سیا سی جماعتوں کی 2013ء کے عام انتخابات کیلئے بھر پور سیا سی مہم زوروں پر تھی‘ پنجاب میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں تھا، سندھ کے اندرون میں پی پی پی کا انتظامی قبضہ تھا جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان اس کے مد مقابل تھی۔ کے پی میں تحریک انصاف کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے اسفند یار ولی خان بھر پور انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ بلوچستان میں ہمیشہ سے علاقائی جماعتیں اور بڑے بڑے بلوچ سردار اور پختون علاقوں کے پشتون سردار ہی سب سے آگے ہوتے ہیں۔ لیکن ملک کی قیادت اور اسلام آباد کی حکومت کا دار و مدار چونکہ پنجاب ہی رہا ہے‘ اس لیے پنجاب میں تحریک انصاف ہی‘ کئی دہائیوں سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر قابض مسلم لیگ (ن) سے‘ اس کا قبضہ چھڑانے اور مرکز میں حکومت بنانے کیلئے اس کے خلاف پنجہ آزمائی کر رہی تھی۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف پنجاب میں پیپلز پارٹی سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
اُس وقت لاہور میں چند اچھے اور بڑے افسروں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک کہہ لیجئے یا اسے تحریک انصاف کا پالیسی اینالیسز مرکز سمجھ لیں‘ ملکی حالات اور کچھ دوسری اطلاعات کی مانیٹرنگ کر کے اس کی رپورٹ عمران خان کو ارسال کیا کرتا لیکن اس پالیسی ساز کمیٹی کا ہمیشہ سے یہ گلہ رہا کہ عمران خان ان کی بھیجی جانے والی رپورٹس کو یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پڑھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے‘ کیونکہ انہیں عمران خان کی طرف سے اُن کی بھیجی گئی رپورٹس پر کوئی خاطر خواہ فیڈ بیک موصول نہیں ہوتا تھا۔ ان میں گریڈ بائیس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیات کی تعداد سب سے زیا دہ تھی‘ جن سے میرا میڈیا کے حوالے سے اکثر واسطہ رہتا۔ یہی شکوہ محترمہ شیریں مزاری بھی اُس وقت اکثر کیا کرتی تھیں۔ 2013ء کے عام انتخابات سے کوئی دوہفتے قبل مجھے انتہائی با وثوق ذرائع سے اطلاع ملی کہ پنجاب اور سندھ میں کوئی بہت بڑا گھپلا کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ ان انتخابات میں پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت قائم ہو گی‘ یہ سن کر مجھے کچھ عجیب سا لگا کیونکہ جس جانب اشارہ کیا گیا تھا میرا ذہن وہ سب کچھ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہو رہا تھا لیکن ''میرے دوست‘‘ نے کہا: تیار رہنا‘ ایک دن پہلے تمہیں سب کچھ دکھا دوں گا۔
2013ء میں ہونے والے عام انتخابات سے کوئی تیس گھنٹے قبل مجھے ''پروگرام‘‘ بتا دیا گیا‘ جو اس قدر واضح تھا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس شدید گرمی میں خود اور اپنی فیملی کو پولنگ سٹیشن کے باہر اور اندر ذلیل و خوار کرنے کی بجائے گھر میں ہی بیٹھ کر ان پر تبرا بھیجنا بہتر ہو گا جن کیلئے انتخابات کا یہ ڈھکوسلہ تیار کیا گیا ہے۔ لیکن میری فیملی بضد تھی کہ ہم نے اپنا ووٹ ہر صورت میں استعمال کرنا ہے‘ میں نے انہیں بتا بھی دیا کہ اس حلقے سے فلاں شخص جس کا تعلق (ن) لیگ سے ہے‘ وہی کامیاب ہوگا لیکن ہمارے تمام ہمسایوں سمیت سب لوگ بضد تھے کہ وہ اپنی پوری فیملی کو ساتھ لے کر ووٹ کاسٹ کریں گے‘ ان کی ضد کے سامنے مجبور ہو کر میں بھی ساتھ چل پڑا‘ پولنگ سٹیشن پر حالت یہ تھی کی اُس شدید گرمی میں بھی ایک ہجوم تھا جو عمران خان کی خاطر ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے گھنٹوں سے قطاروں میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے ان مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو مئی کی اس کڑکتی دھوپ میں جلتے دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا کیونکہ اس حلقے کے نتائج میرے پاس پہلے سے موجود تھے جبکہ زمینی حقائق یہ تھے کہ اس پولنگ اسٹیشن پر جہاں مردوں اور خواتین کے دس بوتھ تھے‘ ہم سب کو (ن) لیگ کا کوئی اِکا دکا ووٹر ہی دکھائی پڑ رہا تھا۔
میں نے تحریک انصاف کی کمیٹی کے ایک رکن کو جو مرکز سے بطور سیکرٹری ریٹائر ہوئے تھے‘ فون پر اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا‘میرا فون سننے پر وہ صاحب بولے کہ ہم اب کیا کر سکتے ہیں‘ جس پر میں نے شفقت محمود کو فون کیا اور پھر میاں محمود الرشید سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں خبر دار کیا کہ اگر آپ نے اپنے انتخابی عملے کو قابو نہ کیا تو آپ اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہار بیٹھیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا‘ وہ اپنے انتخابی عملے کے سر پر اس وقت تک سوار رہے جب تک ان سے تصدیق شدہ رزلٹ حاصل نہیں کیا۔اس ساری صورتحال کا الیکشن سے تین روز بعد لاہور میں اس وقت کے صدر مملکت نے سینئر صحافیوں کے ساتھ کی جانے والی ایک خصوصی بیٹھک میں اعتراف کیا اور یہ الزام عائد کیا کہ یہ الیکشن عوام کا نہیں بلکہ انتخابی عملے کا تھا۔ اس الیکشن میں عوام کے ووٹ نہیں بلکہ انتخابی عملے کی مرضی شامل تھی جو اپنے رانجھے کو راضی کر نا چاہتا تھا۔
یہی سب کچھ مبینہ طور پر اب پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے‘ تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الٰہی کو جان لینا چاہیے کہ وہ لوگ جو اب تک الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں پرڈی سیٹ ہونے والی اور تحریک انصاف کی طرف سے نامزد کی جانے والی خواتین کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہونے دے رہے‘ کیا وہ عمران خان کو ان ضمنی نشستوں سے کامیاب ہونے دیں گے؟ میرے پاس ماضی کی طرح اِس وقت بھی یہ اطلاع ہے کہ اب پھر رانجھا راضی کرنے کا مکمل پلان بن چکا ہے اور سب سے دلچسپ صورت حال ملتان کی نشست کی ہے ‘ جن لوگوں نے مرکز اور پنجاب میں عمران خان کو جھٹکا دیا ہے‘ وہ کسی صورت اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی برداشت کرنے کو تیار نہیں‘ انہیں اس حلقے سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی کامیابی کا یقین ہے لیکن ان کی ضد ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست بھی یقینی ہونی چاہیے‘ جس کیلئے اب انتھک محنت جاری ہے۔
رانجھا کوئی بھی ہو‘ مت بھولیے کہ یہی کچھ 1977ء میں بھی ہوا تھا‘ 1988ء سے لے کر 2013ء تک کے عام انتخابات میں بھی یہی ہوا‘ اس کا نتیجہ جو بھی نکلا کیا اس سے ملکی حالات بہتر ہوئے؟ اب 2022ء ہے‘ موبائل پر سوشل میڈیا کا ہتھیار اب ہر کسی کے پاس ہے‘ اگر دیکھنا ہے تو جا کر دیکھ لیجئے کہ یہ ملک کی ہر گلی اور ہر گھر میں پہنچ چکا ہے‘ ایسے ایسے سادہ لوح لوگ بھی اب ملکی حالات کی منظر کشی کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ اگر پنجاب کے ان ضمنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر رانجھا راضی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس قوم اور ملک پر لگایا گیا یہ زخم اس قدر گہر ا اور تکلیف دہ ہو گا کہ مدتوں اس کا درد محسوس کیا جا ئے گا اور قوموں کے جسموں پر لگنے والے زخم ہمیشہ اس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک کوئی فاتح انہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد نہ کرا دے۔
پنجاب کے ان ضمنی انتخابات کو دنیا مانیٹر کرر ہی ہے اور اس کیلئے ان کے سکہ بند قسم کے نمائندے پاکستان پہنچ رہے ہیں‘ ان حلقوں میں غیرملکی میڈیا کی تعداد اس قدر زیا دہ ہو گی کہ آپ اندازہ ہی نہیں کر سکتے اور اس کیلئے بنی گالا نے انتظامات بھی مکمل کر لیے ہیں۔ جرمنی‘ آسٹریلیا اور کینیڈا سے تو میڈیا اور مبصرین کی بہت بڑی تعداد یقینی طور پر یہاں پہنچے گی۔ اس لیے پھر گزارش ہے کہ اوورسیز پاکستانی جو میڈیا کی ان ٹیموں کو پنجاب کے ضمنی انتخابات کی کوریج کیلئے بھجوا رہے ہیں‘ وہ عمران دشمنی میں کیے گئے یک طرفہ فیصلے کے خلاف جو ردعمل دینے کا پروگرام بنا چکے ہیں‘ اس سے تمام غیر ملکی امداد زیرو ہو جائے گی‘ اس لیے ذرا ہوش سے‘ ذرا احتیاط سے‘ یہ نہ ہو کہ تحریک انصاف سے کی گئی زیادتی ہمیشہ کیلئے پچھتاوا بن جائے!