وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جو سب سے بہترین اور دلچسپ ریمارکس دیے‘ وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ حسبِ سابق پی ٹی آئی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد عمران خان کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سبسڈیز سے متعلق انتہائی دور کی کوڑی لاتے ہوئے ایک ایسی بات کی جسے سن کر سب کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پٹرول، ڈیزل، بجلی اور دیگر اشیا پر دی گئی سبسڈیز ایسے ہی ہیں جیسے کوئی آپ کو جعلی چیک دے کر بھاگ جائے۔ مفتاح اسماعیل کی حسِ مزاح کی جس قدر بھی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔ ان کا بنیادی تعلق چونکہ کراچی سے ہے لہٰذا اردو ان کے گھر کی زبان ہے اور زبان پر ان کا عبور بتا رہا تھا کہ الفاظ پر ان کی گرفت کسی سے بھی کم نہیں۔ ان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات ابھرے مگر انہوں نے بیشتر سوالات سے گریز میں ہی بہتری جانی۔
اس وقت شور مچا ہوا ہے کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے ملک کے معاشی حالات کے ابتر ہونے کا رونا رویا جا رہا ہے اور اشیائے ضروریہ پر ٹیکس ریٹ بڑھایا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف بجٹ میں مختلف سنیکس اور خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والے فلیور ز پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ بہتر ہوتا اگر لگے ہاتھوں ذہنوں میں ابھرنے والے ان سوالات کا جواب بھی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں دے دیا جاتا تاکہ عوام کے شبہات کا ازالہ ہو پاتا۔ اگر سبسڈی جعلی چیک کی مانند ہوتی ہے تو موجودہ حکومت جو فلم انڈسٹری اور فوڈ فلیورز سمیت متعدد شعبوں اور اشیا پر ٹیکس کٹوتی کر رہی ہے‘وہ کس ''جعلی چیک‘‘ سے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے مذکورہ ایشو پر بات ختم کرتے ہوئے یہ تک اعلان کر دیا ہے کہ آپ ہمیں حکومت واپس کر دیں‘ پھر دیکھیں کہ ہم تیل کی قیمتوں کو اپنے دور کے نرخوں تک دوبارہ کس طرح لے کر آتے ہیں۔ اب یہ امر کوئی ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ روس عالمی منڈی سے تیس سے چالیس فیصد تک سستے نرخوں پر تیل فراہم کرنے پر تیار ہے، اگر حکومت اپنی نادیدہ و ناقابلِ فہم مجبوریوں کے سبب اس رعایت سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شاید اس کے پاس فیصلہ کرنے کی قوت نہیں ہے۔
بجٹ پیش کرنے سے پہلے اکنامک سروے آف پاکستان نے جو رپورٹ پیش کی ہے‘ اگر اس کے اشاریے ہی دیکھ لیتے تو شاید عمران خان حکومت کو کوسنے دینے کے بجائے اپنے لہجے کو کچھ مدہم رکھا جاتا کیونکہ یہ سروے بتا رہا ہے کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میںپاکستان کی معیشت کو بہترین سہارا دیا گیا تھا اور ہر فیلڈ میں لوگ آگے بڑھ رہے تھے۔ جب یہ سروے‘ جو خود پی ڈی ایم کی حکومت نے شائع کیا ہے‘ حرف بحرف سچ ہے تو پھر اب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا رونا دھونا کیسا اور پی ٹی آئی پر کیسی الزام تراشی؟ یہ عوام کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ مخالفین کو سب سے زیا دہ دکھ اس بات کا ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں عوام کو سستا پٹرول و ڈیزل کیوں فراہم کیا گیا، بجلی کے نرخ پانچ روپے فی یونٹ سستے کیوں کیے گئے؟ گیس اور دوسری اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کیوں دی گئی؟ اگر پی ٹی آئی حکومت ٹیکس کے پیسوں سے غریب عوام کو ریلیف دے رہی تھی تو یہ جرم پی ڈی ایم حکومت کے نزدیک ناقابلِ معافی کیوں بن چکا ہے؟ وزیر خزانہ اگر خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والے فلیورزاور ایسنس پر کسٹم ڈیوٹی کم کر دیں تو یہ بہت اچھا اقدام‘ اگر سینما ہالوں‘ سٹوڈیوز فلموں اورڈراموں پر ٹیکسز کی چھوٹ دیں تو اس پر تالیاں لیکن اگر عمرا ن خان ان چیزوں‘ جن کا استعمال نہ صرف ناگزیر ہے بلکہ ہر شخص جن سے مستفید ہوتا ہے‘ پر ٹیکس سلیب کم کر دیں تو یہ اتنا بڑا جرم کیوںبن جاتا ہے؟
وزیر خزانہ صاحب ہنستے مسکراتے ہی سب خبریں اور اطلاعات عوام تک ایسے پہنچا دیتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلنے دیتے کہ کب انہوں نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سب کو بتا دیا بلکہ یہ سمجھ لیجئے کہ یقین کامل کر ادیا کہ اس سال پٹرول کی قیمتوں میں کسی بھی قسم کی کمی کا مت سوچئے گا بلکہ اپنے آپ کو اگلے دنوں میں چند مزید جھٹکوں کیلئے تیار کر لیں اور بہتر ہو گا کہ سیٹ بیلٹ بھی باندھ لیں‘ ایسا نہ ہو کہ اگلا جھٹکا آپ سے برداشت نہ ہو۔ گھی اور کھانے کے تیل سے متعلق انہوں نے رازداری سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ اس کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے بڑھانا پڑیں گی اور اس میں ہمارا کسی قسم کا قصور مت سمجھئے گا( کل تک سارا قصور عمران خان کے سر منڈھا جاتا تھا)۔ عوام ہرماہ ملنے والے بجلی کے بل میں پی ٹی وی کی جبری فیس ہی سے پریشان تھے کہ اب مسلم لیگ پلس پی پی پی کی عوام دوست سرکار نے بجلی کے بلوں پر نچلے اور متوسط طبقے کے صارفین پر نشانہ باندھ کر ایسا تیر چلایا ہے کہ انہیں اب ہر ماہ اپنے بجلی کے بل کے ساتھ دوہزار سے دس ہزار روپے اضافی ٹیکس اد اکرنا پڑے گا۔ میڈیاکے چند سرپھرے لوگوں نے جب اس بے تحاشا اور نامناسب اضافی بوجھ کے بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ عمران خان ملک جس حالت میں چھوڑ کر گیا ہے‘ اسے چلانے کیلئے سب کو مل کر قربانی دینا پڑے گی۔ اب بھی حکومت کی اپروچ مثبت سمت میں نظر نہیں آ رہی۔ کون نہیں جانتا کہ جب تک پاکستان در آمدی ایندھن سے بجلی بنانابند نہیں کرے گا‘ ملکی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی اور یہی عمران خان کا قصور تھا کہ وہ پیسہ آئی پی پیز پر لٹانے کے بجائے دیامر‘ بھاشا‘ مہمند اور دوسرے چھوٹے بڑے ڈیمزبنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ اوروہ بھی عوامی جمہوریہ چین کی مدد سے کیونکہ یہ پروجیکٹس سی پیک کیلئے بھی انتہائی کار آمد ہیں۔
بجٹ اور منی بجٹ جب سے پیش ہو رہے ہیں‘ حامی اور مخالفین اس قدر ٹیکنیکل قسم کی خامیاں اور خوبیاں پیش کرتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ سچ کیا ہے اور پروپیگنڈا کیا؟ لیکن اس میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ گزشتہ کافی عرصے سے ملک بھر میں تیل کی قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے ہر پندرہ دنوں بعد قیمتوں کا جو نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے‘ اس سے بجٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے کیونکہ تیل اور بجلی کی قیمتوں ہی سے عوام کی سانسیں اوپر نیچے ہوتی ہیں‘ اس لیے اب وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں عوام کی دلچسپی نہیںرہی۔ موجودہ حکومت سے یہی عرض کرنی ہے کہ کچھ تو غریبوں کا احساس کیجئے‘ آخر آپ کو عمرا ن خان اور پی ٹی آئی کے اچھے منصوبوں سے بھی اتنی الرجی کیوں ہے؟ غریب قوم کی بھلائی کیلئے صحت کارڈ اور احساس پروگرام جیسے مثبت کاموں کو کیوں بند کیا جا رہا ہے؟ روشنی دیکھتے ہی کیوں بھاگ اٹھتے ہیں۔
عمران خان نے2021-22 کے مالی سال کے لیے بجٹ میں غریب عوام کو سبسڈی دینے کیلئے1515 ارب روپے رکھے تھے جسے اس سال کے بجٹ میں مزید بڑھایا جانا تھا لیکن قربان جایئے اس نئی حکومت پر کے کہ اس نے عوام کو دی جانے والی اس سبسڈی میں816 ارب روپے کی کمی کرتے ہوئے اسے 699 ارب روپے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت مختلف ضروری اشیا میں عوام کو سبسڈی دے کر معیشت کا پہیہ بھی چلا رہی تھی اور عوام کی قوتِ خرید بھی بڑھا رہی تھی‘ شاید اسی وجہ سے موجودہ حکومت عمران خان پر آگ بگولہ دکھائی دیتی ہے۔پی ڈی ایم کی مشترکہ سرکار کے بجٹ کا سب سے مضحکہ خیز پہلو دیکھئے کہ اس میں ہوم کیٹل اور پولٹری فارمنگ کیلئے بھی بارہ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور یہ عمران خان کا وہی پروگرام تھا جو حکومت میں آنے کے چھ ماہ بعد ہی شروع کر د یاگیا تھا اور جسے مرغی کٹا سکیم کہہ کر اس کا تمسخر اڑایا جاتا تھا‘ اب موجودہ حکومت بھی اس کی افادیت کی قائل نظر آتی ہے اور اسے جاری رکھنے کے لیے 12 ارب روپے ان منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔