"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت سے تجارتی تعلقات مگر…

''خودی نہ بیچ‘ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ کے مصداق بھارت سے پیاز خریدیں، آلو خریدیں، بجلی خریدیں، چینی بیچیں، سیمنٹ بیچیں، جو بھی آپ کا دل چاہے‘ بھارت سے خریدتے اور بیچتے جائیں، اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اپنی عزتِ نفس نہ بیچیں، اپنی شناخت نہ بیچیں کیونکہ جب کوئی بہر صورت کاروبار کی نیت کر لے تو پھر کوئی حد نہیں رہتی۔ حکومت کے پاس اختیارات ہیں‘ سب کچھ کرے لیکن اپنی خودداری، عزتِ نفس اور وقار پر کبھی حرف نہ آنے دے۔ اہلِ وطن یقینا بھولے نہیں ہوں گے کیونکہ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ایک‘ ڈیڑھ دہائی قبل جب IPI یعنی ایران‘ پاکستان‘ انڈیا گیس پائپ لائن کے سمجھوتے پر ابتدائی دستخط ہوئے تو چند ہی دنوں بعد بھارت نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس معاملے کو ایسے لٹکایا کہ اب تک یہ معاملہ سرے نہیں چڑھ سکا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے بھارت کے دفاعی اداروں کے ذریعے اس کی سیاسی قیادت کو خبردار کیا تھا کہ اس منصوبے کے بعد آپ توانائی کے حصول کے لیے پاکستان کے محتاج ہو کر رہ جائیں گے اور پاکستان جب چاہے گا‘ ایران سے آپ کی طرف آنے والی گیس کی فراہمی روک کر صنعتوں کو مہیا ہونے والی توانائی کم کر دے گا۔ اس و قت کے بھارتی آرمی چیف نے کہا تھا ''پاکستان کے ہاتھوں اس طرح محتاج بننے سے بہتر ہے کہ ہم اپنا ایک ایک بلب بند کر کے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر لیں‘‘ اور پھر ہوا بھی ایسا ہی‘ اور بھارت کی ہر فوجی چھائونی کو ایک ایک بلب بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا اور ساتھ ہی بھارت نے آئی پی آئی منصوبے میں شمولیت سے معذرت کر لی کیونکہ اسے یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ امریکا اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دے گا۔ اسی منصوبے کے بدلے امریکا نے پاکستان کو تاجکستان سے گیس لینے کے منصوبے کے خواب دکھانا شروع کیے تھے۔
''پرشین پائپ لائن‘‘ کے نام سے ایران سے گیس پائپ لائن کا ابتدائی پلان 1950 کی دہائی میں سامنے آیا تھا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ابتدائی طور پر باہمی رضامندی سے اس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ 2700کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن‘ جو ایران کی گیس فیلڈ پارس سے شروع ہو نا تھی‘ کو مجوزہ طور پر ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہونا تھا۔ جب بھارت نے اس منصوبے میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو گیس پائپ لائن میں چھ سو کلومیٹرکی توسیع کا پلان بنایا گیا، اگست2008ء میں جب چین نے بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی توامریکا مزید سیخ پا ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ ہی نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنا تھا۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے دورۂ پاکستان کے موقع پر میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ امریکا ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کی اجازت نہیں دے گا۔ یکم مئی 2012ء کو اس وقت کی وزیر خارجہ (موجودہ وزیر مملکت خارجہ امور)حنا ربانی کھر نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اس منصوبے سے ہاتھ نہیں کھینچے گا۔آج کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ نجانے وہ وقت کب آئے گا جب اپنا گھر اور اپنی معیشت بچانے کیلئے خودداری، وقار اور عزتِ نفس پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے گی۔ پلان کے مطابق یہ گیس پائپ لائن منصوبہ دسمبر2015ء میں مکمل ہونا تھااور اس کی تکمیل کے ابتدائی چند ماہ کے بعد پاکستان کو اس منصوبے سے پچیس سال تک 750 ملین کیوبک فٹ گیس ملنے کا امکان تھا مگر اس منصوبے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے تاپی اور ایل این جی جیسے مہنگے توانائی کے منصوبے کے خواب دکھائے گئے ۔
اب بیک چینل ڈپلومیسی کے ناتے بھارت سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں اور شنید ہے کہ بھارت میں اس کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں کیونکہ بھارت کے پاس تمام ڈرائنگز اور نقشے پہلے سے موجود ہیں۔ سب سے پہلے مشرف دور میں بھارت کو بجلی فروخت کرنے کی باتیں سنائی دی تھیں، پھر 2013ء میں بھارت کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد موجودہ وزیراعظم (اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب) اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سے مذکرات کر نے کیلئے بھی لاہور آیا تھا۔ میڈیا کے کچھ حلقوں سمیت مختلف اداروں میں بیٹھے ہمارے بہت سے مہربان بھارتیوں کی ''پُرخلوص دوستی‘‘ کی دہائیاں دیتے ہوئے نہیں تھکتے، وہ اپنی جگہ درست کہتے ہوں گے لیکن اگر آپ ایک دفعہ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے تک گھوم کر دیکھ لیں تو بھارت کی پُر خلوص دوستی کا اصل مفہوم نظر آ جائے گا۔ اگر پھر بھی کچھ روشن دماغوں کو بھارتی دوستی کا یقین نہ آئے تو بھارت کے ایک بڑے تجارتی گروپ کی پاکستان سے لاز وال محبت کی ایک کہانی سن لیں۔
ٹاٹا گروپ نے بھارت سمیت دنیا بھر میں پھیلے اپنے ہوٹلز کی تزئین و آرائش کیلئے ہوٹل انڈسٹری کی تاریخ کا ایک بڑا ٹینڈر جاری کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اداروں کو بولی کی دعوت دی گئی۔ان ٹینڈرز کے حصول کے لیے پاکستان کی چندبڑی بڑی کمپنیاں بھی آگے آئیں‘ جن میں سے دو کا تعلق دو بڑے صنعتکار گروپوں سے تھا۔یہ صنعتکار پاکستان سے ٹاٹا گروپ آف انڈسٹریز اینڈ ہوٹلز کے مرکزی دفتر ممبئی ہائوس پہنچے تو انہیں چند منٹ کیلئے انتظار گاہ میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ مگر جب یہ انتظار بڑھتا ہی چلا گیا اور کئی گھنٹوں پہ محیط ہو گیا تھا تو دونوں پاکستانی صنعتکاروں نے کچھ شور مچایا جس پر ان کو ٹاٹا گروپ کے چیئر مین رتن ٹاٹا کی سیکرٹری کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ چیئر مین صاحب اس وقت مصروف ہیں‘ وہ آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ وہ صنعت کار مایوس تو ہوئے لیکن انہوں نے سیکرٹری سے درخواست کی کہ ہم ابھی مزید چند دن تک ممبئی میں ہی موجود ہیں‘ ان سے کہیں کہ وہ ہمیں کسی اور دن کا وقت دے دیں لیکن انہیں بتایا گیا کہ ابھی ان کے پاس ذرا بھی وقت نہیں ہے۔
ممبئی ہائوس سے مایوسی لیے یہ دونوں صنعتکار نئی دہلی پہنچے اور وہاں پاکستان کے ہائی کمیشن کے دفتر پہنچ کر ساری کہانی سنانے کے بعد ان سے مدد کی درخواست کی۔ ہائی کمشنر کیلئے یہ دو صنعت کار انتہائی اہم تھے لہٰذا اس نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے بھارتی وزیر تجارت آنند شرما سے رابطہ کیا اور ان کو پاکستانی صنعت کاروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے آگاہ کیا۔ ان وزیر صاحب نے رتن ٹاٹاکو فون کیا اور ان سے درخواست کی وہ پاکستان کے ان بڑے صنعتکاروں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہوئے ان کو بھی ٹینڈر میں حصہ لینے کا موقع دیں۔ بھارتی وزیر نے رتن ٹاٹا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات پاکستان کے تجارتی حلقوں میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی اور ہماری حکومت کیلئے بھی یہ حرکت انتہائی شرمناک سمجھی جائے گی۔ رتن ٹاٹا نے مرکزی وزیر تجارت کو انتہائی سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا '' یہ بات آپ کیلئے با عثِ شرم ہو گی میرے لیے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں‘‘ اور ساتھ ہی اس نے فون بند کر دیا۔یہ دونوں صنعت کار بے نیل مرام واپس پاکستان آ گئے۔ یہ ہے دو طرفہ محبت اور دوستی کی آشا کا ایک ہلکا سا اظہار جو بھارت کے ایک صنعتکار کے دل میں پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے موجود ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس عزت افزائی کے بعد بھی وہ افراد بھارت کے مختلف اداروں سے وابستہ افراد کی منتیں بھی کرتے رہے لیکن بری طرح نا کام رہے۔ حکومتی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا گیالیکن بے سود۔اس کے بعد اسی حکومت نے ٹاٹا گروپ کو ٹاٹا موٹرز کی Sumo گاڑیوں کا آرڈر دیا تو رتن ٹاٹا نے پاکستان کو ایک بھی وہیکل دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جب یہ بات میڈیا کے ذریعے بھارت میں عام ہوئی تو پورا بھارت ٹاٹا کی اس وطن دوستی پر جھوم اٹھا۔ دوسری طرف ایسے افراد بھی ہیں جو بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں جنریٹر منگوانے کے بعد ان پر دھڑا دھڑ ''میڈ اِن چائنہ‘‘کی تختیاں لگا کر پاکستان میں بڑے فخرسے بیچتے ہوئے کروڑوں پتی بنتے گئے۔ اگر سجن جندال کی کسی سے ذاتی دوستی ہے یا کسی کے کاروباری مراسم ہیں تو اس کا عام پاکستانیوں سے کیا تعلق ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں