"MABC" (space) message & send to 7575

ایک درویش کی شہادت

شام لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے کا وقت ہو گا جب کوئٹہ چھائونی میں رہائش پذیر ایک کیپٹن کے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ اردلی دروازہ کھولنے کے لیے باہرگیا تو سامنے سادہ سے لباس میں ملبوس‘ مسکراہٹ بکھیرتے ایک نفیس مرد اور ایک باوقار خاتون کھڑے تھے۔ انہوں نے دروازے پر لگی نمبر پلیٹ پر لکھے نام کی مناسبت سے اردلی سے کہا کہ کیپٹن صاحب اگر گھر پر ہیں تو انہیں بلا دیجئے اور اگر وہ نہیں ہیں تو ان کی فیملی کو تکلیف مت دینا‘ ہم دوبارہ آ جائیں گے۔ اردلی نے بتایا کہ کیپٹن صاحب گھر پر ہی ہیں۔ اردلی دروازے پر کھڑے مہمان کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے انہیں انتظار کرنے کا کہا اور اندر جاکر کیپٹن صاحب کو اطلاع دی کہ باہر ایک بی بی اور ان کے ساتھ کوئی صاحب کھڑے آپ کا پوچھ رہے ہیں۔ کیپٹن صاحب اسی وقت باہر نکلے اور اپنے سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر پہلے تو یکدم گھبرا گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے گھر اس شخصیت کا بلا اطلاع اس طرح اچانک آنا اور یوں دروازے پر کھڑے ہونا کیا مقصد رکھتا تھا۔ کیپٹن صاحب کے سامنے کھڑی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی تھے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ تھیں۔
اگلے ہی لمحے کیپٹن صاحب نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے اٹینشن ہو کر اپنی کور کے کمانڈر جنرل کو سلیوٹ کیا۔ اسی دوران جنرل صاحب کی بیگم نے کیپٹن سے کہا: ہم آپ کا گھر اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ سنتے ہی کیپٹن صاحب نے جلدی سے ان کے لیے گھر کا دروازہ کھول کر انہیں اندر آنے کو کہا‘ جہاں کیپٹن صاحب کی فیملی کی اجازت سے وہ دس منٹ تک گھر کے ہر کونے‘ لان اور کمروں کو نہایت انہماک اور مسرت سے دیکھتے رہے۔ جب وہ جانے لگے تو لیفٹیننٹ جنرل سرفراز نے کیپٹن صاحب اور ان کی فیملی کو بتایا کہ اس گھر سے ان کی فیملی کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں کیونکہ جب وہ بطور میجر یہاں پوسٹ ہوئے تھے تو اسی گھر میں انہوں نے اپنی عسکری زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ وہ بتا نے لگے کہ ہم میاں بیوی کو اکثر اس گھر کی یاد ستاتی ہے کیونکہ اپنی شادی کے بعد پہلی دفعہ اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گائوں سے ہم یہیں شفٹ ہو ئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کی بیگم نے جاتے جاتے کیپٹن کی بیوی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: اگر ہم اپنی جیب سے آپ کے گھر کے کچن کی مرمت کرا دیں تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ جیسا کچن ہم چھوڑ کر گئے تھے‘ ویسا ہی دوبارہ دیکھیں۔ کیپٹن صاحب‘ جن کی کوئٹہ پوسٹنگ کو ابھی دو ہفتے ہی ہوئے تھے‘ یہ سن کر پہلے تو خاموش رہے‘ پھر اپنے کمانڈر کی خواہش اور عسکری زبان میں حکم کو دیکھتے ہوئے اثبات میں سرہلا کر رہ گئے کہ جیسے آپ کی مرضی۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کے کیپٹن صاحب سے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ جتنے دن مزدور اور کاریگر گھر میں کام کریں گے‘ ظاہر ہے کہ فیملی کو کچھ پریشانی اٹھانا پڑے گی اس لیے ان کی اجا زت لینا وہ ضروری سمجھ رہے تھے۔ کیپٹن صاحب کی اجازت کے بعد اپنی جیب سے انہوں نے اس گھر کے کچن اور ایک باتھ روم کی مرمت کرائی اور سب کام مکمل ہو جانے کے بعد ایک شام وہ دوبارہ اس گھر میں آئے جہاں وعدے کے مطا بق انہوں نے اپنے بچوں سمیت چائے نوش فرمائی۔ یہ واقعہ اس کیپٹن کیلئے بہت بڑا اعزازتھا جو اس کی پوری فوجی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ایک فخر اور ایوارڈ بن کر اس کے دل کو شادمان کرتا رہے گا۔
کیپٹن صاحب‘ جو اس وقت ترقی کرکے میجر ہو چکے ہیں اور اب ان کی پوسٹنگ پنجاب کے کسی علاقے میں ہے‘ جس کا نام میں کسی وجہ سے نہیں لکھ رہا۔ وہ بتا رہے تھے کہ جب لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کے ہیلی کاپٹر کے اچانک لاپتا ہونے کی اطلاع ملی تو انہیں ایسے لگا کہ جیسے کسی نے ان کا دل مٹھی میں سختی سے بھینچ لیا ہو۔ جنرل سرفراز اور ان کی اہلیہ کے ان کے گھر کے دروازے پر بلااطلاع آنے اور پھر اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پینے کے دوران شفقت اور انکساری کے لمحات یاد کرتے ہوئے میجر صاحب کا دل نجانے کیوں اضطرابی کیفیت کا شکار ہوتا جا رہا تھا کیونکہ کوئٹہ میں اپنی پوسٹنگ کے دوران لسبیلہ اور اردگرد کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے ان کے دیکھے بھالے تھے۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کی مسلسل خاموشی ان کے اعصاب کو نجانے کیوں بوجھل بنائے جا رہی تھی۔
شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی 79ویں لانگ کورس کے کمیشنڈ افسر تھے اور ان کا تعلق 6 آزاد کشمیر رجمنٹ سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہ دعا مانگتے دیکھے گئے اور اپنے جوانوں اور افسران کے روبرو اپنا یہ عزم اور وعدہ دہراتے رہے کہ کشمیر کی آزادی پاک فوج پر قرض ہے اور اس کی ادائیگی کیلئے ہم سب کو ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔ 2012ء میںوہ اسلام آباد کی مشہور زمانہ ٹرپل ون بریگیڈ کے بریگیڈ کمانڈر بھی رہے۔ جن لوگوں نے انہیں امریکا میں پاکستان کے سفارت خانے میں بطور ڈیفنس اتاشی خدمات سرانجام دیتے دیکھا ہے‘ وہ آج بھی ان کی حب الوطنی اور فرض شناسی کی لازوال داستانیں سناتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کا کہنا تھا کہ ''بس اتنا سمجھ لیں کہ امریکا میں اپنی پوسٹنگ کے دوران ہمہ وقت پاکستان کی عظمت اور سالمیت ان کے ایمان کا حصہ رہی ہے‘‘ ۔
بلوچستان میں جب وہ بطور آئی جی ایف سی تعینات کیے گئے تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ بلوچستان کے حالات اور پھر اس صوبے میں ایف سی جیسی انتہائی حساس اور جفا کش فورس کی خدمات سے واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بلوچستان ایف سی اس وقت فرنٹ لائن پر حالتِ جنگ میں ہے کیونکہ ایک جانب دشمن کے اندرونی ایجنٹس ہیں جن کو نام نہاد ترقی پسندوں کی مدد اور حمایت بھی میسر ہے تودوسری جانب پاکستان کی سالمیت کے ضامن نیو کلیئر اثاثے ہیں جن کی حفاظت اپنے جسم کے ایک ایک ٹکڑے کو قربان کرتے ہوئے بھی کرنی ہے اور اپنے اسی وعدے اور حلف کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے‘ ان کے ساتھی افسران اور عملے نے اپنا آپ وطن عزیز پر قربان کر دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین کارکردگی پر انہیں دو مرتبہ تمغۂ بسالت سے نوازا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز شہید کوئٹہ میں پاک فوج کے کوئٹہ سٹاف کالج کے کمانڈنٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد پاک فوج کی انتہائی حساس ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل بھی تعینات رہے۔ ان کی یہ تعیناتی ملک و قوم کے علا وہ افواجِ پاکستان کیلئے بھی ایک بہترین پوسٹنگ رہی۔ اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس پوسٹنگ کے دوران قدم قدم پر خدائے بزرگ و برتر کی شفقت اور مدد ان کے شاملِ حال رہی۔ جنرل سرفراز علی ایک سچے اور کھرے افسر تھے۔ وہ وطن کی عظمت کیلئے اپنی سوچ کسی کے بھی سامنے بیان کرنے سے رتی بھر نہیں گھبراتے تھے کیونکہ ان کی منزل ایک باوقار انسان کی طرح اپنے رب کے حضور پیش ہونے کی تھی۔ وہ جہاں بھی تعینات رہے‘ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ نہایت مشفق اور ہمدردانہ رہا۔ شہادت کے وقت وہ کورکمانڈر 12کور (جسے کوئٹہ کور بھی کہا جاتا ہے) کے عہدے پر تعینات تھے اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں کا جائزہ لے رہے تھے۔
ان کی شہادت کی خبر ملتے ہی پاک فوج کے اند رہی نہیں‘ پورے ملک کی فضا میں ایک سوگواری سی چھا گئی۔ پوری قوم کو ایسے لگا جیسے جنرل سرفرازکے ساتھ ان کا بھی کوئی قریبی اور گہرا تعلق تھا۔ جس طرح لوگ ان کی شہادت پر ایک ادھورا پن اور دکھ محسوس کر رہے ہیں‘ اس کے پیشِ نظر امید کی جا سکتی ہے کہ جنرل سرفراز شہید ہو کر پہلے سے بھی زیادہ سرفراز ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں