"MABC" (space) message & send to 7575

وہ ایک جلسہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری کے 36 دنوں بعد پندرہ ستمبر کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم جاری کیا‘ جس پر انہیں اُسی شام اڈیالہ جیل سے رہائی مل گئی۔ اسلام آباد پولیس نے اشتعال انگیز بیانات پر مبنی تقریر اور اداروں کے خلاف بیانات پر شہباز گل کو 9 اگست کو بنی گالا کے علاقے سے گرفتار کیا تھا اور ان پر غداری کی دفعات کے تحت تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اب چونکہ مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اس لیے اس پر کسی بھی قسم کا تبصرہ یا رائے منا سب نہیں، نہ ہی شہباز گل کے متنازع بیان کے حوالے سے کوئی بات کی جائے گی؛ البتہ چند واقعاتی حقائق پر ایک سرسری سی نظر ضرور ڈال لیتے ہیں۔ ضمانت منظور کیے جانے سے قبل عدالت میں پیشی کے موقع پر شہباز گل کے وکیل نے یہ معاملہ عدالت کے سامنے رکھا کہ ''شہباز گل پر کاٹی گئی ایف آئی آر میں 11 دفعات شامل کی گئی ہیں‘ جن کا مقصد یہی دکھائی دیتا ہے کہ کوئی تو شہباز گل پر لگ جائے۔11 دفعات ایسے لگائی گئیں جیسے کوئی ڈاکٹر مریض کو سات گولیاں دیدے کہ کوئی تو اثر کرے گی‘‘۔ اب اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ ''شہباز گل کا بیان غیر ذمہ دارانہ تھا، پارٹی ترجمان اور ماہرِ تعلیم ہونے کے دعویدار سے ایسے بیان کی امید نہیں تھی، دفاعی اداروں کی جانب سے مقدمے میں کوئی شکایت نہیں کی گئی، ریاستی ادارے کا نظم و ضبط اتنا کمزور نہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کے لاپروا بیان سے متاثر ہو جائے‘‘۔ یاد رہے کہ اسی کیس کے حوالے سے ایک بیان پر عمران خان پر توہینِ عدالت اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، توہینِ عدالت کا مقدمہ ابھی زیرِ سماعت ہے؛ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے دہشت گردی کی دفعات خارج کرتے ہوئے کیس سیشن کورٹ کو منتقل کر دیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دورانِ سماعت پراسیکیوٹر سے کہا کہ اگر آپ تقاریر پر ایسے پرچے درج کرائیں گے تو ایک فلڈ گیٹ کھل جائے گا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ان دفعات میں سے ایک دفعہ بھی نہیں لگتی، دہشت گردی کے مقدمے کے لیے کچھ بنیادی عناصر ضروری ہیں، عمران خان کے خلاف مقدمے میں وہ تمام عناصر موجود نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر بابراعوان نے اپنے آرٹیکل میں بتایا کہ صرف اسلام آباد کے تھانوں میں عمران خان کے خلاف اب تک سترہ مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں دہشت گردی اور بغاوت کی ایف آئی آرز بھی شامل ہیں۔ بات جب چل ہی پڑی ہے تو یاد لائے دیتے ہیں کہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں جب 25 اکتوبر 2020ء کو ایوب سٹیڈیم کوئٹہ میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا تھا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بنیاد بنا کر کیے جانے والے اس جلسے میں اس و قت کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کے خلاف بھی تند و تیز تقاریر کی گئی تھیں۔ اس جلسے میں اویس نورانی نے جو کہا‘ سو کہا، باقیوں نے کس قسم کی تقاریر کی تھیں‘ اس کا اندازہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اس جلسے کے حوالے سے پوچھے گئے اس سوال سے ہو جاتا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کا جلسہ تھا یا بی جے پی کا؟
پی ڈی ایم کے جلسوں کے سلسلے کا ایک مشہور جلسہ گوجرانوالہ میں بھی ہوا تھا جس میں میاں نواز شریف نے لندن سے وڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے عجیب و غریب باتیں کی تھیں۔ ہمارا فوکس اس وقت کوئٹہ کا جلسہ ہے جس میں لگ بھگ سبھی رہنمائوں نے الٹی سیدھی تقاریر کی تھیں۔ ان تقریروں میں جو کچھ کہا گیا‘ وہ سب چینلز نے ریکارڈ کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایم کے لیڈران کی یہ تقاریر جب چاہیں یوٹیوب پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔ اس جلسے سے قبل مریم نواز صاحبہ کو خصوصی طور پر 'مسنگ پرسنز‘ کے لواحقین سے ملوایا گیا تھا اور اس سلسلے میں جو لوگ اکٹھے کیے گئے تھے‘ ان میں سے ایک نے ایک ایسے شخص کی تصویر کا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جو کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیے گئے حملے کے حوالے سے مطلوب تھا اور جسے متحدہ عرب امارات حکومت کی مدد سے دبئی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ مریم نواز صاحبہ اس 'مسنگ پرسن‘ کی تصویر اٹھانے والی خواتین کے پاس چلی گئیں اور پھر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے جو الفاظ استعمال کیے‘ انہی کی ایک جھلک آج کل کے بیانات میں نظر آتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی سیاسی مخالف پر تنقید کرتے ہوئے ہر حد عبور کر جاتا ہے اور ذاتیات پر اتر آتا ہے تو اس کا عام فہم زبان میں یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ اس کے پاس سیاسی طور پر کہنے کو اب کچھ نہیں رہا۔ جلسہ گاہ کی کوریج کیلئے آئے ہوئے غیر ملکی میڈیا کے سامنے جن منتخب کردہ افراد کو 'مسنگ پرسنز‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا‘ ان میں دو تصاویر ان لوگوں کی تھیں جن کی ایک فراری کیمپ میں اپنے اسلحے کی نمائش کرنے کی وڈیوز بھی سامنے آ چکی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھیں۔ ان کے چہرے کسی نقاب کے پیچھے نہیں چھپے ہوئے تھے بلکہ صاف پہچانے جا رہے تھے اور یہ افراد جدید ترین اسلحہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے بڑے فخر اور سٹائل سے وڈیو بنا رہے تھے۔ بادش بخیر مسلم لیگ نواز کی نائب صدر کی جانب سے ایک ایسے ہی 'مسنگ پرسن‘ کی تصویر ٹویٹر پر 'ڈسپلے پکچر‘ کے طور پر بھی لگائی گئی تھی مگر پھر جب اس پر شدید تنقید ہوئی تو اسے ہٹا دیا گیا۔
کوئٹہ کے اس جلسے میں پی ڈی ایم نے جمہوریت اور بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ایسی درد ناک داستانیں بیان کیں کہ سننے والے دل تھام کر رہ گئے۔ حاضرین اور سامعین پر چونکہ ان تقریروں سے ایک سحر سا طاری ہو چکا تھا اس لیے جلسہ گاہ کے اندر اور سٹیج کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد میں سے کسی نے یہ ہمت نہیں دکھائی کہ پوچھ سکتا تھا کہ حضور! بلوچستان میں سب سے پہلا گورنر راج جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت لگایا تھا جب بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل وزیراعلیٰ تھے۔ بلوچستان میں دوسرا گورنر راج میاں نواز شریف نے اس وقت لگایا جب بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل کے فرزند سردار اختر مینگل کی حکومت تھی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی سٹیج پر کھڑے ہو کر‘ انہی لوگوں کے درمیان بیٹھ کر سردار اختر مینگل جمہوریت کا درس دیتے ہوئے اداروں پر تنقید کے نشتر چلا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان کے حقوق اور اس کی محرومیوں کا دکھ اس طرح بیان کیا جس سے لگ رہا تھا کہ ان کے دل میں اور پارٹی کے منشور میں بلوچ عوام کیلئے نجانے کس قدر درد بھرا ہوا ہے اور اگر پیپلز پارٹی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان میں جمہوریت اور بلوچستان کے حقوق کی کوئی بات کرنے والا کوئی نہیں ملے گا لیکن کیا کریں کہ ماضی، تاریخ اور سچ ہمیشہ پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کا تیسرا اور اب تک کا بلوچستان کا آخری گورنر راج تیرہ اکتوبر 2013ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں اس وقت آیا جب آصف علی زرداری صدرِ پاکستان اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے اور بلوچستان میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت تھی۔
جیسے پہلے بتایا گیا کہ مذکورہ جلسہ مہنگائی کے نام پر ہوا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سات‘ آٹھ ماہ قبل پی ڈی ایم کی جماعتیں مہنگائی کے نام پر لانگ مارچ اور جلسے کر رہی تھیں۔ آج ملک میں جس قسم کی مہنگائی ہے‘ اس کا اب پوری پی ڈی ایم کو اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا ۔شاید ان کی وہ حس ہی ختم ہو چکی ہے جو غریب افراد کو درپیش مسائل کا احساس کر سکے۔ اسلام آباد کی حدود تک محدود اس حکومت میں چالیس سے زائد پارلیمانی سیکرٹری اور 70 کے لگ بھگ وزرا، مشیر اور معاونین ہیں۔ اب اکثر پوچھا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف ووٹ دینے والا کوئی رہ تو نہیں گیا جسے وزارت یا معاون کا عہدہ نہیں ملا؟ جس وقت کوئٹہ کے جلسے میں پی ٹی آئی حکومت کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس وقت شاید انہیں یاد نہیں رہا تھا کہ اس وقت عمران خان کو پہلی دفعہ حکومت میں آئے ابھی دو سال ہی ہوئے تھے لیکن تقریریں کرنے والے کم از کم چار دہائیوں سے بلوچستان کے وسائل اور بجٹ کو استعمال کر رہے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں