سابق وزیر خزانہ اورمسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما اسحاق ڈار کو پانچ برس بعد لندن سے واپسی پر اس طرح کلین چٹ ملی کہ سر زمین پاکستان پر قدم رکھتے ہی انہوں نے سب سے پہلے سینیٹر کا حلف اٹھایا اور پھر ملک کے وزیر خزانہ کا چارج بھی سنبھال لیا۔ وہ چوتھی بار ملک کے وزیر خزانہ بنے ہیں۔ میڈیا میں ہمارے کچھ دوستوں اور معاشیات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر ملک کی معاشی حالت جس نہج پر پہنچ چکی تھی لگتا تھا کہ دو‘ تین ماہ بعد لینے کے دینے پڑ جائیں گے، ان حالات میں کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا‘ اس لیے ملکی معیشت اور اس کی بقا کیلئے کچھ نرمی برتتے ہوئے اسحاق ڈار کو واپس بلا کر خزانے اور ملکی امور کی کنجی انہیں تھمائی گئی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی مجبوری اور نظریۂ ضرورت کے تحت وہ سب کچھ بھی کرنا پڑتا ہے جس کیلئے ذہن اور دل اجازت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے یہ نکتہ اپنے اندر طاقتور معنی رکھتا ہے اور یہ توضیح ماننا پڑے گی کہ اس طرح اگر قوم یا ملک کا بھلا ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے تو پرانے معاملات کو بھلا کر آگے بڑھنے میں کیا حرج ہے۔ خدا کرے کہ اسحاق ڈار کی صورت میں جس مسیحا کو ملک کے خزانے اور قسمت کی کنجیاں تھمائی گئی ہیں‘ وہی ملک و قوم کیلئے سکون اور خوشیوں بھری خبریں لے آئے۔
مسلم لیگ نواز کے اراکین اور کچھ میڈیا پرسنز نے بڑے فخر سے بتانا شروع کر دیا ہے کہ ڈار صاحب ابھی لندن سے وزیراعظم شہباز شریف کے جہاز میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ڈالر پانچ روپے نیچے گر گیا اور جب انہوں نے وزارت کا حلف اٹھایا تو ڈالر مزید پانچ روپے گر گیا۔ ڈار صاحب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ابھی تو ابتدا ہے‘ بس دیکھتے جایئے کیا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لا کر دم لوں گا۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ ڈار صاحب کی آمد کا خوف اتنا ہے کہ تیل‘ جو عمران خان حکومت کے آخری دنوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں 116 ڈالر فی بیرل کا تھا اور پھر 125 ڈالر فی بیرل تک چلا گیا‘ ڈار صاحب کے آنے کا سنتے ہی کانپتا ہانپتا ہوا 85 ڈالر فی بیرل پر کھڑا منمنا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈار صاحب نے اپنی وزارت کے تیسرے دن ہی تیل کی قیمتوں میں بارہ روپے فی لٹر کی کمی کر دی۔ 15 اکتوبر کو مزید دس روپے فی لٹر کمی کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے۔ ایسے ہی تو اب میدانِ سیاست میں یہ نعرے نہیں گونج رہے کہ ''یہ ڈار کی آمد ہے کہ ڈالر کانپ رہا ہے‘‘۔ اگر ڈالر گر رہا ہو‘ بجلی اور پٹرول کے نرخ کم ہو رہے ہوں تو پھر پرانے مقدمات کی بات کرنا جہالت اور سیاست کی سنگدلی کے سوا اور کچھ نہیں۔
لوگ مگر اس پر بھی خوش نہیں ہیں۔ بہت سے افراد اسحاق ڈار کی آمد پر ناک بھوں چڑھا کر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اگر 116 ڈالرفی بیرل میں تیل خرید کر عوام کو 150 روپے فی لٹر میں دے رہے تھے تو پھر اسحاق ڈار کو بھی چاہئے کہ اب جبکہ پٹرول عالمی مارکیٹ سے 85 ڈالر فی بیرل میں خریدا جا رہا ہے تو عوام کو پٹرول 105 روپے فی لٹر دینے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگی رہنما جناب مفتاح اسماعیل بھی اسحاق ڈار کے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرنا چاہیے تھا، اگر آئی ایم ایف نے معاہدہ منسوخ کر دیا تو ملک کو جن معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ ان کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا مگر ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ مجھے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنا آتا ہے اور اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے، میں آئی ایم ایف سے 25 سال سے ڈیل کر رہا ہوں۔ مفتاح اسماعیل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مفتاح صاحب ہمارے ساتھی ہیں، ان کی اپنی سوچ ہے اور میری اپنی، میں سمجھتا ہوں کہ سیلاب کے دوران عوام پر پٹرول کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے، مفتاح اسماعیل سمیت سب کو کہتا ہوں کچھ نہیں ہوگا، وزیراعظم کو بھی کہہ دیا ہے آئی ایم ایف جانے اور میں جانوں، ان سے ڈیل کرنا میرا کام ہے۔ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے تو عوام کی تکالیف کو نہیں بھولنا چاہئے۔ خدا کرے کہ ملک کو ترقی کے راستوں پر گامزن کرنے کی جو ذمہ داری ڈار صاحب کو سونپی گئی ہے‘ وہ اس میں کامیاب ہوں۔
ہمارے گوگا دانشور ملکی حالات سے نجانے کیوں ہر وقت ناخوش ہی رہتے ہیں۔ وہ ہمیں دنیا اور پاکستان کا فرق بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ کینیڈا کی طرف دیکھو! ہم نے عرض کی کہ اگر تو کینیڈا کی نیشنیلٹی مل رہی ہو تو پھر اس طرف دیکھنے کا فائدہ بھی ہے‘ ورنہ ہمیں کیا ضرورت ہے اپنی نظریں تھکانے کی لیکن وہ کینیڈا کا قصہ سنانے پر بضد رہے۔ بتانے لگے کہ میڈیکل کی دنیا میں ڈاکٹر محمد شامجی (Mohammed Shamji) کا نام ان کے تجربے اور قابلیت کی وجہ سے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر شامجی نیورو سرجری کی دنیا کے ایک قابل اعتماد سرجن تھے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دنیا کے چند ٹاپ کلاس نیورو سرجنز میں سے ایک تھے۔ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا مریض چند ہفتوں بعد اپنے پائوں پر چل کر ان کے ہسپتال سے نکلتے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ تقدیر کے کام نرالے ہوتے ہیں‘ کبھی کبھی اچھے بھلے لوگوں سے کسی لمحے میں وہ جرم سرزد ہو جاتا ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ حتیٰ کہ ان کے مداحین نے بھی نہیں سوچا ہوتا کہ وہ روشن ستارہ جسے وہ رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں ایک دن اس کے نام اور شہرت کے ساتھ ایسی بدنامی اور ایسا جرم وابستہ ہو جائے گا کہ وہ لوگوں میں نفرت کی علامت بن جائے گا۔ ہوا کچھ یوں کہ ڈاکٹر شامجی کی فزیشن بیوی ڈاکٹر ایلانا فرک (Elana Fric) نے اپنے شوہر کے رویے سے تنگ آ کر طلاق کا کیس دائر کر رکھا تھا۔ البتہ اپنے تین بچوں سمیت وہ ڈاکٹر شامجی کے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔ ایک دن کسی مسئلے پر دونوں کی بحث و تکرار شروع ہوئی جو اس قدر بڑھ گئی کہ شدید غصے میں ڈاکٹر شامجی کے ہاتھوں اپنی بیوی کا قتل ہو گیا۔ جیسے ہی شامجی کے ہاتھوں اپنی فزیشن بیوی کے قتل کی اطلاع پولیس تک پہنچی تو چند ہی لمحوں بعد میڈیا کے ذریعے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ طب کی دنیا سے متعلقہ لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ شامجی ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ اس کی باقاعدہ تحقیقات کی گئیں کہ شامجی نے یہ کام خود کیا یا ڈرگز کے زیرِ اثر ان سے کرایا گیا۔ جب ہر طرح سے تسلی ہو گئی تو پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ ڈاکٹر شامجی نے یہ سب کیوں اور کیسے کر دیا؟ کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی چھوٹے جرم کو بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا کجا یہ کہ بات قتل جیسے بھیانک جرم تک پہنچ جائے اور وہ بھی اپنی بیوی کا قتل!
ڈاکٹر شامجی کا مقدمہ جب عدالت پہنچا تو اس وقت کئی مریض ان کے زیر علاج تھے اور یہ بات جیوری کے علم میں بھی تھی کہ ڈاکٹر شامجی کے مریضوں کی طبی حالت اس قدر خراب ہے کہ اگر ان کا فوری آپریٹ نہ کیا گیا تو یہ لوگ اپنی جان سے جا سکتے ہیں۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ان مریضوں‘ جو اس وقت ڈاکٹر شامجی کے زیرِ علاج تھے‘ اور ان کے لواحقین میں سے کچھ نے کورٹ سے باقاعدہ استدعا کی کہ ڈاکٹر شامجی کا فیصلہ اس وقت تک کیلئے ملتوی کر دیا جائے جب تک ان کے زیرِ علاج تمام مریض صحت یاب نہیں ہو جاتے لیکن عدالت نے قانون اور انصاف کو مقدم رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ نہ صرف وقت پر سنایا اور اپنی بیوی کے قتل کا مجرم ثابت ہو جانے پر ڈاکٹر شامجی کو چودہ سال قید کی سزا سنائی بلکہ یہ تک کہا کہ کسی بھی مشورے یا پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت ڈاکٹر شامجی کو پیرول پر رہائی نہیں ملے گی اور ساتھ ہی عدالت نے ان کی ڈاکٹر اور میڈیکل افسر کے طور پر رجسٹریشن بھی منسوخ کر دی۔ آزاد اور انصاف پسند سوسائٹی میں ہر جرم اور ہر مجرم کے خلاف انصاف ہو کر رہتا ہے چاہے ایمل کانسی کی طرح اسے ہزاروں کلومیٹر دور سے ہی کیوں نہ اٹھا کر لانا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں قانون کی کتابوں اور درسگاہوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ ''جہاں انصاف نہیں ہوتا اسے جنگل کہتے ہیں اور جنگلوں میں انسانوں کی نہیں بلکہ زور آور جانوروں کی حکومت ہوتی ہے‘‘۔