"MABC" (space) message & send to 7575

مثبت نتائج

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کسی صورت نئے عام انتخابات کے جلد انعقاد کے اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں لیکن ستم ظریفی کہیے یا مضحکہ خیزی‘ کہ ان کے اس مطالبے کی سب سے زیادہ مخالفت اُن حضرات کی طرف سے کی جا رہی ہے جو 2018ء کے عام انتخابات کے اگلے روز سے ہی اس کے نتائج کو ماننے سے انکاری تھے اور نیا الیکشن چاہتے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں ناکام ہونے والی یا کم سیٹوں پر کامیاب ہونے والی جماعتوں کی قیادت کی کوئی بھی پریس کانفرنس‘ کسی بھی عوامی اجتماع میں کیا جانے والا خطاب یا کوئی معمول کا بیان اُٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ آپ کو ایک ہی مطالبہ کرتے نظر آئیں گے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان کیا جائے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد کی ان کی کوئی میڈیا بریفنگ اٹھا کر دیکھ لیں وہ آپ کو یہی باتیں دہراتے نظر آئیں گے کہ یہ الیکشن جعلی تھے‘ یہ اسمبلی جعلی ہے اور یہ کہ ہم اس جعلی اسمبلی کو نہیں مانتے۔ ان کی طرف سے بار بار‘ تکرار کے ساتھ الیکشن کے روز آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کے حوالے دیے جاتے رہے۔ اور اب ان کی سوچ اور اخلاقی معیار کا اندازہ کیجئے کہ جس اسمبلی کو وہ جعلی کہتے نہیں تھکتے تھے اب اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ اپنے خلاف دائر مقدمات ختم کروا چکے ہیں‘ اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ نیب کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔ اب اُس اسمبلی اور اُن انتخابات کی شان اور افادیت پر ایسی ایسی بیان بازی کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔
آر ٹی ایس بیٹھنے کا سچ جاننا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ اس کے نتیجے میں کس کو کتنا فائدہ اور کس کو کتنا نقصان ہوا‘ عوام یہ جاننے کا بھی بھرپور حق رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اپنے اگلے کسی مضمون میں آر ٹی ایس کی حقیقت مکمل ثبوتوں کے ساتھ اس ملک کے عوام تک پہنچانے کی کوشش کروں گا تاکہ وطن عزیز پاکستان کے ہر ووٹر اور باشعور شخص تک وہ کہانی پہنچ جائے کہ آر ٹی ایس کا ڈرامہ کس لیے کھیلا گیا تھا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ قاتل ہی سب سے زیا دہ مقتول کے ورثاء کا ہمدرد بن کر آنسو بہاتا ہے‘ آر ٹی ایس کے بیٹھنے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
مجھے یہاں صدر ضیاء الحق بہت یاد آ رہے ہیں۔ اُن سے جب بھی کسی بھی پلیٹ فارم پر پوچھا جاتا کہ ملک میں انتخابات کب ہوں گے تو وہ جواب میں یہی کہتے تھے کہ جب تک مجھے انتخابات کے مثبت نتائج کا یقین نہیں ہو جاتا‘ انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا۔صدر ضیاء الحق کی سیاست اور طرزِ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ ان کی چند غلطیوں کو موضوع بحث اور شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اب اُن کے اس بیان کی منطق کافی حد تک سمجھ آ رہی ہے۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ تمام اندرونی اور بیرونی قوتیں جو عمران خان کی مخالف ہیں‘ وہ سمجھ چکی ہیں کہ اگر آج ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہوئے تو پاکستانی عوام اپنے ووٹ اور اپنی رائے کا آزادانہ حق استعمال کرتے ہوئے عمران خان کی مخالف قوتوں کو مسترد کر دیں گے۔ شاید اسی لیے جمہوریت کی سربلندی کی دعویدار سیاسی جماعتیں اب نئے انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں۔جولائی اور اکتوبر میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی ان جماعتوں کے ہوش اڑائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں آج پڑھا لکھا‘ باشعور متوسط اور نچلا طبقہ کسی قسم کی مذہبی منافرت اور انتہا پسندی سے کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے اور ان کی سوچ ایک لبرل اور اچھے مسلمان کی پہچان بن رہی ہے۔انہیں اپنے مذہب اور خاتم النبیین محمد مصطفیﷺسے عقیدت اور محبت پر فخرہے‘ وہ کسی قسم کے فروعی معاملات کی دلدل میں پائوں رکھنے کے بجائے ایک اللہ اور آخری نبیؐ اور ان کی کتاب قران پاک کے ایک ایک لفظ کی حرمت کو اپنے ایمان کا سب سے اولین درجہ بنائے ہوئے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی یہ بہت بڑی اکثریت کسی مذہبی سیاسی جماعت کے کنٹرول میں نہیں‘ ان کے رویوں کی پیروکار نہیں بلکہ ایک سچے پاکستانی اور اچھے مسلمان کی طرح اپنے وطن عزیز پاکستان کی بہتری چاہتی ہے۔ اس متوسط اور نچلے طبقے کی بہت بڑی اکثریت اس وقت عمران خان کے گرد جمع ہو چکی ہے۔ جس طرح میاں نواز شریف کے کاروباری اور تجارتی حلقوں کے سپورٹرز کی بہت بڑی اکثریت جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کے لیے تو باہر نہیں نکلتی لیکن انتخابات کے وقت اپنے ووٹ نواز شریف کے امیدواروں کے حق میں ہی کاسٹ کرتی ہے ‘ اُسی طرح ایک بہت بڑی اکثریت ایسی ہے جو عمران خان کے جلسوں میں تو نہیں آتی لیکن سوشل میڈیا پر ان کے حق میں اپنا حصہ ضرور ڈالتی ہے‘ اور اب پہلی دفعہ یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عام انتخابات کے دوران یہ خاموش اکثریت نہ چاہتے ہوئے بھی سخت گرمیوں میں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر عمران خان کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کر رہی ہے۔
1976ء کے دھاندلی زدہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ایک بار پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگنے کے بعد‘ قومی اتحاد کی نشستوں اور عہدوں کے لیے ہونے والی واضح سر پٹھول کے بعد عوامی اور سرکاری سروے یہ بتا رہے تھے کہ اگر حسب وعدہ نوے دن یا ا س کے بعد بھی عام انتخابات کرا دیے گئے تو پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات سب سے زیا دہ ہوں گے۔ اس لیے بار بار کے مطالبات اور بیرونی میڈیا کے دبائو اور سوالات کا صدر ضیاء الحق کی طرف سے یہی جواب دیا جاتا تھا کہ جب تک انہیں مثبت نتائج کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی‘ انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ آج تمام عمران خان مخالف جماعتوں کو یقین ہو چکا ہے کہ اگر اس وقت انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو اس کے نتائج ان کی خواہشات کے مطا بق مثبت نہیں مل سکتے۔
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پی ڈی ایم جیسی گیارہ‘ بارہ اور تیرہ جماعتوں کا یہ اتحاد صرف ایک شخص کے سامنے زمین بوس ہو چکا ہے؟ 2018ء کے عام انتخابات میں اُن نشستوں پر جہاں سے پی ڈی ایم میںشامل جماعتوں کے امیدواروں نے بھاری مارجن سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی تھی‘ ایسی تمام نشستوں کو الیکشن کمیشن کے ذریعے خالی کروا کر ضمنی انتخابات کا اعلان کرا دیا گیا‘ اس کے باوجود سامنے آنے والے نتائج نے پی ڈی ایم کو دھول چٹا دی ۔ مانسہرہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر اتحادی جماعتوں کی مشترکہ کاوش سے جب تحریک انصاف کا امیدوار ناکام ہوا تو مریم نواز صاحبہ نے عمران خان صاحب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اچھا ہوا کہ نہ ہی عمران خان اور نہ ہی تحریک انصاف کے کسی ادنیٰ سے لیڈر نے بھی پنجاب کی صوبائی نشستوں اور ملک بھر میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں نواز لیگ اور پی ڈی ایم کی عبرتناک شکست پر سخت الفاظ استعمال کیے۔ کرم ایجنسی سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پی ڈی ایم کی دگنے مارجن سے شکست نے سب کو پیغام دے دیا ہے کہ اس ملک کے عوام کس کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں۔ کیا ان نتائج کے باوجود مطلوبہ مثبت نتائج کے حصول کے لیے ملک کو ایک بار پھر تباہی اور بربادی کے عمیق گڑھے میں پھینکنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں