بھارت نے ایک بار پھر کابل انتظامیہ سے درخواست کی ہے وہ آئندہ واہگہ کے راستے سے نہیں بلکہ ایران کی چابہار بندرگاہ سے گندم بھجوائے گا کیونکہ پاکستان اس کے کنٹینرز کی تلاشیاں لیتے ہوئے اس میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ اب وہ ممبئی، کنڈالہ اور مندرہ بندرگاہ سے گندم کا جہاز چابہار بھیجنے کی کوششوں میں ہے۔ بھارت کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایرانی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ گندم کے کنٹینرز میں چھپائے گئے اسلحہ و بارود سمیت دوسرے جدید ہتھیاروں کو روکنے کے علاوہ گندم کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی ضرور کرائے کہ کہیں یہ گندم سالوں پرانی تو نہیں۔ بھارت واہگہ کے راستے بھیجے گئے ٹرکوں اور کنٹینروں کی تلاشی پر شور مچانے سے پہلے جان لے کہ پاکستان میں آنے والے اس کے ٹریڈرز کے کنٹینرز اور ٹرکوں کی بالکل اسی طرح تلاشی لی جاتی ہے جیسے بھارت اپنے ہاں آنے والے کنٹینرز اور ٹرکوں کی تلاشی لیتا ہے۔
بھارت افغانستان کو کس قسم کی گندم بھیجتا رہا اس کیلئے جنوری 2018ء کی طرف چلتے ہیں جب کابل کے شمشاد ٹی وی چینل پر پشتو انائونسر بریکنگ نیوز دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ بھارت کی افغانستان کو امداد کی صورت میں بھیجی جانے والی پندرہ ہزار ٹن گندم کے استعمال سے ہر دوسرے گھر کے افراد جلد اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہونا شروع ہو گئے ہیں اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ افغانستان کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے بچوں اور عورتوں سمیت مردوں کا تانتا بندھ گیا ہے۔بہت سے بچے اور عمر رسیدہ افراد پیٹ کے امراض سے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے معدوں سے حاصل ہونے والی خوراک کا جب لیبارٹری تجزیہ کیا گیا تو یہ ہولناک انکشاف سامنے آیا کہ ان کو یہ بیماری کسی وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ بھارت سے منگوائی جانے والی گندم کے آٹے سے تیار کی گئی خوراک کھانے سے ہو رہی ہے۔ شمشاد ٹی وی پر انائونسرز اور اینکر بتا رہے تھے کہ جب اس گندم اور اس سے بنائی جانے والی روٹیوں کی لیبارٹری رپورٹس سامنے آئیں تو ایک لمحے کیلئے کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ افغانستان سے دوستی اور محبت کا دم بھرنے والا بھارت افغانستان کے عوام کے ساتھ اس طرح کی سفاکی اور بے رحمی کا مظاہرہ کرے گا اور وہ اس ظالمانہ اور گھٹیا حد تک جا سکتا ہے۔ شمشاد ٹی وی اور بعد میں کابل نیوز ٹی وی کے معروف اینکر غازی خیل نے بھارت کی گندم سے ہونے والی ہلاکتوں اور بیماریوں کی تفصیلات تمام جزئیات سے بیان کیں۔ یہ رپورٹس ذہن میں تازہ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آج کا نریندر مودی کا انتہا پسندی کی آخری حد تک پہنچا ہوا بھارت دنیا کے کسی بھی حصے کو چھوڑیے‘ خود بھارت میں بسنے والے مسلمانوں سے ہمدردی نہیں رکھ سکتا‘ اس سے افغانستان کے مسلمانوں سے ہمدردی کی امید کیسے وابستہ کی جا سکتی ہے۔ کابل میڈیا نے یہاں تک رپورٹ کیا کہ بھارت کو افغان عوام سے نہیں بلکہ افغانستان کی سٹریٹیجک اہمیت میں دلچسپی ہے‘ وہ بھی اس لیے کہ وہاں بیٹھ کر وہ بلوچستان سمیت پاکستان کے دوسرے علا قوں اور سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف اپنے گھٹیا عزائم کی تکمیل کر سکتا ہے۔
27 اکتوبر 2017ء کو جب بھارتی گندم سے لدا بحری جہاز بھارت سے ایران کی بندرگاہ چابہار کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت میں نے بتایا تھا کہ چابہار سے جب یہ گندم افغانستان کے سرحدی قصبے زارنج میں پہنچی تو کس طرح پُرجوش اور رنگا رنگ تقریب کے ذریعے بھارتی سفارت کاروں اور افغان حکومت نے اس گندم کو وصول کیا۔ اس تقریب سے ایک طرف بھارت افغانستان کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اسے اب پاکستان اور اس کی کراچی یا گوادر پورٹ کی کوئی ضرورت نہیں رہی اور دوسری طرف وہ مسلم دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بھارت کو افغان عوام کی خوراک اور دیکھ بھال کا کس قدر احساس ہے۔ اسی آڑ میں وہ دنیا کو یہ بھی بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ سی پیک سے ملحقہ گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں چابہار بندرگاہ بہتر اور ایک اچھا علاقائی متبادل ہے۔
جب یہ گندم بھارت سے افغانستان بھیجی جا رہی تھی تو اس وقت بھارتی محکمہ خوراک کے حکام اور اس کی وزارتِ خارجہ کو بخوبی علم تھا کہ یہ گندم اُس سٹاک سے افغانستان بھیجی جا رہی ہے جسے محکمۂ صحت اور وزارتِ خوراک نے فلور ملوں اور دوسرے صوبوں کو فراہم نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے کیونکہ اس میں وہ گندم بھی شامل تھی جسے فصلوں کے بیج کیلئے گوداموں میں سٹاک کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ نریندر مودی نے بھارتی کرنسی کے نوٹ تبدیل کر دیے۔ کسان کئی کئی ہفتے پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کیلئے بڑے قصبوں اور شہروں میں دھکے کھاتے رہے اور اپنے پاس کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ وقت پر بیج نہ خرید سکے۔ پھر اگلے سال یہی بیج افغانستان بھیجی جانے والی گندم میں شامل کر تے ہوئے اسے بھارت کی مغربی بندرگاہ کنڈالہ سے چابہار روانہ کر دیا گیا جہاں سے یہ بڑے بڑے ٹرکوں اور ٹرالوں میں لاد کر افغان صوبے نمروز روانہ کر دی گئی اور وہاں سے اسے افغانستان کے دوسرے حصوں میں بھیجا گیا اور پھر اس زائد المیعاد گندم کے استعمال سے افغانوں میں جلد اور پیٹ کی بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں۔
پاکستان کا اب تک کا یہ تلخ تجربہ رہا ہے کہ کسی بھی معاملے میں جب کبھی بھی بھارت کو کوئی رعایت دی گئی تو اس نے اس رعایت کا ہمیشہ غلط فائدہ اٹھایا جس کا پاکستان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ اس بار بھارت سے افغانستان گندم بھیجنے کی درخواست موصول ہوئی تو بھارت کا ماضی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے ٹھوس خدشات راہ میں حائل ہو گئے مگر اس کے باوجود بہت سوچ بچار کے بعد افغان عوام کی پریشانی کے سبب بھارت کو یہ کہتے ہوئے اجا زت دی گئی کہ یہ گندم واہگہ بارڈر کے راستے ایک ماہ کے اندر اندر افغانستان پہنچانا ہو گی لیکن بھارت یہ معاہدہ جان بوجھ کر پورا نہ کر سکا اور سپلائی معطل رکھی۔ پاکستانی حکومت نے یہ مہلت ختم ہونے کے بعد بھارت کو مزید دو ماہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس عرصے میں افغانستان کو اپنی گندم کی سپلائی مکمل کر لے لیکن نیت میں کھوٹ رکھنے والے بھارت نے یہ دو ماہ بھی ضائع کر دیے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان بار بار مدت میں توسیع نہیں کرے گا اور اس طرح ہم افغان عوام اور دنیا کو گمراہ کر سکیں گے کہ دیکھیں بھوک سے مرتے افغان عوام کیلئے امدادی گندم بھیجنے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔تین ماہ تک گندم کی سپلائی کچھوے کی رفتار سے جاری رہی تاکہ بعد میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا سکے کہ اس نے گندم کی سپلائی روک کر افغانوں کو قحط کے حوالے کر دیا۔ دوسرا، اس گندم کی امداد کی آڑ میں دنیا بھر میں بھارت اپنی ''مسلم دوستی‘‘ اور ہمدردی جتانا چاہتا تھا۔ بھارت کے میڈیا گروپس نے افغان عوام کو خوش خبری دیتے ہوئے یہ تک کہنا شروع کر دیا تھا کہ آپ کی مدد کیلئے بھارت آ گیا ہے، کیا ہوا اگر پاکستان مدد نہیں کر رہا‘ گھبرائو مت! کیونکہ ہم ہیں۔
افغانستان گزشتہ پچیس برسوں سے دشمن ممالک بالخصوص بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں سے پاکستان کے اندر آئے روز دہشت گردی کرائی جا رہی ہے۔ بھارت سے وہاں بھیجے جانے والے سامان کی تلاشی جرم تو نہیں ہو سکتی۔ ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر کسی بہت بڑی تباہی کا پلان بنا رہا ہے۔ گوادر اور سی پیک سمیت بحر ہند میں اپنے جنگی منصوبوں کی تکمیل کیلئے امریکا سمیت مغربی ممالک کی ایک ہی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح بھارت کو افغانستان پر کنٹرول دلا دیں۔ کیا امریکا اور نیٹو نہیں جانتے تھے کہ افغانستان کو خوراک کی سخت ضرورت ہے۔ کیا وہ بے خبر تھے کہ بیس برسوں تک ان پر مسلط کی گئی جنگ کی وجہ سے ان کی زراعت تباہ ہو چکی ہے اور افغان عوام سخت غذائی بحران کا شکار ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کو ابھی ساڑھے چار ماہ ہوئے ہیں لیکن اس کیلئے امریکا اور پورا یورپ امداد کے ڈھیر لگا رہے ہیں لیکن افغانستان جسے بیس سال تک امریکا اور نیٹو نے مل کر تاراج کیا‘ اُس کی مدد کیلئے سب نے دروازے بند کر رکھے ہیں۔