عالمی شہرت یافتہ امریکی پروفیسر گریگوری سٹینٹن نے حالیہ عرصے میں متعدد بار خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے حالات آٹھویں مرحلے تک پہنچ چکے ہیں۔ امریکی پروفیسر نسل کشی پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دسواں مرحلہ نسل کشی کے عمل پذیر ہونے کا ہوتا ہے۔ بھارت میں حالات کا آٹھویں مرحلے تک پہنچ جانا اس بات کا غماز ہے کہ بھارت میں مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا اب صرف ایک قدم کے فاصلے پر رہ گیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے جس ''ہندوستانی رواداری‘‘ کی تاریخ کا حوالہ دیا گیا ہے‘ وہ ایک متروک لوک داستان بن کر رہ گئی ہے جس کا اب مودی کے بھارت میں موہوم سا وجود بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پروفیسر گریگوری نے امریکی تنظیم ''جسٹس فار آل‘‘ سے خطاب میں بھارت کے حوالے سے ''جینوسائیڈ ایمرجنسی الرٹ‘‘ کا اعلان بھی کیا اور اقوام متحدہ کو بھی متنبہ کیا۔ بھارت میں اب تک متعدد مرتبہ منظم مسلم نسل کشی کی جا چکی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ بجائے اس کے بھارتی معاشرہ اس کو نفرت بھری نظر سے دیکھے‘ ہو یہ رہا ہے کہ جو بھی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی آگ لگاتا ہے‘ اسے بھارت کے اگلے وزیراعظم کے طور پر دیکھا جانے لگتا ہے۔ ''گجرات کے قصاب‘‘ نریندر مودی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اب اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کو نریندر مودی کے جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں تشدد اور مسلمانوں کی نسل کشی باعثِ ندامت نہیں۔
جب اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر مکمل شواہد کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں بسنے والی مسلم اقلیت کا مکمل صفایا کرنے کی پلاننگ کی جا چکی ہے اور اس کے عملی مظاہرے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں تو پھر بھارت کو پابندیوں کے قانون سے کیوں نہیں جکڑا جاتا؟ شاید اس لیے کہ بھارت دنیا کے ''شاہوں کا مصاحب‘‘ بن چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک بڑی اکانومی ہونے اور مغربی دنیا کی سب سے بڑی ''کنزیومر‘‘ مارکیٹ ہونے کی وجہ سے بھارت کے سبھی چھوٹے بڑے ریاستی جرائم سے پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تو شاید اب دنیا کی کسی بھی مملکت کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتا‘ یہی وجہ ہے کہ پورا مقبوضہ کشمیر محکوم کشمیریوں کیلئے قید خانہ بن کر رہ گیا ہے‘ جہاں بھارت کی سات لاکھ افواج‘ ایک لاکھ پیرا ملٹری فورسز اور چالیس ہزار سے زائد پولیس اہلکار بندوقیں تانے ہر دروازے کے باہر کھڑے ملتے ہیں۔ کشمیر کی اس مقبوضہ وادی میں‘ جس کی آزادی کا اقوام عالم وعدہ کر چکی ہیں‘ بھارت کی فاشسٹ گسٹاپو فوج نے گزشتہ دنوں مزید چار کشمیری نوجوانوں کو یہ کہہ کر شہید کر دیا کہ ان چاروں کا تعلق دہشت گردوں سے تھا اور وہ علیحدہ علیحدہ ٹھکانوں پر اس لیے چھپے ہوئے تھے تاکہ بھارت کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا سکیں۔ سکیورٹی فورسز خفیہ اطلاع ملنے پر ان کے ٹھکانوں پر پہنچ گئیں اور ان سے ہتھیار ڈالنے کا کہا مگر انہوں نے سکیورٹی فورسز پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی اور جوابی آپریشن میں یہ سب مارے گئے۔ اب آپ کمال دیکھئے کہ چار مختلف جگہوں پر فوج نے چھاپے مارے‘ جہاں ''محفوظ ٹھکانوں‘‘ پر چھپے ''دہشت گردوں‘‘ نے ''بھاری ہتھیاروں‘‘ سے پولیس اور فوج پر حملہ کیا لیکن مجال ہے کہ بھارتی فوج، پیراملٹری حتیٰ کہ پولیس کے کسی ایک اہلکار کو کوئی ہلکی سی خراش بھی آئی ہو۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ان ''دہشت گردوں‘‘ کی جانب سے پھینکے گئے دستی بم کاغذ کے پھولوں کی مانند تھے یا ان کی کلاشنکوفوں اور جی تھری رائفلوں میں بارود اور گولیوں کے بجائے کنکر بھرے ہوئے تھے۔ اگر کنکر بھرے ہوتے تب بھی کوئی ایک اہلکار ہی زخمی ہوتا مگر نہیں! ایسی داستان مقبوضہ وادی کے ہر دوسرے گھر میں مل جاتی ہے کہ نوجوانوں کو‘ جو ابھی سکول‘ کالج میں زیرِ تعلیم ہوتے ہیں‘ دہشت گرد قرار دے کر ریاستی جبر اور فاشزم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ مذکورہ نوجوانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ اننت ناگ (اسلام آباد) کے ایک سکول ٹیچر کے خاندان کے ساتھ بھارتی فوج کے گھٹیا سلوک کے خلاف انہوں نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کی تھی۔ اس جرمِ عظیم کی سزا دینے کیلئے ان چاروں نوجوانوں کو رات کی تاریکی میں گھروں سے اٹھایا گیا اور پھر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں شہید کر دیا گیا۔ پوری دنیا کشمیر میں ہونے والے ان مقابلوں کی حقیقت جانتی ہے مگر ماورائے عدالت قتلوں پر بھی ہر طرف خاموشی طاری رہتی ہے اور کہیں سے کوئی ہلکی سی آواز بھی بلند نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اس کی فوج دنیا بھر کے سامنے شرمندہ ہونے کے بجائے اکڑ اکڑ کر چل رہے ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ چونکہ بھارت دنیا کے بڑے بادشاہوں کا مصاحب ہے‘ اس لیے اسے ہر گناہ، ہر جرم معاف ہے۔ جنوری2001ء سے تا دم تحریر کم از کم 694 کشمیری بیٹیاں بھارتی فوج اور اس کی پیرا ملٹری فورسز کے بہیمانہ جنسی تشدد کا نشانہ بن چکی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ شرمناک واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ اَن رپورٹڈ واقعات کا تو باب ہی الگ ہے۔ پوش پورہ میں بھارت کی راجپوتانہ رائفلز کی جانب سے کی گئی اجتماعی زیادتی بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور اقوام عالم میں خواتین کا دن منانے والوں کے چہرے پر کلنک کا وہ ٹیکا ہے جسے وہ لاکھ مٹانے کی کوشش کریں‘ مٹ نہیں سکتا۔ کٹھوعہ میں صرف آٹھ برس کی آصفہ بانو کو بھارتی فوج کے درندے نوچتے رہے۔ اس بچی کی لاش دنیا کے ہر حساس فرد کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے لیکن یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ سمیت جاپان جیسے اخلاقی اقدار کیلئے مضبوط آوازیں اٹھانے والے ممالک کی خاموشی اور جانبداری دیکھئے کہ ایک بھی آواز بھارتی فوج کی جانب سے معصوم بچیوں اور خواتین کی عصمت دری کے خلاف نہیں اٹھائی گئی۔ سب مقبوضہ وادی میں جاری بربریت پر یوں خاموش ہیں جیسے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی ہر گلی کے حوالے سے ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دے رکھا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رہنمائوں کی جانب سے گزشتہ برس ایک ''دھرم سنسد‘‘ میں کی جانے والی تقاریر اور شریک لوگوں سے لیے جانے والے حلف کے بعد بھی اگر کسی کو شک ہے کہ امریکی پروفیسر گریگوری نے مسلم نسل کشی سے متعلق مبالغہ کیا ہے تو اس کی عقل اور شعور پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں 2002ء کے گجرات کے دنگوں، اجتماعی ریپ اور قتل کے مجرموں کی معافی کے بعد جو مناظر دیکھنے کو ملے‘ انہوں نے انسانیت کا سر ایک بار پھر شرم سے جھکا دیا۔ اجتماعی زیادتی اور مشہورِ زمانہ ''بلقیس بانو کیس‘‘ کے مجرموں کا جس طرح جیل سے رہائی پر شاندار استقبال کیا گیا اور ان پر پھول نچھاور کیے گئے‘ کیا اس کے بعد بھی کسی کو شک ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جرم کو اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ بھاجپا اور آر ایس ایس کی جانب سے ہزاروں انتہاپسند ہندوئوں کے مسلح ہجوم سے متبرک ویدوں کے سائے میں یہ حلف لینے کی وڈیوز کس سے پوشیدہ ہیں کہ اگر وقت پڑا تو ہندو مسلمانوں کی جان لینے سے گریز نہیں کریں گے؟ کم از کم بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کیاجائے گا تاکہ باقی کے مسلمان خوف اور دہشت سے ''ہندو راشٹریہ‘‘ کے آگے سر جھکا دیں۔ بھارت کے نامور فلم سٹار نصیر الدین شاہ خبردار کر چکے ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کو بھارت کے ہر شعبے میں بیکار بنایا جا رہا ہے‘ کسی بھی راہ چلتے مسلمان کو انتہاپسندوں کی جانب سے کہیں جلا کر تو کہیں ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کیا جا رہا ہے‘ اگر اسے روکا نہ گیا تو ڈر ہے کہ کہیں یہ سول وار کی شکل اختیار نہ کر لے۔ دنیا بھر میں موجود ہیومن رائٹس کی کسی بھی تنظیم یا کسی ریا ست کو بھارت کے مسلمانوں سے کوئی غرض نہیں۔ کیا کسی کو بھارت کے اس نیچی ذات والے شخص کی پتھروں اور لوہے کے راڈوں سے کچلی ہوئی لاش دکھائی نہیں دی جسے اس جرم میں قتل کیا گیا تھا کہ اس نے بی جے پی کے مقامی عہدیدار کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ پولیس کے سامنے بی جے پی کی تلواروں سے اس دلت کا قیمہ بنتا رہا اور اس کی چیخیں پورے بھارت میں گونجتی رہیں لیکن ریاستِ بھارت اور اس کا قانون ہندوتوا کے نشے میں مدہوش رہے۔