شنید ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ اور پی ڈی ایم کی باقی تمام جماعتوں نے ملک بھر میں عمران خان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی کال دیتے ہوئے‘ سرکاری ملازمین کی حاضری اس احتجاج میں یقینی بناتے ہوئے‘ سب کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ عمران خان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے حکومت کی جانب سے تھمائے گئے بینرز لہرائیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی جانب سے لاکھوں نہیں‘ کروڑوں روپے تقسیم کیے گئے ہیں۔ عمران خان کے ''ملک دشمنی‘‘ پر مبنی بیان کے خلاف احتجاج کی کال کسی اور نہیں بلکہ آصف علی زرداری کی جانب سے دی گئی اور اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب‘ دونوں صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھرپور تیاریاں کی گئیں۔ ویسے تو گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی نے اسلام آباد میں جو مظاہرہ کیا‘ اس کی وڈیو اب تک سوشل میڈیا پر دل لگی کا سامان بنی ہوئی ہے کہ درجنوں جھنڈوں میں گنتی کے بارہ پندرہ افراد عمران خان کے خلاف نعرے بازی کرتے اپنا ''پرزور‘‘ مظاہرہ ریکارڈ کرا رہے تھے۔ اچھی بات ہے‘ ملک دشمنی کی بات کرنا تو دور اگر کوئی ایسا سوچے بھی تو اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرنا چاہیے بلکہ قوم کو بھرپور طریقے سے اس کے خلاف ا ٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ البتہ جناب آصف علی زرداری کو اس احتجاج کی کال دینے سے پہلے یا عمران خان کے خلاف نعرے لگوانے سے پہلے نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے اپنے اُس طویل انٹرویو کو ایک بار دوبارہ دیکھ لینا چاہیے تھا جس میں انہوں نے شریف خاندان کے بارے میں کچھ انکشافات کیے تھے۔
سننے میں آیا ہے کہ جنابِ زرداری کمال کی یادداشت رکھتے ہیں‘ پھر انہیں ضرور یاد ہو گا کہ انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''میاں نواز شریف گریٹر پنجاب بنانے کی سازش کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر اینکر پرسن کو یقین نہیں آیا۔ اس نے چونکتے ہوئے اور ایک لمحے کیلئے اپنی سانس روکتے ہوئے‘ بے یقینی کی کیفیت میں دوبارہ سوال کیا: زرداری صاحب! آپ اس ملک کے صدر رہے ہیں‘ آپ کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹس بھی آتی رہی ہیں‘ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران بھی آپ صدرِ مملکت تھے‘ آپ نے میاں نواز شریف پر اتنا بڑا الزام کیسے لگا دیا؟ سابق صدر نے یہ بات سننے کے بعد پورے یقین کے ساتھ دوبارہ کہا ''میں الزام نہیں لگا رہا بلکہ مجھے پورا یقین ہے اور میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا‘ میاں نواز شریف اس سازش پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔ جناب والا! پہلے آپ اپنے اس انٹرویو کو یاد کریں اور قوم کو بتائیں کہ آپ کا وہ بیان ٹھیک تھا یا نہیں؟ پھر یہ دیکھیں کہ کسی دوسرے کے خلاف احتجاج کرنا ہے یا نہیں؟
اب یہ دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ عمران خان نے اپنے اس انٹرویو‘ جسے نشر کرنا اب ممنوع قرار دیا جا چکا ہے‘ میں کہا ہے‘ کیا وہ باتیں سارے سنجیدہ دانشور ایک عرصے سے نہیں کر رہے؟ ایک اہم قومی ادارے کے سربراہ نے لاہور اور کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے ایسی ہی باتیں کی تھیں۔ اکتوبر 2017ء میں کراچی میں ''معیشت اور قومی سلامتی کے باہمی تعلق‘‘ کے حوالے سے ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا تھا ''آج سلامتی اور معیشت باہم منسلک ہیں۔ تمام قومیں روایتی اپروچ پر نظرثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے مابین توازن پر توجہ دے رہی ہیں، سوویت یونین کے پاس ہتھیار کم نہیں تھے لیکن کمزور معیشت کے باعث اُس کا شیرازہ بکھر گیا‘‘۔ اسی طرح امسال اپریل میں لاہور ماڈل ٹائون میں ایک افطار ڈنر میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ''تاجروں کو برآمدات کے ذریعے ملکی معیشت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ برآمدات ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سوویت یونین معاشی ناکامی کی وجہ سے زوال کا شکار ہوا تھا۔ یہ کوئی فوجی شکست نہیں تھی جیسا کہ عام طور پر کچھ لوگ سمجھتے ہیں، ہمیں برآمدات پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہے کیونکہ قومی سلامتی معیشت سے جڑی ہوئی ہے‘‘۔
کیا خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت سیاسی لیڈرشپ بھی ان خدشات کا اظہار نہیں کر چکی۔ کیا عمران خان پر تنقید کرنے والا حکمران اتحاد وفاقی وزیر احسن اقبال کی تقریر بھول گیا ہے؟ ان کا وہ ٹی وی انٹرویو آج بھی انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں ''اگر معیشت تباہ ہوئی‘ اگر ہماری اکانومی ہماری ضروریات کو پورا نہ کر سکی تو پھر دشمن اور طاقتور ممالک ہم سے ہمارا نیوکلیئر پروگرام چھین لیں گے اور اگر ہم ایٹمی طاقت نہ رہے تو پھر دشمن ہم سے ہماری سالمیت چھین لے گا‘‘۔ یہی بات تو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر دیوالیہ ہو گئے‘ ہماری معیشت اگر تباہ ہو گئی‘ ہمارے پاس اگر زرمبادلہ کے ذخائر نہ رہے تو ہمیں امپورٹ اور ٹریژری بلوں کیلئے اپنا آپ بیچنا پڑ جائے گا‘ اس لیے حکومتی اتحاد معیشت کو درست کرے، لیکن پی ڈی ایم حکومت عمران خان کی اس بات کو ملک دشمنی میں بدلنے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ آپ جو کہیں وہ درست اور وہی بات اگر کوئی دوسرا کہے تو آپ کی نظروں میں وہ غدار اور وطن دشمن ہے۔ عمران خان کے الفاظ کے چنائو پر بات ہو سکتی ہے لیکن ملک دشمنی اور غداری کے یہ الزامات اور ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان‘ چہ معنے دارد؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
سابق وزیراعظم کے انٹرویو کی باز گشت ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آ رہی اور سب سے حیران کن اور مضحکہ خیز صورت حال اس طرح دیکھنے میں آ رہی ہے کہ عمران خان کو وطن دشمن سے لے کر غدار تک ثابت کرنے میں کیسے سب ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم ہائوس سے نکلنے سے پہلے ہم صحافیوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا کہ ''کوئی رہ تو نہیں گیا‘‘، بالکل اسی طرح عمران خان کل ہی پوچھ رہے تھے کہ بھئی! پتا کرو کوئی رہ تو نہیں گیا جس نے میرے انٹرویو کے بعد مجھے غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔
عمران خان کے بیان کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش پیپلز پارٹی سے کون پوچھے گا کہ آپ کی حکومت میں‘ آپ ہی کے صوبے میں ہزاروں افراد اچانک ایک کالعدم تنظیم کے جھنڈے اٹھائے ریاست مخالف نعرے لگاتے سڑکوں پر آ جاتے ہیں (حالیہ دنوں میں کراچی میں ہونے والے ایک بم دھماکے کی ذمہ داری بھی مذکورہ تنظیم نے قبول کی ہے) ان کے خلاف اب تک کیا ایکشن لیا گیا؟ شنید ہے کہ حال میں سندھ کی 35 تحصیلوں میں پارٹی ورکروں کو براہِ راست ڈی ایس پی بھرتی کیا گیا ہے جن میں سے کچھ افراد مبینہ طور پر کالعدم تنظیموں سے بھی تعلق رکھتے ہیں، جس طرح وفاق میں ہر پوسٹنگ‘ ٹرانسفر سے پہلے افسران کے کوائف کی مانیٹرنگ کے فرائض تحقیقاتی ایجنسی کو سونپے گئے ہیں‘ کیا براہِ راست بھرتی کیے گئے ڈی ایس پیز کے کوائف کی بھی اسی طرح چھان بین کرائی جائے گی؟ پی ڈی ایم کے ایک کرتا دھرتا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے سپیشل ایڈوائزر نے اسلام آباد میں‘ میڈیا کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ وہ جلال آباد‘ خیبر پختونخوا‘ اٹک‘ بھکر اور میانوالی تک کا علاقہ ''افغانیہ‘‘ نام کی ایک نئی سلطنت میں شامل کریں گے۔ ایک ایسی شخصیت جو ببانگ دہل پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا انکار کرتی ہے‘ اسے تو آپ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور ایک شخص جس نے ایسی سیاسی قیادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کی معیشت تباہ ہو گئی‘ تو پھر ہماری طاقت‘ ہمارا نیوکلیئر پروگرام بھی خطرے میں آ جائے گا‘ اس کی بات پر کان دھرنے کے بجائے سب اس کی طرف لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں‘ آخر اتنا تضاد کیوں؟