نجانے کب سے سنتے چلے آ رہے تھے کہ میاں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور اسحاق ڈار کے علاوہ جناب آصف علی زرداری سمیت کئی بڑے سیاستدانوں کے اربوں روپے کے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات احتساب عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ پھر بتایا گیا کہ ایک بڑی شخصیت کے ایک فرنٹ مین نے پلی بارگین ڈیل کر لی اور کئی ارب روپے جمع کرا کے اپنی جان بخشی کرا لی۔ موجودہ وزیراعظم سے متعلق یہ خبریں بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ 24 ارب روپے کی کرپشن کے کیسز ایف آئی اے کے پاس دو برس سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہے لیکن فردِ جرم عائد کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی یا یہ کہہ لیجئے کہ شہباز شریف صاحب اس کا موقع ہی نہیں آنے دے رہے تھے۔ مسلم لیگ نواز سمیت احتسابی عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والا طبقہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہ تھا لیکن پھر رمضان شوگر مل کے درجہ دوم‘ سوم اور چہارم کے ملازمین کے ناموں سے کھولے گئے بینک اکائونٹس کی ایک طویل فہرست سب کے سامنے آ گئی۔ جن لوگوں کے نام پر وہ بے نامی اکائونٹس بنائے گئے تھے‘ ان بے چاروں نے کبھی پاسپورٹ کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی لیکن ان کے ناموں سے ملک کے اندر ہی نہیں‘ بیرونی ممالک میں بھی بینک اکائونٹس کھولے گئے تھے۔ یہ اکائونٹس کبھی خالی ہوتے اور کبھی ارب ہا روپوں سے بھر جاتے۔
جب یہ خبریں سامنے آئیں تو اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت ہی خوش قسمت لوگ ہیں جن کے ناموں کی دنیا بھر میں تشہیر ہور ہی ہے۔ مقصود چپڑاسی، مشتاق چینی اور فالودے والے، پاپڑ فروش اور دہی بھلوں کی ریڑھیوں اور ٹھیلوں والوں کے نام پاکستان کے اندر اور باہر ہر جگہ گونجتے رہے۔ اخبارات کے رپورٹرز اور میڈیا کے درجنوں کیمرے ان افراد کے ٹوٹے پھوٹے گھروں، میلے کچیلے کپڑوں کی تصاویر اور وڈیوز دکھاتے تو لوگ سوچ میں پڑ جاتے کہ ان کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ انہوں نے کبھی اکٹھے پچاس ہزار روپے بھی دیکھے ہوں گے۔ اس وقت یہ خیال بھی آتا تھا کہ کاش ہم بھی فالودہ فروش ہوتے یا دہی بھلے لگاتے‘ ہماری بھی کوئی سائیکلوں کو پنکچر لگانے کی دکان ہوتی اور ہمارا نام بھی ان بڑے سیاستدانوں کے ناموں کے ساتھ جوڑا جاتا۔ ہمارے نام پر بھی اکائونٹس کھولے جاتے اور ان میں ارب ہا روپے جمع ہوتے۔ ہم بھی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو جلانے کیلئے خود کو ارب پتی ظاہر کرتے۔ ابھی یہ سب حسرتیں دل میں ہی تھیں کہ ایک دن اخبارات اور ٹی وی کی سکرینوں پر افضل نامی ایک شخص کی کہانی گونجنے لگی۔
افضل پر الزام تھا کہ اس نے تین سو پچاس روپے کا دھنیا چرانے کی کوشش کی تھی مگر ہماری قابل اور فرض شناس پولیس نے ایک بہت بڑے آپریشن کے دوران اس خطرناک چور کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیا۔ اس دھنیا چور کا مقدمہ مجسٹریٹ سے سیشن جج اور وہاں سے ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچ گیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے جب کیس کا جائزہ لینا شروع کیا تو ایسے ایسے حقائق سامنے آئے کہ سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ملزم کو جیل میں بند ہوئے ایک برس سے زائد بیت چکا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سوال کناں تھی کہ کیا ہمارے ملک کا نظام عدل بالکل ناکارہ ہو گیا ہے کہ چند سو روپے کی چوری کا ملزم ایک سال سے جیل میں ہے اور تین جگہوں پر اس ''خطرناک ترین‘‘ جرم کے باعث مجرم کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ دیکھا جائے تو افضل کا کیس کوئی انوکھا یا منفرد کیس نہیں ہے۔ ایسے کیسز پاکستان میں جابجا ملیں گے۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے کی رانی بی بی کا کیس بھی ملتا جلتا مگر اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ رانی بی بی محض پندرہ سال کی تھی جب 1998ء میں اس پر اپنے شوہر کو قتل کرنے کا الزام لگا۔ اس کے والد، والدہ، بھائی اور ایک کزن کو بھی اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے خانہ پُری کیلئے کم عمر رانی بی بی اور اس کے خاندان کو اس کیس میں پھنسایا اور پھر عدالت نے اس خاندان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ جب انہیں جیل منتقل کیا گیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اس سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں مگر اپیل کی درخواست کیلئے متعلقہ پولیس اہلکار نے چار سو روپے مانگے۔ یہ خاندان اتنا غریب تھا کہ یہ چار سو روپے دینے سے بھی قاصر تھا۔ محض چار سو روپے نہ ہونے کے باعث رانی بی بی کو 19 سال جیل میں گزارنا پڑے۔ یہ کیس جب لاہور ہائیکورٹ میں آیا تو ابتدائی سماعتوں میں ہی واضح ہو گیا کہ اس کے پیچھے پولیس کی بدنیتی کارفرما تھی۔ عدالت نے سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کو جیل انتظامیہ کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے رانی بی بی کو ''باعزت‘‘ بری کرنے کا حکم دیا اور اس کی دو دہائیوں پر مشتمل طویل سزا پر افسوس کا اظہار کیا مگر اس سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ ایک طرف دھنیا چور کا جرم اس قدر سنگین تھا کہ کوئی اس کی ضمانت کی درخواست قبول کرنے کو تیار نہ تھا اور دوسری طرف رانی بی بی‘ جو چار سو روپوں کے نہ ہونے کی وجہ سے انیس سال جیل میں رہی۔ ملزم زاہد کی کہانی بھی دھنیا چور جیسی ہی ہے۔ مرغی چوری کے الزام میں ملزم زاہد نے ایک برس سے زائد عرصہ جیل میں گزارا۔ ملزم پر اس کے مالک نے 15 مرغیاں چوری کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور پولیس کی پھرتی دیکھیے کہ جب ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کیا گیا‘ اس وقت تک اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں اس پر مرغی چوری کا کیس بنایا گیا، ملزم نے ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست جمع کرائی جسے پہلے مجسٹریٹ کورٹ‘ اس کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی مسترد کر دیا۔ اپنے وکیل کے ذریعے ملزم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ضمانت پر رہائی کی درخواست دی‘ ایک سال بعد جہاں سے اس کی ضمانت پر رہائی عمل میں آئی۔
ان سب اور ان جیسے دوسرے کیسز کے ملزمان کی کہانیاں سنیں یا سپریم کورٹ کے ریمارکس دیکھیں‘ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ اسی ملک میں پیش آنے والے واقعات ہیں جس میں ایک ماڈل پانچ لاکھ ڈالر دبئی لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی ہے اور محض تین ماہ بعد ضمانت پر رہا ہو جاتی ہے۔ جس میں سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے علاوہ منی لانڈرنگ جیسے ''معمولی‘‘ جرائم والے چند گھنٹے بھی جیل میں نہیں گزار پاتے کہ ضمانت پر رہا ہو کر ہمیشہ کی طرح دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اسی ضمانت پر وہ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر تک بن جاتے ہیں۔ ضمانت پر رہائی کے باوجود اداروں کے خلاف وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ جو لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا‘ کی نمائندگی وہ افراد کر رہے ہیں جو اس وقت سنگین مقدمات میں عدالت سے ضمانت پر رہا ہیں۔ دو درجن سے زائد ضمانتی ملزمان اس وقت وفاقی وزرا کے عہدے پر فائز ہیں۔ استاد گوگا دانشور اس بے مثال کارنامے پر پولیس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ قانون کی کتابوں اور ضابطوں کی ماہر پولیس کی خوبی دیکھئے کہ اس نے دھنیا چوری اور مرغی چوری جیسے ''ناقابل معافی‘‘ جرائم کے مقدمے کا چالان اس مضبوطی سے تیار کیا کہ چھوٹی عدالتیں ان گھنائونے جرائم میں ملوث افراد کی ضمانت کی درخواست تک منظور نہ کر سکیں، وہ تو بات کسی طرح سپریم کورٹ تک جا پہنچی اور یہ معاملہ سب کے سامنے آ گیا وگرنہ یہ افراد رانی بی بی کی طرح مزید کئی سالوں بلکہ کئی دہائیوں تک جیل میں ہی سڑتے رہتے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مقدمے کی سماعت کے دوران حیرت سے ریمارکس دیے تھے کہ 350 روپے کا دھنیا چوری کرنے والا ایک سال سے جیل میں بند ہے اور بڑے بڑے مجرموں کی طرف کوئی ہاتھ ہی نہیں ڈالتا۔ کیسز تو ان کے بھی بنتے ہیں‘ کچھ تفتیش کے مراحل بھی طے کر جاتے ہیں مگر جب بھی ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ان کے ہمدرد خم ٹھونک کر راہ میں حائل ہو جاتے ہیں کہ خبردار! اگر اس فائل‘ اس کیس کا نام بھی لیا تو...! ایسے میں غریب عوام کس کے پاس جائیں‘ کس سے شکوہ کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟