"MABC" (space) message & send to 7575

ذمہ داری بھی قبول کریں

ابھی تو ہیتھرو سے اسلام آباد آمد کے لیے جہاز میں بیٹھ کر سیٹ بیلٹ بھی نہیں باندھی تھی کہ ڈالر کے ہوش حواس اس طرح اڑنا شروع ہو گئے کہ وہ چکرا کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر لڑھک رہا تھا۔ دوست یار قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے زور و شورسے کہہ رہے تھے کہ ڈار صاحب جب پاکستان پہنچیں گے تو ڈالر ایسے نیچے گرے گا کہ ملکی معیشت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ سب ان کے قائد میاں نواز شریف کی ہدایات اور تجربے کی وجہ سے ممکن ہوا۔ دیکھا جائے تو ان کے اس فقرے میں بہت کچھ پنہاں ہے اور مسلم لیگ نواز کے وہ لیڈران‘ جن کا تعلق لندن کیمپ سے ہے‘ اپنی پریس کانفرنسز اور ٹویٹس میں مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں اور شہباز شریف کے طرزِ حکومت پر اب تک نجانے کتنی بار عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ مفتاح اسماعیل کا نام لے کر شہباز شریف حکومت کی اہلیت پر انگلیاں اٹھاتے رہے اور اب پنجاب اور کے پی میں عمران خان کی جانب سے کلین سویپ کی گونج نے خطرے کی گھنٹی کو اس زور سے بجانا شروع کر دیا ہے کہ عابد شیر علی اور محسن رانجھا نے '' مے ڈے‘‘ کے نقارے بجاتے ہوئے اپنے ٹویٹس میں کہا ہے کہ ''اب نواز شریف کے سوا پارٹی کو اور کوئی نہیں بچا سکتا‘‘۔ گویا کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر انہوں نے شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی اپنی پارٹی کی حکومت پر ہی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پارٹی کی دھڑے بندی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے اور کیا شیخ رشید کی پیش گوئی کے پورے ہونے کا وقت آ گیا ہے؟
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف جب نااہل ہوئے تو شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم اور اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ اپنی نااہلی کے بعد رابطہ عوام مہم کے سلسلے میں کوٹ مومن اور چکوال کے بعد ہری پور کے جلسوں میں میاں نواز شریف اپنے سامنے بیٹھے مسلم لیگ نواز کے کارکنوں سے یہی کہتے رہے کہ ''جب سے مجھے وزیراعظم ہائوس سے نکالا گیا ہے‘ نہ صرف ملکی ترقی کی رفتار پہلے سے کم ہو گئی ہے بلکہ مہنگائی بھی بڑھنے لگی ہے‘شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کی حیثیت سے دن رات کام تو کر رہے ہیں اور میں انہیں تھوڑی سی رعایت دیتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ اپنی طرف سے وہ پوری محنت کر رہے ہیں لیکن میں زیادہ مطمئن نہیں ہوں‘ اگر پہلے کی طرح نواز شریف ہی آپ کا وزیراعظم ہوتا تو ملکی ترقی کی رفتار کئی گنا زیادہ ہو نی تھی۔ آپ کی تکلیفوں کی ایک ہی وجہ ہے کہ آپ کے منتخب کردہ وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا ہے اور میرے وزیراعظم نہ ہونے سے عوام کی تکالیف بڑھنا شروع ہو گئی ہیں‘‘۔ میاں صاحب کی ان تقاریر پر اس وقت بھی کئی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھائے گئے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پارٹی کے قائد اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے اسے مسلم لیگ کی پوشیدہ پالیسی قرار دے کر واضح کیا کہ یہ پرانی پارٹی پالیسی ہے۔ 2008-13ء پیپلز پارٹی کے دور میں جس وقت ایک بھائی جمہور اور سویلین بالادستی کا نعرہ بلند کر رہا تھا‘ اسی وقت دوسرا بھائی رات کے اندھیرے میں ایک اہم اور سینئر موسٹ پارٹی رہنما (جو اس وقت مکمل طور پر سائیڈ لائن کیا جا چکا ہے) کے ہمراہ طاقتور حلقوں سے ملاقاتیں کر رہا تھا اور ظاہری بات ہے کہ یہ ملاقاتیں مکمل ہم آہنگی اور اشیرباد سے ہو رہی تھیں۔
شریف برادران کی سیاست کا ایک طرف یہ رخ دیکھئے تو دوسری طرف اپنے دورِ حکومت میں نواز شریف اور شہباز شریف اٹھتے‘ بیٹھتے چلتے‘ پھرتے کسی سڑک‘ نالے یا پروجیکٹ کا افتتاح کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے ایک ہی فقرہ کہتے تھے کہ عمران خان نے کے پی میں کون سا تیر مار لیا ہے؟ جب بھی پنجاب یا وفاق کی گورننس سے متعلق کوئی سوال ہوتا تو اس کے جواب میں یہی فقرہ دہرایا جاتا کہ ہمارے کام تو آپ کے سامنے ہیں‘ اُن سے پوچھیں جن کی کے پی میں حکومت ہے۔ چند ایک مواقع پر پارٹی قائدین نے یہاں تک بھی کہا کہ انہیں کے پی کے عوام کے ساتھ ہمدردی ہے۔ آج یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ محترم نواز شریف صاحب کل کو اپنے ہی مقرر کردہ شاہد خاقان عباسی اور اسحاق ڈار کی حکومت سے ناخوش تھے، آج اپنے برادرِ خورد شہباز شریف کی چھ ماہ کی کارکردگی پر مطمئن نہیں۔ طلال چودھری، عابد شیر علی، محسن رانجھا، حنیف عباسی اور جاوید لطیف جیسے پارٹی رہنما کھل کر شہباز حکومت اور اس کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر تنقید کر رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے پارٹی تباہ ہو رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں‘ ایسے میں کیا عوام کو یہ جاننے کا حق نہیں کہ پارٹی کی پالیسی کیا ہے؟ پارٹی قائد کس برتے پر یہ کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ اگر وہ آج بھی وزیراعظم ہوتے تو دودھ کی نہریں بہا دیتے، مہنگائی کو کنٹرول کرتے اور عوام کو ریلیف دیتے۔ یہ بات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ریکارڈ پر ہے کہ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم تھے تو وہ ہر موقع پر ایک ہی بات کہا کرتے تھے کہ وہ تو صرف دستخط کرنے یا فیتہ کاٹنے کے لیے ہیں‘ اصلی وزیراعظم تو میاں نواز شریف ہیں اور ان کی اجازت اور حکم کے بغیر میں کسی فائل کی منظوری نہیں دیتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک پرنسپل سیکرٹری مجھے نہیں بتا دیتے کہ میاں صاحب نے فلاں فائل کو منظور کر لیا ہے‘ میں اس پر دستخط نہیں کرتا۔ وزیراعظم ہائوس میں اسلام آباد کے صحافیوں کے ایک گروپ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ جب تک نواز شریف صاحب خود قلم ان کے ہاتھ میں نہیں پکڑائیں گے‘ تب تک وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کسی ایڈوائس پر دستخط نہیں کریں گے۔
جب ایسی حکومت ہو جو ہر چیز میں اپنی پارٹی کے قائد کی رائے کو مقدم رکھتی ہو تو پھر یہ کہنا کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ اگر اب بھی نواز شریف وزیراعظم ہوتے تو دودھ کی نہریں بہا دیتے۔ حالیہ آڈیو لیکس میں سے ایک میں سنا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم نہیں کرنی بلکہ بڑھانی ہیں۔ غالباً یہی موقع تھا جب ''گڈ کاپ‘ بیڈ کاپ‘‘ والا کھیل کھیلتے ہوئے قوم کو بتایا گیا کہ میاں صاحب قیمتیں بڑھانے کے حق میں نہیں تھے اور وہ اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے۔ اس ٹویٹ سے قوم پر یہ امر مزید واضح کیا گیا کہ میاں نواز شریف صاحب نہ صرف سرکاری اجلاسوں میں بذریعہ وڈیو لنک شرکت کرتے ہیں بلکہ ہر اہم فیصلے میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ آج میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ میرے نہ ہونے سے ملکی ترقی کی رفتار کم ہو گئی ہے‘ تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ قریب دو ہفتے قبل مفتاح اسماعیل صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ ان کی حکومت نواز شریف کی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں میاں صاحب کی اجازت کے بغیر بڑھائی گئیں؟ کیا وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے میڈیا کے سامنے مفتاح اسماعیل نے خود یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ میاں نواز شریف کی مرضی سے انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم کی۔ میاں نواز شریف اپنی برطرفی کے بعد جب جلسوں میں شکوہ کرتے تھے کہ ان کے اپنے نامزد کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عبا سی کام تو کر رہے ہیں لیکن وہ بات کہاں جو میرے وزیراعظم ہائوس میں بیٹھنے سے تھی تو عمران خان میڈیا بریفنگز میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ دیکھ لیجئے صرف ہاتھ عباسی صاحب کے ہیں اور دماغ اور قلم میاں نواز شریف کا ہونے کے باوجود وہ اپنے کام سے مطمئن نہیں۔ میاں نواز شریف کو کوئی کیسے بتائے کہ حضور! پہلے بھی آپ وزیراعظم تھے‘ نااہلی اور برطرفی کے بعد بھی آپ ہی وزیراعظم رہے۔ اِس وقت بھی لندن کی پروازیں اور کابینہ کے لندن میں منعقد ہونے والے اجلاس گواہیاں دے رہے ہیں کہ ایک ایک فیصلہ آپ کے حکم سے ہی کیا جا رہا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے‘ اب تو یہ معاملہ بھی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے نو اراکین کے استعفوں کا آخری فیصلہ کس نے کیا تھا۔ کس نے حساب کتاب لگانے کے بعد مخصوص نشستوں کے استعفوں کی منظوری کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان فیصلوں کے نتائج بھگتے جا چکے‘ اب ان کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں