یہ بات کسی کو سمجھانے یا ثابت کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ پاکستان بھر کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت گزشتہ ایک ماہ سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے سے ڈر رہی تھی اور اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ تیل کی قیمتوں میں کوئی ردو بدل کر سکے۔ گزشتہ پانچ‘ چھ ہفتوں میں متعدد بار وزرا اور حکومتی نمائندوں نے پریس کانفرنسز میں تیل کی قیمتیں کم رکھنے پر عمران خان کو معتوب کیا مگر خود بھی قیمتیں بڑھانے سے گریز کیا۔ اس کیلئے کہیں اتحادیوں کی مرضی دیکھی جا رہی تھی تو کہیں نیشنل سکیورٹی کونسل کی مہر لگوانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ وہ قیادت جو پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے معاملے میں اس قدر پس و پیش سے کام لے رہی ہو‘ اس سے یہ امید رکھنا کہ بیرونی قوتوں کا دبائو اور امریکا و یورپ کی ناراضی کو مول لیتے ہوئے بھارت کو جواب دینے کیلئے اس نے اپنی مرضی سے ایٹمی دھماکے کیے‘ کوئی افسانہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ یوم تکبیر کو رائیونڈ کی یادگار بنانے کیلئے دس روزہ تقریبات کا اعلان کیا گیا ہے‘ مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام پر گرائے گئے پٹرول بم کی خوفناک گڑگراہٹ‘ جو خیبر سے کراچی تک کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے‘ اور اس کی تباہ کاریوں سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا ئے۔ یوم تکبیر کو 24 برس گزر چکے ہیں‘ 2013ء سے 2018ء تک‘ وفاق میں پانچ سال جبکہ پنجاب میں 2008ء سے 2018ء تک مسلسل دس سال تک یہ جماعت برسر اقتدار رہی‘ مگر اس سے پہلے یومِ تکبیر پر دس روزہ جشن منانے کا خیال کبھی نہیں آیا۔ اس طرح کے کاغذی ڈراموں سے پی ڈی ایم حکومت کو عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کو کم کرنے کی ناکام ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ یہ ملک و قوم کے پیسوں کے ضیاع کی بھی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ ایٹمی دھماکوں کی سچی کہانی اگر سننا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سنیے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر بتایا تھا کہ جب انہوں نے اور ان کی ٹیم نے مارچ 1983ء میں ملک کو ایٹمی قوت بنایا تھا تو اس وقت اس کا کریڈٹ لینے والے کہاں پہ تھے اور کیا کرتے تھے۔ ان 28 مئی 2018ء کو میاں نواز شریف لاہور میں یوم تکبیر کے حوالے سے ایک تقریب میں اپنے پارٹی کارکنوں کو بتا رہے تھے کہ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں آپ کے لیڈر نواز شریف نے پانچ دھماکے کر کے بھارت کو جواب دیا۔ نواز شریف کے حکم سے سرنگیں چند دنوں میں کھدوائی گئیں۔ جب یہ تقریر کی جا رہی تھی تو اس وقت رمضان مبارک کا بارہواں روزہ تھا، تقریب میں موجود سینئر سیاستدانوں سمیت کسی کو بھی یہ جرأت نہ ہو سکی کہ وہ کہہ سکتا کہ میاں صاحب! آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ وہ سرنگیں آپ کے حکم سے نہیں بلکہ 1979-80ء میں جنرل ضیاء الحق کے حکم سے اس وقت تیار کرائی گئی تھیں جب آپ اتفاق فائونڈری سے وابستہ تھے اور سیاست سے آپ کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے تیس مئی کو جو چھٹا دھماکا کیا تھا‘ وہ کہاں کیا گیا تھا۔ ایٹمی دھماکوں کو مسلم لیگ اور نواز شریف کا کارنامہ قرار دینے والوں کو پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی داستان ایک بار پھر پڑھنی چاہیے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ تو 18 مئی 1974ء کو ہی کر لیا گیا تھا جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا۔
1977ء میں کوئٹہ کی پانچویں کور کے بریگیڈیئر محمد سرفراز کو جی ایچ کیو سے پیغام ملتا ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) سے سائنسدانوں کی ایک ٹیم بلوچستان کے کچھ علا قوں کے سروے کیلئے آ رہی ہے‘ آپ نے ان کی رہنمائی اور سکیورٹی کی ڈیوٹی کرنی ہے۔ اگلے روز ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچی جو صبح سے شام تک تربت، آواران، خضدار، اور مشرقی حصے میں خاران کے علا قوں کا زمینی اور فضائی جائزہ لیتے ہوئے ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرتی رہی جہاں ایٹمی تجربات کیلئے زیرِ زمین سرنگیں کھودی جا سکیں۔ تیسرے روز یہ ٹیم ایک ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو چاغی ڈویژن کے گرینائٹ پہاڑوں میں 185 میٹر بلندی پر واقع تھا۔ انتہائی احتیاط اور بڑی رازداری سے سائنسدانوں نے ضلع چاغی کے ان پہاڑوں اور ان کے اردگرد کی زمین کی طاقت اور مضبوطی جانچنے کے علاوہ نمی اور پانی کے تناسب کا جائزہ لینے کیلئے بے شمار ٹیسٹ کیے۔ جب یہ مرحلہ مکمل ہو گیا تو اس ٹیم کے سامنے دوسرا اہم ترین کام اس علاقے کا Vertical سروے کرنا تھا جسے مکمل کرنے میں پورا ایک سال لگ گیا۔ اب سائنسدانوں کو یہ فیصلہ کرنا تھاکہ پہاڑوں میں کسی ایسی جگہ پہ سرنگ کھودی جائے جس کے اوپر کم از کم 700 میٹر اونچائی تک پہاڑ ہو تاکہ وہ سرنگ میں ہونے والے ایٹمی مواد کے طاقتور دھماکے کو برداشت کر سکے۔ پاک فوج کے مایہ ناز انجینئرز نے Fish Hook طرز کی 3325 فٹ طویل مطلوبہ سرنگ کھودنے میں کامیابی حاصل کر لی اورخاران میں پاک فوج ''ایل‘‘ شکل میں 300x200 فٹ کی سرنگیں کھودنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ تمام کام بریگیڈیئر سرفراز کی نگرانی میں جاری تھا‘ جن کی خدمات جنرل ضیاء الحق نے پاکستان اٹامک انر جی کمیشن کے سپرد کرتے ہوئے فوج کی نگرانی میں ''سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس‘‘ کا ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا کام ایٹمی دھماکوں کیلئے زیر زمین عمودی اور افقی‘ دونوں قسم کی ٹیسٹ سائٹس تیار کرنا تھا۔ اس کیلئے FWO کو بھی ان سے منسلک کر دیا گیا تھا۔
آج ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے والوں نے شاید ہی سرگودھا کے علاقے کیرانہ ہلز اور واہ گروپ کا نام کبھی سنا ہو‘ حالانکہ یہ دو نام اگرچہ گمنام سہی لیکن پاکستان کے ایٹمی تاریخ میں یاد گار ضرورہیں کیونکہ 11 مارچ 1983ء کو پاکستان کے ایٹم بم کا پہلا کولڈ ٹیسٹ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہیں پر کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ یہ اولین ایٹمی تجربہ ڈاکٹر اشفاق احمد کے زیر نگرانی فوج کے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس نے مکمل کیا تھا۔ کیرانہ ہلز میں مطلوبہ سرنگوں کی کھدائی کا کام 1979ء میں شروع ہوا اور 1983ء میں مکمل ہوا۔ 11 سے13 مئی 1998ء کو بھارت نے جب راجستھان کے علاقے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو ڈاکٹر اشفاق کو بیرونِ ملک سے 16 مئی کو فوری واپس بلایا گیا۔ سائنسدانوں کی ٹیم نے چاغی کی کوہ راس کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں 6 ایٹمی دھماکے کرنے کی بہترین گنجائش تھی۔ 19 مئی کو اٹامک انر جی کمیشن کے 140 سائنسدانوں، انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل ایک ٹیم بوئنگ737 کی دو پروازوں سے بلوچستان پہنچی‘ ان کے کچھ بڑے بڑے آلات NLC کے سپیشل ٹرالوں کے ذریعے ایس ایس جی کمانڈوز کے زیر نگرانی چاغی پہنچائے گئے جبکہ مطلوبہ نیوکلیئر ڈیوائسز کو فوج کےC130 جہاز کے ذریعے‘ تیار حالت میں مطلوبہ سائٹ تک پہنچایا گیا۔ اس وقت چونکہ بیرونی حملے کا بھی خدشہ موجود تھا‘ اس لیے ملکی حدود میں پرواز کرنے کے باوجود چار F16 فائٹرز سی ون تھرٹی کی حفاظت پر مامور تھے۔ ان کے پہنچنے سے پانچ روز قبل ہی فوج کے انجینئرز نے چاغی اور دوسری جگہوں پر کھودی گئی سرنگوں کو ریت اور سیمنٹ کے6 ہزار تھیلوں کے ذریعے سیل کر دیا تھا۔ سخت گرمی کی وجہ سے یہ سیمنٹ 27 مئی تک مکمل خشک ہو چکا تھا۔
میاں صاحب اب بھی اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے اگلے دن ہی سرنگیں کھودنے کا حکم دے دیا تھا۔ حضور! یہ سرنگیں تو بہت پہلے سے تیار تھیں۔ 28 مئی کو ایک بج کر تیس منٹ پر فائرنگ آلات کو ایک بار پھر چیک کیا گیا اور لگ بھگ ڈھائی بجے پاک فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں ڈاکٹر اشفاق اور لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار کی سربراہی میں پاک فوج کی ایک ٹیم چاغی پہنچی اور پھر تین بج کر سولہ منٹ پر چیف سائنٹفک آفیسر محمد ارشد نے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا اور یوں پاکستان نے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کی سعادت حاصل کر لی۔ تیس مئی کو اس مقام سے 150 کلومیٹر دور صحرائے خاران میں ''چاغی 2‘‘ کے مقام پر پاکستان نے چھٹا ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ خدارا! یومِ تکبیر کو قوم کا فخر رہنے دیں‘ اسے خواہ مخواہ اپنے کھاتے میں نہ ڈالیں۔