"MABC" (space) message & send to 7575

الیکٹرک شاکس

بجلی کے بلوں نے ملک بھر میں بجلی صارفین کے لیے ایک قیامت برپا کر دی ہے۔ لاہور میں ایک پرانی آبادی کی ایک چھوٹی سی دکان پر بجلی کے ماہانہ صرف 34 یونٹ صرف ہوئے ہیں لیکن بجلی کی تقسیم کار کمپنی کی طرف سے اسے جولائی کا بجلی کا بل 34 ہزار روپے بھیجا گیا ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے‘ پورے ملک میں کروڑوں صارفین اس سے بھی زیا دہ بل ملنے پر جس دکھ‘ تکلیف اور اذیت کا شکار ہیں‘ اس کا اندازہ ان کے ووٹ حاصل کرکے حکمران بننے والے سیاسی خاندان نہیں بلکہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو خود اس مشکل سے گزر رہے ہیں۔ اب تک بیس سے پچیس ہزار تک ماہانہ کمانے والے‘ ایک یا دو کمروں پر مشتمل مکانوں میں رہنے والے درجنوں خاندان میڈیا پر رپورٹ ہو چکے ہیں۔ جن میں سے بیشتر خاندانوں کے سربراہ روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے خود کشی کر چکے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے ایک باپ نے اپنی دو بچیوں کو نہر میں پھینکنے کے بعد حکومت اور ریاستی اداروں کے نام خط لکھتے ہوئے پورے معاشرے کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ خط میں لکھے گئے متن کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ وہ سات ہزار روپے مکان کے کرائے اور تیس ہزار روپے بجلی کے بل کے ساتھ بھوک سے مجبور ہو کر اور مہنگائی کے عذاب سے تنگ آ کر اپنی معصوم بچیوں کو مارنے کے بعد خود کو بھی موت کے منہ میں اُتار رہا ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا کے ذریعے اب تک لاکھوں لوگوں تک پہنچ چکی ہوگی‘ کچھ نے اس پر افسوس کیا ہوگا اور کچھ روئے بھی ہوں گے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ مہنگائی کے اصل ذمہ دار ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو یہ خبر آئی ہے کہ اگست میں بجلی کے بلوں میں جون کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقریباً دس روپے فی یونٹ کے حساب سے اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اربابِ اقتدار اور اختیار سمیت موروثی سیاست کے علمبرداروں کو نہ جانے کس نے خفیہ رپورٹ دیتے ہوئے بتا دیا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے جائو‘ بجلی‘ پانی اور گیس کی قیمتوں میں جتنا چاہو اضافہ کرو‘ اس عوام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ترین ہو چکی ہیں‘ بجلی کی قیمت میں آئے روز اضافہ کرکے عوام کو الیکٹرک شاکس لگائے جا رہے ہیں‘ اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں‘ اور تو اور ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ جاری ہے لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو ووٹ دینے کی سزا دی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ بجلی کی تقسیم کا نظام صوبوں کے سپرد کر دیا جائے۔ بجلی پر صوبائی کنٹرول کا ایک تجربہ کرتے ہوئے کئی برس پہلے بلوچستان میں باغات کیلئے مفت بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ باغات مالکان مفت بجلی کے چکر میں رات دن ٹیوب ویل چلاتے رہے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی بہہ بہہ کر ریت میں ضائع ہوتا رہا جس سے زیر زمین پانی کی سطح اتنی گر گئی کہ مزید پانی نکالنا ممکن نہ رہا اور باغ علیحدہ سوکھ کر ختم ہو گئے۔ گویا یہ رویہ ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی ملکی وسائل کا خیال ہی نہیں۔ بجلی کی تقسیم صوبوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ اسی قسم کی لوٹ مار پر مبنی ہے جیسی دہائیوں سے مرکز اور صوبوں میں ہو رہی ہے۔ بجلی کی تقسیم صوبوں کو سونپنے سے سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتوں اور ان کے چہیتوں کو بجلی چوری کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔ ان سے وصولیاں نہیں کی جا سکیں گی اور نہ ہی نا دہندگی پر ان کی بجلی کاٹی جا سکے گی۔ ساتھ ہی بجلی کی پیداواری کمپنیوں سے ساز باز کرکے اُن سے انتہائی مہنگے داموں بجلی خریدی جائے گی اور بجلی کے نئے کنکشن بھی صرف سیاسی جماعتوں کے وفاداروں کو دیے جائیں گے۔ سندھ کی ہی مثال لے لیں۔ کیا وہاں کی صوبائی حکومت اس قابل ہے کہ صوبے میں بجلی چوری ختم کر سکے؟ کیا خیبر پختونخوا کی حکومت فاٹا اور اس سے ملحقہ علاقوں سے بل وصول کر سکے گی؟ اسی طرح کیا بلوچستان میں وصولیاں ہو سکیں گی؟ بلکہ جب بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے کے بھاری بوجھ تلے دب جائیں گی تو صوبے مرکز سے امداد مانگنے لگیںگے اور ملک مزید قرضوں تلے دبتا چلا جائے گا جس کا نتیجہ شدید معاشی بحران کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔
عوام تو حکومت سے مطلوبہ مقدار میں بجلی فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں‘ بجلی گرانے کی نہیں۔ عوام پر بجلی گرانے کی داستانِ الم کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا جب بڑی تعداد میں تھرمل پاور کے نجی بجلی گھر لگوائے گئے۔ اُس وقت جن شرائط پر یہ پاور پلانٹس لگوائے گئے اُس کا نتیجہ بجلی کی قیمت میں اضافے کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ جب یہ پاور پلانٹس لگوائے جا رہے تھے تو بجلی کی فی یونٹ قیمت چند روپے تک تھی‘ آج صورت حال سب کے سامنے ہے۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیںکیونکہ مہنگے فرنس آئل کا سارا بوجھ بلوں کی صورت میں براہِ راست عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ایک بات کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ کون سی نا معلوم وجوہات تھیں جن کی بنا پر بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں سے مشکل شرائط پر معاہدے کیے گئے۔ مثلاً اُن معاہدوں میں بجلی گھروں کو تین ہزار روپے فی ٹن فرنس آئل دینے کا وعدہ کیا گیا (یہ اُس وقت کا ریٹ تھا) اور باقی کا خرچہ حکومت پاکستان پر ڈال دیا گیا۔ آج کل جو فرنس آئل کا ریٹ ہے اُس سے خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ حکومت پر بے تحاشہ قرض کیوں نہ چڑھے؟
اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو اس سے نہ صرف بجلی کی کمی پوری کی جا سکے گی بلکہ سندھ اور کے پی کی لاکھوں ایکڑ زمین پر آبپاشی کیلئے پانی بھی میسر آ سکے گا مگر پاکستانی عوام کے دکھوں میں کمی لانے والے کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنا ہمارے سیاست دانوں کی عوام دشمنی کی بہت بڑی مثال ہے۔ جب بھی مرکز نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا پکا ارادہ کیا تو صوبوں کے سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے کا شوق چرایا اور انہوں نے سستی شہرت کیلئے اس کی مخالفت شروع کر دی اور یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اندورنی و بیرونی قوتیں بھی اس کی مخالفت کر رہی تھیں کیونکہ کالا باغ ڈیم بننے سے نجی بجلی گھر کیسے بنتے اور پھر یہ مہنگی بجلی کیسے بیچتے اور ان پاور کمپنیوں میں اپنے حصہ داروں کے پلانٹ کیسے کام کرتے اور کماتے؟
کالا باغ نہ بنانے کیلئے عذرِ لنگ سندھ اور خیبر پختونخوا کی علاقائی اور لسانی سیاست ہے۔ ملک کے تمام فیصلہ سازوں‘ سیاست دانوں اور میڈیا سے یہ کون پوچھے گا کہ جب وارسک‘ راول‘ منگلا اور تربیلا ڈیم شروع کیے جا رہے تھے تو اس کیلئے سیا سی‘ لسانی اور علاقائی جماعتوں اور گروہوں سے کسی نے اجا زت لی تھی؟ کیا کچھ آبی ماہرین اور دانشوورں کا یہ کہنا درست ہے کہ کالا باغ ڈیم کے منجمد ہونے کی اصل وجہ یہ ہے اس کی مخالفت کرنے والوں نے کہیں نہ کہیں سے ایڈوانس پکڑا ہوا ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں