ روپے فی یونٹ کمی کی تھی‘ میں ساڑھے چھ روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔ اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کے بعد ایک بار پھر حکومتی ترجمان میڈیا کے سامنے بیٹھ کر عوام کو خوشخبریاں دے رہے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔ بجلی کی قیمت میں 7 روپے فی یونٹ اضافے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں جبکہ بجٹ میں بجلی کے ٹیرف میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے پاس مہنگائی‘ بجلی اور عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے اضافے کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں تھی تو عمران خان حکومت کو کیوں گھر بھیجا گیا؟ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ مہنگائی پی ٹی آئی کی نااہلی کی وجہ ہے‘ حکومت کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے مہنگائی ہو رہی ہے۔ اب حکومت سنبھالنے کے بعد ڈیڑھ ماہ بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں یکدم 30 روپے کا اضافہ کیا گیا‘ وہ بھی پندرہ روزہ روایت سے ہٹ کر‘ یکایک دیر رات کو اضافے کی سمری جاری کی گئی۔ اب تک کی پی ڈی ایم کی حکومت کی کارکردگی کیا ہے؟ کیا یہ ''این آر او 2‘‘ کو قانونی شکل دینے کیلئے آئے ہیں؟ ایک ہی دن میں جس طرح قومی اسمبلی سے متنازع قوانین منظور کرائے گئے وہ پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ایک بدنما داغ کی طرح ثبت ہو کر رہ گئے ہیں۔ 90 لاکھ اوور سیز پاکستانیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ نیب کے جس طرح پر کاٹے گئے ہیں‘ یہ کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں۔ مولانا صاحب نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ کرپشن ہمارے نزدیک کوئی ایشو نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ نے قوم کے نو نہالوں کو مخاطب کر کے کہا تھا: بچو! کرپشن ہوتی رہتی ہے‘ اس کو سریس نہیں لینا چاہئے۔ نیب کے ساتھ جو کیا گیا‘ وہ ایسی درد ناک کہانی ہے جس کیلئے کئی صفحات درکار ہیں۔ اس طرح کی خبریں عوام کو حکومت ہی نہیں پارلیمانی نظام سے بھی بدظن کر رہی ہیں۔ کیا پی ڈی ایم ان قوانین کی منظوری کے لیے حکومت میں آئی تھی؟ پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے ہی کہا جا رہا تھا کہ یہ لوگ صرف اپنے مقدمات کا بندوبست کرنے آئے ہیں اور جس طرح نیب کو حکومتی معاملات سے الگ کیا گیا ہے‘ ان اقدامات سے الزامات کی تصدیق ہوتی نظر آتی ہے۔