یہ اگست 1965ء کی بات ہے جب پاکستان کی بری فوج کے چند افسران کو امریکہ میں سٹاف کورس کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہ افسران امریکہ پہنچنے کے بعد ایک طیارے میں امریکی فوجی کے مرکز فورٹ ناکس (Fort knox) جا رہے تھے۔ ابھی جہاز کو ٹیک آف کیے کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ جہاز کی ایک ایئر ہوسٹس نے ان افسران کی نشستوں کے قریب آ کر کہا کہ اس پرواز میں امریکہ کے ایک سینیٹر بھی سفر کر رہے ہیں اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ یہ آفیسرز اگر ان کے ساتھ کافی پینے کیلئے ان کے سپیشل کیبن میں آ جائیں تو انہیں خوشی ہو گی۔ یہ پیغام سننے کے بعد تمام آفیسرز‘ جن میں کرنل پیرزادہ اور جنرل شمیم عالم کے بھائی‘ ظاہر عالم بھی شامل تھے‘ ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹر صاحب سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ کچھ گپ شپ ہو جائے گی اور سفر بھی آسانی سے کٹ جائے گا۔ کافی پیتے ہوئے امریکی سینیٹر نے ان افسران کو یہ بتا کر ششدر کر دیا کہ محض پانچ‘ سات سال میں مشرقی پاکستان‘ پاکستان سے علیحدہ ہو کر ایک علیحدہ ملک بن جائے گا۔ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار یہ افسران‘ جو اس وقت میجر رینک میں تھے‘ جوش و خروش سے دلائل دینا شروع ہو گئے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، اگر کسی نے ایسی کوئی کوشش کی بھی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ اس امریکی سینیٹر کی پیش گوئی محض چھ برسوں میں سچ ثابت ہو گئی۔ یہ اب علیحدہ معاملہ ہے کہ اس میں کس کا کتنا قصور تھا، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس وقت کی دنیا کی دونوں سپر پاورز‘ امریکہ اور سوویت یونین‘ اس معاملے میں یکسو تھیں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا جائے۔ یہ معاملہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ ''اگرتلہ سازش‘‘ ایک حقیقی کیس تھا جس پر سیاسی مفادات کے تحت چشم پوشی کی جاتی رہی۔
17 فروری 2013ء کو امریکی کانگریس میں کیلیفورنیا، ٹیکساس اور لووا کے ارکانِ کانگریس کی جانب ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکہ پاک‘ ایران سرحدی علاقوں میں متحرک عناصر کی بھرپور مدد کرے۔ اس معاملے کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہمیں اسے سمجھنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جنوبی ایشیا کا ایک ''نیا نقشہ‘‘ بھی جاری کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ اس کا پس منظر کیا ہے‘ اس کیلئے ہم سب کو ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ بلوچستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں‘ تو اس علاقے میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر حکمران کو کچھ مقامی لوگوں کے ناجائز مطالبات نہ ماننے کی پاداش میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1948ء، 1958ء، 1973ء اور 2005ء میں بلوچستان میں سر اٹھانے والی پُرتشدد تحریکوں کا اگر موجودہ حالات سے موازنہ کیا جائے تو ایک واضح فرق نظر آئے گا۔ اس سے پہلے پُرتشدد تحریکوں اور ان کے لیڈران کو سوویت یونین، بھارت اور افغانستان سمیت کئی دوسرے ممالک کی مشترکہ اعانت میسر ہوتی تھی لیکن سوویت یونین کی وجہ سے امریکہ اس کی مخالفت کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اپنے اپنے وقتوں میں یہ سب تحریکیں جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ اب گزشتہ سولہ برسوں سے اندرونِ ملک‘ بالخصوص مغربی سرحدی علاقوں میں بد امنی اور دہشت گردی کی لہر میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آ رہی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس بار ان دہشت گردوں کا نیٹ ورک وسیع اور جدید ترین آلات سے لیس ہے کیونکہ افغان بارڈر سے انہیں امریکہ کی بھرپور مدد میسر رہی ہے۔ 2005ء میں ایک بین الاقوامی چینل کے نمائندے نے نواب اکبر بگٹی کا ایک انٹرویو کرنا تھا اور جب وہ ان کی محفوظ پناہ گاہ پر پہنچایا گیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کے اردگرد کھڑے محافظوں اور گوریلا فورس کے پاس ایک دوسرے سے رابطوں کیلئے تھرایا (thuraya) سیٹ تھے جو سولر انرجی سے چارج ہوتے تھے۔ بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقے میں ایک جدید ترین سیٹلائٹ فون‘ جو سولر پاور سے چارج ہوتا تھا‘ جہاں غیر ملکی صحافی کے لیے حیران کن تھا وہیں اس امر کی غمازی بھی کر رہا تھا کہ اس شورش کو کن کن ممالک کی اشیرباد حاصل رہی ہے۔
بریگیڈیئر ظاہر عالم خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نامور فوجی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ نو بھائی تھے اور تمام کے تمام بھائی افواجِ پاکستان میں اعلیٰ خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بھائی افواجِ پاکستان کے تینوں شعبوں‘ بری، بحری اور فضائی‘ سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کے ایک بھائی نے 1967ء کے ایک معرکے میں اور ایک بھائی نے 1971ء کی جنگ میں جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ یہ سبھی بھائی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل شمیم عالم خان، وائس ایڈمرل شمعون عالم خان، لیفٹیننٹ جنرل جاوید عالم خان، بریگیڈیئر ظاہر عالم خان، کرنل فیروز عالم خان، سکواڈرن لیڈر شعیب عالم خان، ونگ کمانڈر آفتاب عالم خان، فلائٹ آفیسر مشتاق عالم خان اور کیپٹن اعجاز عالم خان۔ بریگیڈیئر زیڈ اے خان کی کتابThe way it was میں لکھا وہ پیرا آج بھی حیران کر دیتا ہے کہ امریکہ کے ایک سینیٹر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کئی سال پہلے ہی کیسے پتا چل گیا تھا؟ واضح رہے کہ یہ واقعہ اگست 1965ء میں پیش آیا تھا‘ جبکہ پاک بھارت جنگ ایک ماہ بعد ستمبر میں لڑی گئی تھی اور اس جنگ کے بعد‘ 1968ء میں بھارت کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی 'را‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
گزشتہ روز ایک طرف سوات امن کمیٹی کے ایک ممبر پر خودکش حملہ ہوا اور دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں سرحد پار سے دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے تین جوان شہید ہوگئے۔آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس حملے میں افغان سرزمین استعمال کی گئی‘ جس کی افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے نے شدید مذمت کی اور افغان حکومت پر واضح کیا کہ ایسی کارروائیوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔چند دنوں کی خاموشی کے بعد وزیرستان سمیت سرحدی علاقوں میں ریاستی و دفاعی اداروں پر حملے اس قدر کیوں اور کیسے بڑھتے جا رہے ہیں؟ کوئی دن نہیں جاتا جب وطن کے بیٹوں کی قربانیوں سے بہتا ہوا خون ملکی سرحدوں کو رنگین نہیں کرتا۔ اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ پاکستان میں بیرونی قوتوں کا خفیہ کھیل ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا معاشی بازو مروڑا جا رہا ہے اور دوسری جانب کے پی اور بلوچستان میں پُرتشدد کارروائیوں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کی انتہائی قیمتی اور وافر معدنیات اور گوادر بندر گاہ ایسی چیزیں ہیں جو امریکہ سمیت کئی علاقائی ممالک کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہی ہیں۔ بلوچستان سے چین کی ہر قسم کی بے دخلی کے علاوہ گوادر میں امریکہ اپنی ایک نیول بیس قائم کرنے کی پلاننگ بھی کر چکا ہے کیونکہ اس طرح ایک طرف چین کو کارنر کیا جا سکے گا‘ جس کی نہ صرف بحری طاقت بلکہ تجارت بھی سکڑ کر رہ جائے گی اور دوسری طرف اس خطے میں امریکہ اپنے پنجے زیادہ مضبوطی سے گاڑ سکے گا۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ امریکی فوج کے ایک سینئر جنرل جب افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے تو افغان مہاجرین کو بلوچستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ فارن پالیسی میگزین کی ایک رپورٹ میں تو واضح طور پر اور کھل کر بتا یا گیا تھا کہ اسرائیل، بھارت اور امریکہ سمیت کئی ممالک بلوچستان اور کراچی میںمختلف کالعدم تنظیموں کیلئے ریکروٹمنٹ اور فنڈز مہیا کر رہے ہیں۔ یقینا ہماری عسکری قیا دت اس سے بے خبر اور غافل نہیں ہے مگر سیاسی قیادت کدھر ہے؟ ہمیں یہ ادراک ہو نا چاہیے کہ سی پیک اور گوادر کے آپریشنل ہونے کے چند برسوں بعد بلوچستان اپنے جغرافیائی اور سیاسی محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ آج پاکستان کی سیاسی جنگ کی وجہ بھی یہی ہے جس کیلئے مغرب اور چین کے حامی اور مخالفین آمنے سامنے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھتے رہیے‘ جس طرف مغرب زدہ طبقے اور نام نہاد این جی اوز کا جھکائو ہو گا‘ سمجھ آ جائے گا کہ وہ بلاک کون سا ہو گا۔