"MABC" (space) message & send to 7575

بھوک اور دودھ کا گلاس

جب بھوک کی شدت اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے اپنے چاروں طرف نظریں دوڑائیں کہ شاید کہیں کسی کونے کھدرے میں گرا ہوا کوئی سوکھا‘ پرانا روٹی کا ٹکڑا ہی مل جائے لیکن اس کمرے میں سوائے گرد کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے محسوس ہوا کہ شاید دو دن سے کچھ نہ کھانے کی وجہ سے بھوک اور نقاہت کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھی پوری طرح نہیں کھل رہیں اور سانسوں کی طرح وہ بھی بند ہوئی جا رہی ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے کچھ بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ کمرے کے ایک کونے سے رینگتے ہوئے آگے بڑھا اور چاروں طرف فرش کو ٹٹولنے لگا کہ شاید کوئی ایسی شے اس کے ہاتھوں سے مس ہو جائے جسے وہ پیٹ میں ڈال سکے لیکن وہاں سوائے گرد کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔
سات سالہ فوسٹر‘ جس کے ماں باپ اس کی پیدائش کے چند سال بعد ایک حادثے کا شکار ہو کر اس بھری دنیا میں اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے‘ زندگی کی سختیوں کا تنہا مقابلہ کر رہا تھا۔ اسے چونکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں تھا اس لیے وہ اپنے چھوٹے سے قصبے کے ایک سٹور میں کام کرتا تھا لیکن سٹور کا مالک ایک دن اپنا سارا سامان ایک بڑے ٹرالر میں ڈال کر کسی بڑے شہر کی طرف روانہ ہو گیا اور گزشتہ دس دن سے وہ اس خالی سٹور میں پڑا تھا کیونکہ اس کے پاس رہنے کیلئے دوسری کوئی جگہ بھی نہیں تھی۔ پچھلے دو دن سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بسکٹ کا ایک ٹکڑا تک اس کے پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ بے بسی اور ناامیدی اس کی آنکھوں میں سمٹ آئی تھی اور ایک لمحہ آیا کہ وہ بے اختیار رو دیا۔ جلد ہی اسے احساس ہوا کہ بھوک اور نقاہت سے اس کے جسم اور سانسوں کا رشتہ کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی موت سے لڑنے کے لیے اس نے اس کمرے نما سٹور سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
فوسٹر نے اپنے پائوں پر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے باہر نکلا۔ اس وقت شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آبادی کی طرف رینگ رہا تھا۔ پھر اپنے جسم میں موجود تمام تر توانائی اکٹھی کر کے وہ گھٹنوں کے بل اٹھا اور ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں بعد ایک خوبصورت اور باوقار خاتون دروازہ کھولے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ بھوک سے نڈھال خوددار بچے کی زبان کھانے کے لیے کچھ مانگنے سے پہلے ہی لڑکھڑا گئی اور کچھ مانگنے کے بجائے اس کی خودداری اس کے آڑے آ گئی۔ اس کی زبان سے بمشکل ایک ہلکا سا لفظ نکلا: پا...نی۔ دروازے میں کھڑی خاتون نے اس کی حالت دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر اندر چلی گئی۔ چند لمحوں بعد جب وہ باہر آئی تو اس نے ہاتھ میں گرم دودھ کا ایک گلاس تھا۔ اس خاتون نے فوسٹر کو گرم گرم دودھ پیش کیا جسے وہ باوقار طریقے سے ہلکے ہلکے گھونٹ بھر کے پینے لگا۔ شدید طلب کے باوجود شاید وہ غٹاغٹ کے بجائے آہستہ سے دودھ پی رہا تھا۔ شاید وہ چاہتا تھا کہ یہ دودھ کا گلاس کبھی ختم نہ ہو۔ وہ آہستگی سے دودھ پیتا رہا۔ جب دودھ سے بھرا گلاس ختم ہوا اور جیسے ہی اس مہربان عورت نے اپنا گلاس واپس لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس بچے نے جلدی سے اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر اسے احتراماً چوما۔ فوسٹر کو نئی زندگی دینے والی اس خاتون کے ہاتھ پر بچے کی آ نکھوں سے احسان مندی کے جذبے سے مغلوب ہو کر خودبخود بہنے والے تشکر کے چند قطرے ثبت ہو کر رہ گئے۔ وہ خاتون ہلکا سا مسکرائی اور گلاس لے کر گھر کے اندر چلی گئی۔ بچہ چند لمحے اس بند دروازے اور اس پر لگی نام کی تختی کو دیکھتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ واپس سٹور کی طرف چل پڑا۔ اگلے ہی روز وہ اس چھوٹے سے قصبے کو خیرباد کہہ کر اپنا تھیلا کندھے پر لٹکائے ایک بڑے شہر کی طرف چل دیا لیکن جاتے ہوئے جب وہ دوبارہ اس گھر کے سامنے سے گزرا تو دروازے پر لگی نیم پلیٹ کے آگے کچھ دیر سر جھکائے کھڑا رہا۔
ہسپتال میں داخل پینسٹھ سالہ خاتون لگ بھگ ایک ماہ سے داخل تھی لیکن ابھی تک اس کی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ مانے تانے مشہور و معروف ڈاکٹرز، سرجن اور ریسرچ سکالرز حیران تھے کہ آخر یہ کون سی بیماری ہے کہ نہ تو مرض کی تشخیص ہو پا رہی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی دوائی کام کر رہی ہے۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کیے جا رہے تھے لیکن مرض کی تشخیص تھی کہ ہونے کو ہی نہیں آ رہی تھی اور پھر ایسا لمحہ بھی آیا کہ سب نے مایوسی سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس مریضہ کی زندگی کی آخری گھڑیاں گننے کا اعلان کر دیا۔ اس عورت کو اس پُراسرار مرض کی تکلیف اس قدر زیادہ تھی کہ ہسپتال کے جس وارڈ میں وہ داخل تھی‘ وہاں کے دیگر مریض اس کی حالت دیکھ کر کانپ اٹھتے تھے۔ پھر طویل بے ہوشی کے انجکشن اس کا مقدر بننے لگے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے آخری حر بے کے طور پر اس مریضہ کی فائل ملک کے ایک مشہور اور انتہائی قابل ڈاکٹر کے پاس اس درخواست کے ساتھ بھیجی کہ اگر سب لوگ اس مرض کی تشخیص میں ناکام ہو گئے تو مستقبل میں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کوئی نیا وبائی مرض ہو۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ملک کا ایک نامور ڈاکٹر بھی اس عجیب و غریب بیماری کی کیس ہسٹری سے واقف ہو جائے تاکہ سال کے آخر میں جب میڈیکل کانفرنس ہو تو تمام متعلقہ افراد کی ''فائنڈنگز‘‘ وزارتِ صحت کو بھیجی جائیں تاکہ ایسی عجیب وغریب بیماری کے علاج کے حوالے سے مزید ریسرچ کی جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ اس مرض کی وجہ کیا ہے اور یہ خاتون کیونکر اس کا شکار ہوئی؟
جب یہ فائل ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچی تو اپنی بے حد مصروفیات کی وجہ سے انہوں نے اسے بریف کرنے کے لیے اپنے نائب کومارک کر دیا لیکن فائل اس کے حوالے کرنے سے پہلے سرسری طور پر ایک نظر ڈالنے کیلئے جب فائل کا پہلا صفحہ پلٹا تو وہ چونک گئے۔ پھر وہ اس فائل میں اس قدر منہمک ہو گئے کہ اپنی ہر میٹنگ، ہر اپائنٹمنٹ کینسل کر دی، وہ دنیا وما فیھا سے بے خبر فائل کا مطالعہ کرتے رہے۔ جب وہ گھر پہنچے تو ساری رات سو نہ سکے۔ اس فائل میں منسلک رپورٹیں اور ان کا ایک ایک لفظ ڈاکٹر صاحب کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ اگلے دن انہوں نے متعلقہ ہسپتال والوں کو اطلاع دی کہ اس مریضہ کا علاج وہ خود اپنی نگرانی میں کریں گے۔ ہسپتال کی انتظامیہ اس فیصلے پر قدرے حیران ہوئی اور خوشگوار حیرت سے دوچار۔ پھر اس مریضہ کا علاج شروع ہو گیا، دن‘ ہفتے گزرنے لگے اور چھ ماہ بعد وہ مریضہ مکمل تندرست ہو گئی؛ تاہم ابھی اسے ہسپتال میں ہی رکھا گیا۔ میڈیکل کی دنیا میں اس صحت یابی سے جیسے ایک بھونچال سا آ گیا۔ میڈیکل کے تمام جریدوں نے اسے ایک اہم سنگ میل گردانتے ہوئے اس پر فیچرز لکھے۔ مریضہ صحت یاب ہو گئی تھی لیکن مسئلہ اب یہ تھا کہ وہ لاکھوں ڈالر کا بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ ہسپتال انتظامیہ نے اس مریضہ کو ڈسچارج کرنے سے قبل جب بل کو 'کائونٹر سائن‘ کے لیے ڈاکٹر فوسٹر کے آگے رکھا تو انہوں نے اس پر ایک جملہ لکھا ''کیلی کو پھولوں کا ایک بہترین گلدستہ میرے اس نوٹ کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اس بل کی رقم 'گرم دودھ کے اس گلاس‘ کے سامنے کچھ بھی نہیں جس کا قرض ادا کرنا اب بھی میرے بس میں نہیں‘‘۔ کیلی کو جب یہ گلدستہ اور اس کے ساتھ ایک نوٹ ملا تو اسے یکلخت چالیس سال پہلے دودھ کا گلاس پینے کے بعد اپنے ہاتھوں پر سات سالہ بچے کا دیا گیا بوسہ اور تشکر بھرے آنسو یاد آ گئے۔ کیلی اور ڈاکٹر فوسٹر کی یہ کہانی نیکی اور احسان کی کبھی نہ ختم ہونے والی وہ زنجیر ہے جس کی ہر کڑی دوسری میں پیوست ہے اور جس کا سرا بار بار گھوم کر واپس آتا رہتا ہے۔
''اور جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس (وقت) سے پیشتر خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو (اُس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کر لیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہو جاتا‘‘۔ (المنافقون: 10)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں