پی ڈی ایم کے لیڈر ہوں یا حکومتی ترجمان‘ اس وقت سب کی زبانوں پر ایک ہی مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے‘ جو آٹھ سالہ تحقیقات کے بعد اسی سال محفوظ کیا گیا تھا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جس وقت پنجاب کے ضمنی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی‘ حکومتی اتحاد کے سبھی لیڈران دیگر مسائل کو چھوڑ چھاڑ کر فارن فنڈنگ کیس کے درپے ہو گئے اور الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالنے لگے کہ اس کیس کا فیصلہ سنایا جائے‘ عین اسی وقت برطانوی جریدے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوتی ہے‘ جس میں قریب دس سال پرانے ایک مدعے کو اٹھا کر حکومتی بیانیے کو کمک مہیا کی جاتی ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں تحریک انصاف کی جس فارن فنڈنگ کے حوالے سے جس عارف نقوی کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جہاں سے اس اخبار کو مواد مہیا کیا گیا‘ اس کے بارے میں بھی تفصیلی ذکر کر دیا جاتا تاکہ وہ لوگ بھی بہ آسانی اسے سمجھ جاتے جنہیں عارف نقوی سے ممنوعہ فارن فنڈنگ حاصل کرنے والوں کے اسمائے گرامی کا ابھی تک پتا نہیں چل رہا۔ فنانشل ٹائمز سے ''لکھوائی گئی‘‘ سٹوری کے مطابق: عارف نقوی نے تحریک انصاف کو 21 لاکھ (2.1 ملین) ڈالر کی فنڈنگ کی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ 2018ء میں عارف نقوی کے ابراج گروپ نے2 کروڑ (20 ملین) ڈالرز بطور رشوت مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں نواز شریف اور شہباز شریف کو ادا کیے تھے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جب اس رپورٹ کی بنیاد پر عمران خان پر تنقید کی جاتی ہے تو 2 ملین ڈالر کی بات کی جاتی ہے مگر اس سے دس گنا زیادہ‘ 20 ملین ڈالرز والے حصے کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ ان بیس ملین ڈالرز کی بات ہی نہیں کی جاتی۔ انہی عارف نقوی صاحب نے پیپلز پارٹی کیلئے بھی فنڈ ریزنگ کی تھی‘ اس جماعت کو بھی فارن فنڈنگ موصول ہوئی تھی مگر اس کا حوالہ بھی زبان پر لانے سے سب کترا رہے ہیں۔ یہاں پر واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن یہ واضح چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کا کیس فارن فنڈنگ نہیں‘ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ہے۔
کچھ دیر کے لیے فارن فنڈنگ اور فنانشل ٹائمز کی سٹوری کو یہیں چھوڑ دیں۔ اس وقت عمران خان کا مقابلہ ان دو جماعتوں سے ہے جو گزشتہ 30 برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف جعلی خطوط اور تصویریں مارکیٹ میں لاتی رہی ہیں۔ یہ خطوط اور تصویریں اکثر مقامی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کے مختلف صحافیوں کے ذریعے سامنے لائے جاتے رہے۔ عمران خان تو اس معاملے میں بالکل نو آموز ہیں۔ ملک کا ہر فرد گواہ ہے کہ کیسے ملک کے اداروں کے خلاف ایک متنازع انٹرویو ایک ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جسے خصوصی طیارے پر بلوایا گیا تھا۔ دو دن بعد اسی انٹرویو کو انٹرنیشنل عدالت میں چل رہے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کی طرف سے بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کے سیاست دانوں کے حوالے سے کیا کچھ شائع ہو چکا ہے‘ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرکے یہ پارٹیاں اب دو آتشہ ہو چکی ہیں کیونکہ ایک جانب پیپلز پارٹی کے حسین حقانی ہیں اور دوسری طرف لندن میں مقیم مسلم لیگ نواز کے کچھ نوازے گئے افراد‘ جو تیر و تفنگ لیے عمران خان پر حملہ آور ہیں۔ بات کا بتنگڑ بناتے اور گرم لوہے پر چوٹ لگاتے ہوئے‘ مبینہ طور پر فنانشل ٹائمز کو تمام مواد الیکشن کمیشن کے دفتر سے مہیا کرنے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کیونکہ جو کچھ اس اخبار میں شائع ہوا ہے‘ یہ وہی میٹریل ہے‘ جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مبینہ طور پر ایک مشیر صاحب نے‘ جن کا شعبۂ صحافت سے واسطہ رہا ہے‘ یہ مواد فنانشل ٹائمز کے رپورٹر کو مہیا کیا۔ یہاں پر واضح رہے کہ فنانشل ٹائمز کے مذکورہ رپورٹر سے ٹویٹر پر جب یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان میں اس کے ساتھ بطور معاون کام کرنے والے صحافی کون تھے‘ پاکستان میں اس نے ساری معلومات کس کی مدد سے حاصل کی ہیں تو اس کا جواب تھا کہ یہ ساری سٹوری میں نے اکیلے ہی کی ہے اور پاکستان سے بھی ساری معلومات خود ہی اکٹھی کی ہیں۔
ایسے وقت میں جب پوری پی ڈی ایم الیکشن کمیشن پر فارن فنڈنگ کے محفوظ کیے گئے فیصلے کو سنانے کیلئے سرکاری اور ذاتی دبائو ڈالنے کے علاوہ میڈیا پر ایک خصوصی مہم چلا رہی ہے‘ ایسے میں فنانشل ٹائمز کی سٹوری کا سامنے آنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ میڈیا اور سیاست سے متعلق کچھ احباب کا تو یہی ماننا ہے کہ عمران خان کو دبائو میں لانے کیلئے یہ سب کچھ ایک طے شدہ پلاننگ کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ 17 جولائی کے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی پنجاب بھر اور خاص طور پر لاہور میں کامیابی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت کو تمام خفیہ اداروں نے یہی رپورٹس دی ہیں کہ اگر اگلے چند ماہ میں انتخابات کرائے جاتے ہیں تو پنجاب اور کے پی سے تحریک انصاف دو تہائی نہیں بلکہ تین چوتھائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ ان رپورٹس میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم سوائے سندھ کے اندرونی علاقوں کے‘ باقی کہیں بھی عمران خان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس لیے اس فوبیا سے نجات اور سیاسی میدان میں نکلنے کیلئے پی ڈی ایم جماعتوں کے پاس اب ایک ہی طریقہ بچتا ہے کہ کچھ ایسے کیسز بنائے جائیں‘ جن کی بنیاد پر اگر عمران خان کو سزا دلوانا ممکن نہ ہو‘ تو بھی ان کی اخلاقی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ اس ضمن میں اب الیکشن کمیشن میں محفوظ کیا گیا فارن فنڈنگ کیس ہی پی ڈی ایم کی آخری امید رہ گیا ہے۔ اب یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے ہر ممکن طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ بعض حلقے اس کیس کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے کچھ بھی نہیں بدلنے والا کیونکہ اگر اس میں ایسا کچھ ہوتا تو اب تک سامنے آ جاتا۔ دوسری بات‘ جس فنڈنگ کو رائی کا پہاڑ بنا کر تحریک انصاف پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے‘ اس کی تفصیل تو تحریک انصاف پہلے ہی الیکشن کمیشن میں جمع کرا چکی ہے۔ ایسا ہی کیس 2017ء سے دیگر سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بھی زیر سماعت ہے‘ اور پی ٹی آئی کیس میں سنایا گیا فیصلہ دوسرے کیسز کے حوالے سے مشعلِ راہ بنے گا‘ یعنی جس پھندے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں تحریک انصاف کو پھنسانا چاہتی ہیں‘ آنے والے وقت میں وہی پھندا ان کا بھی منتظر ہو گا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے بہتر کون جانتا ہے کہ جب سیاسی میدان میں یہ دونوں جماعتیں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوا کرتی تھیں تو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ایک دوسرے کے خلاف کس قسم کی کہانیاں شائع کرائی جاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ایک جانب حسین حقانی تو دوسری جانب مشاہد حسین سید اپنے تعلقات بروئے کار لایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں صوابدیدی فنڈز کے اربوں روپے بے دریغ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسی بے شمار کہانیاں اب سامنے آ چکی ہیں۔ اس وقت کے اخبارات کا ریکارڈ دیکھ کر کوئی بھی باخبر شہری اندازہ کر سکتا ہے کہ ان کہانیوں کے شائع ہونے کے بعد یہ دونوں جماعتیں کیسے ایک دوسرے پر لٹھ لے کر پل پڑتی تھیں۔ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس پر تابڑ توڑ حملے کرنے والوں کی آٹھ برس سے کیس لٹکانے کی بات سننے کے بعد کوئی ان سے پوچھے جناب! ابھی کل ہی عدالت میں فردِ جرم کیلئے پیش ہونے سے بچنے کیلئے آپ کے وکلا کی جانب سے یہ کہتے ہوئے حاضری سے استثنا لیا گیا کہ کمر میں اس قدر درد ہے کہ چلا ہی نہیں جا رہا۔ جن صاحب سے درد کی وجہ سے چلا نہیں جا رہا‘ چند دن پہلے تک وہ پنجاب کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے۔ ان کے والد محترم ''قومی مصروفیات‘‘ کے باعث عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہیں۔ جس وقت عدالت میں یہ بیان پڑھا جا رہا تھا تو اس وقت وزیراعظم صاحب ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر کی طویل پروازوں کے بعد بلوچستان میں سیلاب زدگان کے نام پر اکٹھے کیے گئے لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔
ہمارے ہاں فارن فنڈنگ کی اصطلاح کو اس قدر منفی بنا دیا گیا ہے کہ اس سے وطن دشمنی کی بُو آنے لگتی ہے۔ کیا ہمارے فلاحی ادارے فارن فنڈنگ پر نہیں چلائے جا رہے؟ کیا ہیومن رائٹس جیسی تنظیمیں فارن فنڈنگ پر کام نہیں کر رہیں؟ 16 دسمبر 2017ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بینچ کا دیا جانے والا فیصلہ ایک بار پھر بڑے غور سے دیکھنا اور پڑھنا ہو گا جو حنیف عباسی صاحب نے عمران خان کے خلاف غلط حلفیہ بیان دینے کے سلسلے میں دائر کر رکھا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے ''Foreign Aided party and Prohibited Funding‘‘ کی تفریق کرتے ہوئے اس میں سے Prohibited کا لفظ نکال دیا تھا۔ سینئرصحافی مظہر عباس کی اس سٹوری کو بھی فارن فنڈنگ کیس میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جانا چاہیے کہ ایک سیاسی و مذہبی شخصیت کو دبئی ایئر پورٹ پر کیوں اور کس وجہ سے روکا گیا تھا۔ اس وقت کے دبئی کے پاکستانی قونصل خانے کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی زبانی یہ ساری کہانی میڈیا سمیت ہر ادارے کے پاس موجود ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ وڈیو بھی الیکشن کمیشن کے سامنے رکھی جائے جس میںوہ فرما رہی تھیں کہ ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے میاں نواز شریف کو اسامہ بن لادن نے دس ملین ڈالر دیے تھے؟ یاد کیجیے وہ اصغر خان کیس اور اس پر میاں صاحب کا یہ اعتراف نما بیان بھی‘ کہ اگر کسی سے پیسے لینا ثابت ہو جائے تو واپس کرنے کو تیار ہیں۔ کیا کبھی اس پر بھی کوئی ایکشن لیا جائے گا؟ فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کو ان کی انتخابی مہم کیلئے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے فنڈنگ کی تھی۔ پاکستان کی ایک چھوٹی مگر اہم سیاسی جماعت کے سربراہ نے طرابلس کے متعدد نجی دورے کیے اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق اس جماعت کے سربراہ نے معمر قذافی سے کروڑوں ڈالر وصول کیے تھے۔ یہ الزام اس پارٹی سربراہ پر ان کی اپنی جماعت کے کچھ اراکین بھی عائد کر چکے ہیں۔ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے حوالے سے فارن فنڈنگ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذیلی ادارے‘ چاہے وہ کوئی مدرسہ ہی کیوں نہ ہو‘ کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال بھی الیکشن کمیشن کیلئے لازم ہو جاتی ہے۔