''طبلِ جنگ بج چکا ہے اور عمران خان کو اپنی حدود میں رکھنے کیلئے نااہل کرایا جا رہا ہے‘‘۔ ان دونوں ایسی کئی اطلاعات زیرِ گردش ہیں۔ واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو میدانِ سیاست سے باہر کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور اس کی تیاریاں لندن میں چند روز پہلے کی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق اس مقصد کے لیے پنجاب یا سندھ کے بجائے خیبر پختونخوا کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ابتدائی نااہلی توشہ خانہ کیس میں ہو گی اور پھر اس فیصلے کے اگلے روز یا چند دنوں بعد‘ دیگر بہت سے کیسز میں بغاوت، غداری اور ملک دشمنی کی ایسی دفعات کے تحت خان صاحب کو گرفتار کیا جائے گا جن کا اطلاق دہشت گردوں اور فورسز پر حملے کرنے والے مجرموں پر بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کے پی میں گورنر راج لگانے کے حوالے سے بھی سوچ بچار کی جا رہی ہے۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ کام لگ بھگ ناممکن ہو چکا ہے مگر جب تک یہ معاملہ عدالتوں میں چلے گا‘ وفاق کو کم از کم کچھ وقت ضرور مل جائے گا۔ ''پلان بی‘‘ بھی تیار کیا جا رہا ہے‘ کہ تحریک انصاف کے ایک دھڑے کو پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے تاکہ تحریک انصاف کو اندر ہی سے کمزور کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ‘ ملک میں انارکی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت ایسے کسی اقدام کے نتائج و عواقب کیا ہوں گے‘ کیا کسی نے اس پر بھی غور و فکر کیا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اس وقت پاکستان دشمن دہشت گرد گروپ دوبارہ فعال ہو رہے ہیں۔ کے پی کے کچھ علاقوں میں دہشت گردوں کی دوبارہ آمد کی باتیں بھی سرگرم ہیں۔ اگر صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے تو دہشت گردوں کو اس قدر خام مال دستیاب ہو جائے گا کہ نہ صرف ملک کا امن و امان متاثر ہو گا بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کر کے امریکہ کی کوئی نئی کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنے کی سازش کو بھی مہمیز ملے گی اس کے علاوہ اس خطے میں روس اور چین کے مفادات کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ الغرض اس ساری مشق سے نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے میں انتشار اور تباہی کے اور کچھ نہیں برآمد ہو گا۔ اس وقت عمران خان کی مخالف ہر طاقت کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے عوامی مقبولیت کے گھمنڈ کو کچل کر سب کو بتا دیا جائے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر کسی کو سیاست کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو مصر کی مثال سے سبق سیکھ لے۔ محمد مرسی کے بعد اب پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کی صورت میں ایک نئی مثالِ عبرت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے آثار چند دنوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے تحریک انصاف کے خلاف بیرونی فنڈنگ کا کیس داخل کرنے سے لے کر اب تک کے آٹھ سالہ طویل سفر کے دوران عمران خان کے مخالفین کی جانب سے ایک ہی رٹ لگائی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی نے اسرائیل اور امریکا کی یہودی لابی سے فنڈنگ لی۔ کبھی کہا جا رہا تھا کہ بھارتیوں سے بھاری فنڈنگ لی گئی۔ غرض وہ سب کچھ کہا جا رہا تھا اور اس قدر تواتر سے اور بلا سوچے سمجھے الزامات کی بارش کی جا رہی تھی کہ سننے والے کبھی کبھی سوچنے لگتے کہ شاید جو کچھ اعلیٰ حکومتی اہلکار اور وزرا کہہ رہے ہیں‘ ممکن ہے کہ یہ سب سچ ہی ہو۔ اگر کسی کے ذہن میں کچھ شک اٹھتا بھی تو ساتھ والا کہنے لگتا کہ کچھ تو ہو گا جس کا اس قدر شور برپا ہے۔ الزامات لگانے والوں کا کوئی بھی مقصد ہو یا پروپیگنڈا پر انہیں کتنا ہی عبور کیوں نہ ہو‘ یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر آپ کسی ایسے گھر میں رہ رہے ہوں جس کے چاروں طرف شیشہ ہی شیشہ ہو تو ایسے شخص کیلئے لازم ہو جاتا ہے کہ سامنے والے پر سنگ باری کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لے کہ جواب میں اگر کوئی ایک پتھر بھی اس کے گھر پر آ گرا تو پورے گھر کا انہدام چھپائے نہ چھپ سکے گا۔ عمران خان پر بیرونی فنڈنگ کے الزامات لگانے والوں کو ان کی اس تکرار کا جواب دیتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ حضور والا! آپ کے الزامات سر آنکھوں پر لیکن یہ تو بتا دیجئے کہ آپ کی جماعت نے فنڈنگ کہاں سے اور کن ذرائع سے حاصل کی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ تحریک انصاف نے چالیس ہزار سے زائد جیتے جاگتے افراد کا ریکارڈ مع بینک اکائونٹس ڈیٹیل‘ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ تین‘ تین بار اس ملک پر حکومت کرنے والی جماعتوں نے اپنے کتنے ڈونرز کا ڈیٹا الیکشن کمیشن میں جمع کرایا ہے؟ نواز لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کا جو کیس تحریک انصاف نے دائر کر رکھا ہے‘ اس میں ایسے فنڈز کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جنہیں مبینہ طور نواز شریف صاحب نے نکلوا لیا تھا۔ اب یہ نکلوائے گئے فنڈز کدھر گئے‘ ان کا کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا۔
چند روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف کا ایک بیان اخبارات کی زینت بنا کہ ''لسبیلہ حادثے پر سوشل میڈیا ٹرینڈ کی رپورٹ سے واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی اور بھارت کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے‘‘۔ کیا وزیر دفاع جیسے اہم ترین منصب پر فائز کسی شخص کو ایسی بیان بازی زیب دیتی ہے؟ اگر ایسی کوئی بات ہے کہ تو اب تک خواجہ آصف صاحب کوئی ثبوت سامنے کیوں نہیں لائے؟ کوئی ریفرنس‘ کوئی کیس کیوں نہیں دائر کیا گیا؟ چند سو ٹویٹس کو لے کر اپنے ہی ملک کی کسی جماعت کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ یقینا ملکی اداروں بالخصوص شہدا کے خلاف زبان درازی کرنے والے تمام افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا ضروری ہے مگر اس تمام مشق کو ایک منظم سازش، پارٹی قیادت کی ہدایت پر ہونے اور پارٹی قیادت کے بیرونی ممالک سے ڈائریکشن لینے کے تعلق کو ثابت کرنے کی ذمہ داری محترم وزیر دفاع پر عائد ہوتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارت کے ساتھ پی ٹی آئی اور عمران خان کا تعلق ثابت کرنے سے قبل وہ اپنے قائدِ محترم کی العزیزیہ سٹیل اور ہل میٹل سے وابستہ مینجمنٹ رپورٹ کی تفصیلات کی روشنی میں یہ بھی واضح کر دیتے کہ ''میلٹنگ ایکسپینشن پروجیکٹ‘‘ کے لیے بھارت کے تیار کردہ ''انڈکشن فرنس اینڈ کیسٹر‘‘ ایک ایسی شخصیات کے ذریعے کیوں منگوائے گئے تھے جو ایک شادی میں شرکت کیلئے مبینہ طور پر بغیر کسی ویزے کے لاہور اور مری تشریف لائی تھی۔ اپنی جلاوطنی کے دوران جدہ میں لگائی گئی سٹیل ملز کی تنصیب کیلئے کسی پاکستانی، جرمن یا امریکی فرم یا انجینئرز کے بجائے بھارتیوں کی خدمات ہی سے کیوں استفادہ کیا گیا تھا۔
یہ سب تو اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب سجن جندال نے پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے مری میں ملاقات کی تھی تو دفتر خارجہ نے اس غیر رسمی ملاقات کو ''نجی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کا یہ ٹویٹ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ''سجن جندل وزیراعظم نواز شریف کے پرانے دوست ہیں اور دو دوستوں کی ملاقات کو غلط رنگ نہ دیا جائے‘‘۔ یقینا ایسی باتیں آج حکومتی ذمہ داران پر شاق گزرتی ہوں گی مگر جب دوسروں پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات کی بارش کی جائے گی تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ سب چپ ہو کر بیٹھ جائیں۔ پھر میڈیا کی طرف سے آپ کے لیے بھی سوال اٹھے گا کہ آپ نے خود‘ اپنے دور میں ایسا کیوں کیا تھا؟سیاسی مخالفت میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ کہیں آپ خود بھی تو کسی شیشے کے گھر میں نہیں بیٹھے؟ نااہلی کی تلوار بڑی بے رحم ہے۔ اگر آج اس کی زد میں عمران خان آئیں گے تو کل لازمی طور پر آپ کی باری بھی آئے گی۔ آج آپ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل کرانے کے لیے جو معیار مقرر کریں گے‘ کل کو آپ کو بھی اسی پر پرکھا جائے گا۔ پھر نہ صرف آپ کو اپنے ادوار کے توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ پیش کرنا ہو گا بلکہ ان بلٹ پروف کروڑوں روپے کی گاڑیوں کا بھی حساب دینا ہو گا‘ جنہیں چند لاکھ روپے دے کر ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیا گیا تھا۔