17جولائی کی شب‘ چاند جب اپنی روشنیاں اور رونقیں بکھیر نے کے بعد کچھ دیر سستانے کیلئے خطۂ پاکستان کی حدود سے اوجھل ہونے جا رہا تھا تو اسے یقین تھا کہ کل کا سورج اپنے اندر بہت سی نئی روشنیاں اور امیدیں لیے اس ملک میں طلوع ہونے والا ہے لیکن اُس بے چاری رات اور اُس چاند کو کیا خبر تھی کہ کئی دہائیوں سے اس ملک کے عوام کا سکون اور وسائل لوٹنے والے اس سورج کے گرد خون آلود گرہن کی لکیریں کھینچنے کے منصوبے بنا چکے ہیں۔ بائیس جولائی کی شب جو کچھ بھی پنجاب اسمبلی میں ہوا یا جو کچھ کرایا گیا‘ نادان اسے عمران خان کی شکست کا نام دے رہے ہیں۔ آئین‘ قانون اور روایات کو روندنے والے بھول جاتے ہیں کہ نیا چاند ان کی مرضی اور خواہشوں سے نہیں بلکہ اپنے وقت پر ہی طلوع ہوتا ہے اور وہ بزرگ جو عمران خان کی مخالفت کے بہانے تراشتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاست چالیس برسوں سے اداروں کے ساتھ چلتے ہوئے کی ہے‘ اس لیے وہ اداروں کے خلاف چلنے والوں کا ساتھ کیسے دے سکتے تھے‘ اس زیرک اور جہاندیدہ سیاست دان کو شاید کچھ بھی یاد نہیں رہا یا انہیں خبر نہیں ہونے دی جا رہی کہ جن کی انہوں نے مدد کی ہے‘ وہی تو ہیں جو ببانگِ دہل اداروں کے خلاف نعرے لگاتے رہے ہیں۔ ابھی فل کورٹ کے لیے جو پریشر ڈالا گیا‘ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے‘ کیا وہ معاملہ کسی سے پوشیدہ ہے؟ عمران خان نے تو کہا تھا کہ اس جیسے کئی عمران آئیں گے اور چلیں جائیں گے لیکن اداروں کو کچھ نہ کہیں کیونکہ یہ ادارے ہی ہیں جو اب تک اس ملک کو متحد رکھے ہوئے ہیں ورنہ کسے علم نہیں کہ ریاست کو نقصان پہنچانے والے بھی یہیں پناہ لیے ہوئے ہیں‘ جو عمران خان کی مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین کو چاہیے تھا کہ کوئی بہانہ تراشنے کے بجائے بہادر انسان بن کر صاف بتاتے کہ چودھری پرویز الٰہی کے بجائے میاں حمزہ شہباز کی حمایت انہوں نے اپنی اولاد کی محبت اور ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر کی ہے۔ حمزہ شہباز کی کامیابی کا اعلان غیرمتوقع نہیں تھا‘ سب جانتے تھے کہ پی ٹی آئی کی اکثریت کے باوجود یہی فیصلہ ہونا تھا اور اس کے لیے تجوریوں اور خزانوں کے منہ جس طرح کھولے گئے تھے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ تین اراکین کے بیانِ حلفی عدالتِ عظمیٰ میں جمع ہو چکے ہیں۔ بظاہر بازی جیت لی گئی مگر اس سے سوائے بدنامی و رسوائی کے حاصل کیا ہوا؟ بات اب قانون اور اخلاق پر آ چکی ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آئین جیتے گا یا اُس کا تقدس پامال کیا جاتا رہے گا؟ اس سے تو بہتر ہے کہ یہ چند جماعتیں آئے روز عوام کے مینڈیٹ کو روندنے کے بجائے کھل کر یہ اعلان کر دیں کہ اگلے دس یا بیس برس تک حکومت فلاں فلاں کے حوالے کی جائے گی تاکہ عوام اور دیگر حکومتی مشینریاں اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہیں۔ کیا یہ سب پر واضح نہیں کہ ضمنی انتخابات میں عوام نے حکومتی اتحاد کے نمائندوں کو مسترد کرکے واضح کیا کہ وہ کسے حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی جا رہی ہے۔ کیا دل یہ سوچ کر گھبراتا نہیں کہ اس وقت ڈالر اور ملکی معیشت کی جو حالت ہو چکی ہے‘ اسے مزید کسی تجربے کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ کے پی سے پنجاب آنے والوں کے راستے بند کرنے کا مقصد وفاق کو کمزور اور ایک دوسرے کے دلوں میں کدورتیں پیدا کرنے کے سوا اور کیا تھا۔ پاکستان اور اس سے باہر بسنے والے کئی لاکھ پاکستانی آئے روز وارننگ دے رہے ہیں کہ رانا ثناء اللہ‘ طلال چودھری‘ جاوید لطیف اور خواجہ سعد رفیق جیسے سیاسی رہنمائوں کی دھمکیاں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ وہ آخری حد تک جا سکتے ہیں۔ اس وقت پنجاب پولیس سمیت سندھ اور اسلام آباد پولیس اور مرکزی ادارے ان کے کنٹرول میں ہیں۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ طاقت سے دل نہیں جیتے جاتے‘ ظلم کے خلاف اٹھنے والی نفرتوں کو وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جا سکے گا بلکہ یہ نفرت اور بھی بڑھے گی اور پندرہ‘ سولہ برس کے وہ بچے جو یہ ظلم اور اس کے پس پردہ چھپے چہرے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں‘ اپنے گھروں کی چار دیواری کو ریاست کے نام پر پامال کرنے والوں اور معصوموں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کو وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ ان کے معصوم ذہنوں میں ان کے گھروں کے دروازے توڑ کر ان کے والدین‘ بھائیوں اور بہنوں پر برسائی گئی لاٹھیوں کے نقش تازہ رہیں گے اور ان کی نفرت کو مزید بڑھائیں گے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور اب تک جو کچھ بھی کیا گیا ہے اسے لپیٹ کر اس ملک کے ہر شہری کو یقین دلائیں کہ صرف ملک کی سلامتی مقدم ہے‘ نہ کہ کسی گروہ یا جماعت کا مفاد۔
عمران خان کی حکومت بظاہر دس اپریل 2022ء کو ختم ہو گئی لیکن یہ حقیقت کون جھٹلائے گا کہ اس کو ختم کرنے کی تیاریاں پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے چند مہینوں بعد ہی شروع ہو گئی تھیں اور ایک‘ ڈیڑھ سال بعد یہ منصوبے بروئے کار لانے کا جب وقت آیا تو کورونا کی وجہ سے پلان ملتوی کرنا پڑا۔ دوسرے مرحلے پر پی ٹی آئی کو گھر بھیجنے کی تیاری مارچ 2020ء میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی لیکن کچھ اندرونی تبدیلیاں رکاوٹ بن گئیں۔ میڈیا اور باخبر حضرات کو یاد ہوگا کہ گیلانی صاحب کی سینیٹ میں کامیابی کے بعد اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو اپنے ساتھ بٹھاکر ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب شروع کیا ہی تھا کہ ان کی زبان سے نکل گیا کہ عمران خان کے اتحادی بھی سینیٹ الیکشن میں ان کے امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دے پائے۔ عمران کے اتحادیوں کی طرف سے دھوکا دینے کی گیم کا علم مجھے پہلے ہی ہو چکا تھا کہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں کچھ سائے قاف لیگ کو آصف زرداری کے ہاتھ پر بیعت کرا چکے ہیں اور قاف لیگ کے ممبران اور ایم کیو ایم ''بڑا ووٹ‘‘ زرداری صاحب اور ''چھوٹا ووٹ‘‘ تحریک انصاف کو دیں گے۔ عمران خان کے لیے یہ صورتحال خاصی غیرمتوقع تھی اور وہ اس پر بہت غصہ ہوئے لیکن پھر اعتماد کا ووٹ دلوا کر انہیں رام کر لیا گیا۔
امریکی کیمپ کو چھوڑ کر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خواہشمند عمران خان کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ اس سے قبل انہیں ''نون‘‘ اور ''شین‘‘ کا فرق سمجھایا گیا لیکن کپتان یہ کہتے ہوئے بار بار انکار کرتے رہے کہ وہ کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے۔ نواز شریف کو میڈیکل بنیادوں پر علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملی تو ایک سابق اعلیٰ افسر نے چند گھنٹے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اب عمران خان اپنے اقتدار کے دن گننا شروع کر دیں کیونکہ مسلم لیگ نواز کو پہلا انعام دے دیا گیا ہے اور دوسرا انعام جلد ملنے والا ہے۔ عمران خان کو بھی مسلسل پیغام دیا جاتا رہا کہ بات مان لیجیے جس پر مبینہ طور پر یہ شرط رکھی گئی کہ اگر معاملہ اتنا ہی سادہ ہے تو سب سے پہلے دو تہائی اکثریت سے اٹھارہویں ترمیم‘ جس کی وجہ سے صوبوں کے خزانے بھرے رہتے ہیں اور وفاق سب کا محتاج رہتا ہے‘ میں ضروری تبدیلی کرائیں تاکہ ملکی سالمیت کو نقصان پہنچنے کے تمام خدشات دور ہو جائیں لیکن اس پر معذرت کر لی گئی اور پھر یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں خان صاحب کو ایک زبردست جھٹکا دیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان کو ملنے والی رپورٹس کے مطابق صوبہ سندھ میں نکالی گئی ایک ریلی میں جو ریاست مخالف نعرے بازی ہوئی اور جس طرح ملک دشمنوں سے مدد کی اپیلیں کی گئیں‘ اُس کے پیچھے ایک مقامی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھا۔ خان صاحب نے اس کے خلاف کارروائی کا ارادہ بھی کر لیا تھا مگر معاملات اس طور بگاڑ دیے گئے کہ پھر سنبھل نہ سکے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج چودھری شجاعت انہی کے گیت گا رہے ہیں جو کل تک اُن کی جماعت کو قاتل لیگ کہا کرتے تھے!