پچاس‘ ساٹھ سال قبل اپنے چھوٹے سے دیہاتی قصبے میں گھومتے ہوئے مرغی اور اس کے ننھے منے چوزوں کو اس کے گردچکر کاٹتے دیکھا تو بے ساختہ لپک کر ایک چوزے کو اٹھا لیا۔ غیر متوقع طور پر مرغی مجھ پر ایک بھوکی شیرنی کی مانند اس طرح جھپٹی کہ اس کی چونچ میری ناک کے اندر گھس گئی اور بے تحاشا خون بہنے لگا۔ میرا قد اگرچہ ٹھیک ٹھاک تھا مگر میری ناک تک پہنچنا مرغی کیلئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ ناک سے نکلتے خون کو دیکھ کر میں گھبرا گیا‘ چوزہ میرے ہاتھ سے گرپڑا جسے وہ اپنے پروں میں دبا کر ایسے تیزی سے بھاگی جیسے بجلی لپکتی ہے۔ مرغی کی یہ ہمت اور جذبہ مجھے آج بھی اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے پر اکساتا ہے۔ جب کبھی میں اپنے دوستوں کو بچپن کا یہ واقعہ سناتا ہوں تو کوئی اسے مامتا کی تڑپ تو کوئی اسے اپنی چھینی ہوئی متاع واپس لینے کے جذبے کا نام دیتا ہے۔ یہ واقعہ جب میں نے اپنے ایک دوست کو سنایا تو میرے دوست نے اس چھوٹے سے بظاہر بے ضرر نظر آنے والے پرندے کا اسی نوعیت کا ایک واقعہ سنا کر مجھے اور بھی حیران کر دیا۔ وہ بتاتا ہے کہ اپنے گائوں میں گھر کے باہر وہ گلی میں کھڑا تھا جہاں ایک مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ پھر رہی تھی۔ اچانک کیا دیکھا کہ ایک چیل جھپٹا مار کر ایک چوزے کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ میرادوست کہتا ہے کہ وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے با وجود آج بھی اسے یقین نہیں آتا کہ کس طرح مرغی چند قدم چیل کی جانب دوڑی اور پھر چیل کے پیچھے گھر کی چھت کی بلندی تک بلند اڑنے لگی اور وہاں سے پھڑ پھڑاتی ہوئی دوبارہ نیچے آ گری۔عام حالات میں کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرے گا مگر کیا آپ اس وقت‘ اس تکلیف اور کرب کو اپنے تصور میں لا سکتے ہیں جس نے مرغی کو چیل کے پیچھے مکان کی چھت تک اونچا اڑایا؟ کیا یہ قوت انسانوں میں پیدا نہیں ہو سکتی؟ یقینا ہو سکتی ہے اور جن انسانوں میں اپنے حق کی حفاظت کا یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے وہ کبھی کسی کے محتاج نہیں رہتے۔ ایسے ہی افراد اور ایسی ہی سوچ کی حامل قومیں معاشرے میں سر بلند اور با وقار زندگی گزارتی ہیں۔
ملک کا سیاسی درجہ حرارت ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان لانگ مارچ کے لیے تیار رہنے اور آئندہ چند دنوں میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سمیت لیگی و پی ڈی ایم کے رہنما پوری قوت سے لانگ مارچ کے شرکا کو کچلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اگر کسی نے اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کی کوشش کی تو وہ ہو گا‘ جو پچیس مئی کو بھی نہیں ہوا تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پچیس مئی کو کتنے لوگ اسلام آباد پہنچے تھے بلکہ یہ چیز زیادہ اہم ہے کہ جتنے بھی لوگ پہنچے‘ وہ پہنچے کس طرح؟ پنجاب میں کون کون سا حربہ استعمال نہیں کیا گیا؟ اسلام آباد پہنچنے والے افراد کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟اگر پی ڈی ایم کے وزیروں کی فوج ظفر موج یہ سمجھتی ہے کہ ریاستی طاقت سے لوگوں کو روکا جا سکتا ہے تو میرے نزدیک یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ اگر کل کو پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود لوگوں کو نہیں روکا جا سکا تو اب لوگوں کو کیسے اسلام آباد تک آنے سے روکا جائے گا؟ حکومت کے ترجمانوں‘ وزیروں‘ مشیروں کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان کے تند و تیز بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے بیانات دیتے ہیں کہ چند ہزار لوگوں کو‘ جو اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر ملک میں عام انتخابات کی تاریخ لینے کیلئے آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں‘ جب چاہیں اٹھا کر پھینک دیں گے‘ جب بڑے فخر سے ٹی وی کیمروں کے سامنے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا جا رہا ہو کہ ''مجھے تو حکومت نے روک رکھا ہے ورنہ میں ایک منٹ میں ان سب دھرنے والوں کو اٹھا کر پھینک دوں‘‘ تو ایسے بیانات دوسری طرف کے لوگوں کو بھی بھڑکا دیتے ہیں۔ بڑھک اور بھڑک کا آپس میں کافی گہرا تعلق ہے جو ہمارے ذمہ داران سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اسلام آباد کی اتحادی حکومت کی جانب سے ڈرون آنسو گیس کی دھمکیاں دینے والے صاحبان کے لیے اگر مرغی جیسی کمزور جان کے واقعہ میں کوئی سبق نہیں تو انہیں ایک اور تاریخی واقعہ یاد دلا دیتا ہوں۔ 1980ء کی دہائی میں لندن کے مشہورمقام ٹریفالگر سکوائر (Trafalgar square) پر ایک طرف چند لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں نیلسن منڈیلا کی رہائی کیلئے لکھے گئے پلے کارڈ زاٹھائے چپ چاپ بڑی استقامت سے کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ بعد میں تو لندن کا ٹریفالگر سکوائر اس لحاظ سے اجڑ کر رہ گیا کہ کبھی چاروں طرف سینکڑوں کی تعداد میں سیاحوں کا ہجوم کبوتروں کے ساتھ تصویریں بناتے اور انہیں خوراک دیتے ہوئے دکھائی دیتا تھا اور پھر وہ وقت آ گیا جب وہاں عوامی ہجوم دیکھنے کو نہیں ملتا تھا کیونکہ جنگلی کبوتروں کی وہاں اس قدر بہتات ہو گئی تھی کہ ارد گرد کا علا قہ بد بو سے بھر گیا تھا اور لوگوں کا وہاں کھڑا رہنا تو دور کی بات‘ گزرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اب تو وہاں پر کونسل کا ایک دفتر اور ایک بہت اچھی لائبریری بھی بن چکی ہے۔ کئی دہائیوں قبل کے منا ظر کو دیکھنے والے اور تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ شروع کے چند ماہ میں تو صرف ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی وہاں آ کر کھڑے ہوتے تھے اور چپ چاپ نیلسن منڈیلا کی گرفتاری پر احتجاج کرتے تھے، لیکن بعد میں پانچ چھ مزید نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں ان کے ساتھ آ کر مل گئے اور پھر یہ تعداد بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ یہ احتجاج لندن سے نکل کر دنیا بھر کے ہر اہم شہر کی اہم شاہراہ تک پہنچ گیا۔ خاموش احتجاج کرتے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر دنیا بھر سے آئے ہوئے بہت سے سیاح ان کی تصاویر لیتے۔ ان سے باتیں کرتے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی کھانے پینے کی اشیا انتہائی ادب سے ان کے قریب رکھ دیتے لیکن دوسری طرف بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو ان پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر آگے کی جانب بڑھ جاتے۔ وہ لوگ جوان نوجوانوں کو آتے جاتے کئی دنوں سے دیکھ رہے تھے‘ ان سے ایک انسیت سی محسوس کرنے لگے۔ ایسے ہی ایک لکھاری نے‘ جو انہیں ایک عرصے سے وہاں کھڑے ہو کر چپ چاپ احتجاج کرتا دیکھ رہا تھا‘ ایک دن ان کے پاس آیا اور پوچھا: آپ لوگ کب سے یہاں کھڑے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: پانچ برس سے بھی زیا دہ عرصہ ہو چکا ہے‘ ہم ہر روز یہاں کھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہیں۔ دوسرا سوال کیا گیا: مزید کب تک آپ لوگوں کا یہاں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟ ان نوجوانوں نے سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ''جب تک نیلسن منڈیلا رہا نہیں ہو جاتا‘‘۔ اس لکھاری نے ان سے کہا: پانچ سال آپ کو یہاں پُر امن احتجاج کرتے ہوئے گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک نیلسن منڈیلا رہا نہیں ہوا اور نہ ہی دور دور تک اس کی رہائی کا کوئی امکان نظر آتا ہے، کیا اب بھی آپ کو منڈیلا کی رہائی کی امید ہے؟ ایک لمبے قد کے نوجوان نے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر جواب دیا ''احتجاج حق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے‘ کامیابی کی ضمانت کی بنیاد پر نہیں‘‘۔
قریب35 سال قبل نیلسن منڈیلا کی رہائی کیلئے ٹریفالگر سکوائر لندن میں کھڑے نوجوانوں کی ایک چھوٹی اور انتہائی معمولی سی تعداد اپنے حق کیلئے کھڑی ہوئی اور پھر دنیا بھر کے ہر ذی شعور کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہاں تک کہ دنیا بھر کی سڑکیں نیلسن منڈیلا کی رہائی کیلئے انسانی سروں کا سمندر بن گئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ٹریفالگر سکوائر پر کھڑے ہو کر نیلسن منڈیلا کی رہائی کی تحریک کا آغاز کرنے والے صرف دو انسان تھے لیکن ان دونوجوانوں کے صبر،استقامت اور اپنے نظریے پر ان کا یقینِ محکم دیکھ کر لوگ آتے گئے اور ان کا پیغام لے کر دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے۔ اس وقت ہمارے حکمران عمران خان کے جلسوں میں انسانی سر گننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں‘ سو وہ ان افراد کے دلوں کا حال کس طرح جان سکتے ہیں جو ابھی تک ٹیلی وژن کی سکرینوں کے سامنے بیٹھے اس سارے منظر نامے کو نہایت خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔