"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت میں ہیومن رائٹس

جنیوا میں یونیورسل پریوڈِک ریویو (Universal Periodic Review) کے 41ویں اجلاس میں انسانی اور مذہبی حقوق کی چار سالہ رپورٹ پیش ہونے سے قبل ہی بھارت کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے پیش ہونے سے قبل ہی بھارت گھٹیا قسم کی پلاننگ میں مشغول ہو گیا ہے تاکہ ایک بار پھر حقائق سے متصادم رپورٹ پیش کر کے دنیا بھر کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔ ہیومن رائٹس کی پامالی پر تیار کی گئی رپورٹ پر غور کرنے والے ممالک کی کمیٹی اور اس کے اراکین پر بھارت ہر طریقے سے اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے تاکہ اس رپورٹ کو اپنے حق میں موڑا جا سکے۔ واضح رہے کہ ''UPR‘‘ کا اجلاس سات نومبر سے جنیوا میں شروع ہو چکا ہے اور 18نومبر تک جاری رہے گا۔ بھارت میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ دس نومبر کو پیش کی جائے گی اور اس کیلئے بھارت کی جانب سے نیپال، نیدر لینڈ اور سوڈان کے ورکنگ گروپ کو ہر طریقے سے رام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
ویسے تو انسانی حقوق کی تذلیل اور پامالی کے حوالے بھارت کی ایک طویل سیاہ تاریخ ہے لیکن اگر صرف گزشتہ چند برسوں کا مختصر ریکارڈ سامنے رکھیں تو لگتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نقاب چہرے پر چڑھائے ہوئے انتہاپسندانہ سوچ کی حامل بھارتی ریاست اس حد تک تعصب زدہ ہے کہ ایک مخصوص ہندو طبقے کے علاوہ کسی دوسرے کو انسان اور قابل احترام سمجھنا کوئی بہت بڑا پاپ سمجھتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے حلیف انتہا پسند ہندو گروہوں اور نیم عسکری تنظیموں پر مشتمل نریندر مودی حکومت کی دہشت گردی اور کشمیریوں سمیت بھارت کی تمام اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اگر کسی عالمی تنظیم یا مقامی شخص نے آواز اٹھاتے ہوئے دنیا کو متوجہ کرنے کی ہمت کی تو اسے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے یا تو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور طرح طرح کی پابندیاں لگا دی گئیں اور اگر ممکن ہو پایا تو ایسے سبھی افراد اور تنظیموں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں ہیومن رائٹس واچ جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کے الفاظ تھے ''مذہبی اقلیتوں پر روز بروز بڑھنے والے حملوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں یا سول سوسائٹی کی جانب سے اٹھنے والی ہر آواز کو جبر اور تشدد سے خاموش کرا دیا گیا‘‘۔
2020ء میں ہیومن رائٹس واچ نے 652 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں 102 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تھا جس کے بعد ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند کر کے کشمیر کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے، کشمیر کے طلبہ، شہریوں، وکلا، صحافیوں، تاجروں اور بچوں کو بغیر کسی الزام اور ثبوت کے کئی کئی دن قید و بند میں رکھا جاتا ہے۔ اگست 2019ء میں کشمیر کی عالمی اور اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازع حقیقت پر حملہ کرتے ہوئے خطے کی حیثیت جبر اور پارلیمنٹ میں اپنی اکثریتی آمریت کا بلڈوزر چلاتے ہوئے اس طرح تبدیل کر دی گئی کہ ایک مقبوضہ ریا ست کو اپنے مقاصد کے لیے دو حصوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک میں انسانی حقوق بارے ہر چار برس بعد ایک جائزہ رپورٹ تیار کرتی ہے جسے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان تمام ریاستوں سے پوچھا جا سکے کہ انہوں نے اپنے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی بہتری کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں۔ کیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم اور خواتین سمیت نوجوانوں پر بھارتی فوج کی بربریت‘ انہیں بغیر کسی ثبوت کے گھروں سے اٹھا کر کسی نا معلوم مقام پر لے جانے اور پھر چند دنوں بعد دہشت گردی کا لیبل لگا کر گولیوں سے بھون دینے جیسے فاشسٹ اقدامات اور پھر شہدا کی لاشوں کو کسی تیز ندی‘ نالے تو کبھی کسی جنگل میں پھینک دینے جیسے غیر انسانی سلوک پر بھارت کو اس حالیہ اجلاس میں ذمہ دار ٹھہرا کر اس پر پابندیاں لگائی جائیں گی؟حد تو یہ ہے کہ کئی کشمیری افراد‘ جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے‘ جو بھارتی قابض افواج کی حراست میں شہید کیے گئے‘ کے جسدِ خاکی تک ان کے لواحقین کو واپس نہیں کیے گئے اور ظالم بھارتی افواج کی جانب سے مذہبی رسومات کی تکمیل کے بغیر ہی ان کی تدفین نامعلوم مقام پر کر دی گئی۔ دنیا جب جب انسانی حقوق کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کا ذکر کرے گی‘ مقبوضہ کشمیر میں نامعلوم اور گمنام شہدا کے قبرستان اس کا منہ چراتے رہیں گے۔ 1988ء سے 2012ء تک سوا لاکھ سے زائد کشمیری بھارت کی غلامی سے نجات کی جنگ میں ارضِ کشمیر کے چپے چپے پر اپنا لہو بہا چکے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ اور دنیا میں انسانی حقوق کے ترجمانوں سمیت ورکنگ گروپس کے اراکین کو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی تمام ریاستوں میں آزادانہ کام کرنے اور وہاں کی تمام سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی تنظیموں اور ان کے اراکین سے ملنے کی اجازت دی جائے تو پتا چل سکے گا کہ بھارت میں انسانی حقوق کا حقیقی معیار کیا ہے۔ اگر آزادانہ طور پر تحقیقات کی جائیں تو علم ہو گا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال دنیا بھر میں پست ترین سمجھے جانے والے درجے سے بھی نیچے ہے۔
کیا اقوام متحدہ اور اس کے تمام رکن ممالک جو انسانی حقوق سے متعلق اس اکتالیسویں اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں‘ بھارت سے یہ پوچھنے کی ہمت کر سکیں گے کہ اس نے UPR کی 2018ء اور 2019ء کی رپورٹس میں پیش کی جانے والی سفارشات پر کس حد تک عمل کیا؟ کیا بھارت نے AFSPA، UAPAاور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے بدنام زمانہ اور ڈراکونین قوانین کو منسوخ کیا؟ مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے سمیت اس کے حصے بخرے کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو معطل کرنے بارے کوئی فیصلہ یا حکم دیا؟ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کو پاور ایکٹ 1990ء کے تحت دیے جانے والے لامحدود اختیارات اور جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (JK PSA) کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور اظہارِ رائے کی آزادی نہیں دی جاتی‘ اس وقت تک ہیومن رائٹس کے نام پر بلائے جانے والے اجلاس وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ اجلاس مقبوضہ کشمیر جیسے علاقوں میں ریاستی جبر و ظلم اور بربریت کا خاتمہ نہیں کرا سکتے، متعلقہ ملک، اداروں اور افراد پر پابندی نہیں لگا سکتے تو اس طرح کے اجلاسوں کو بھارت جیسی تمام ریاستوں کواگلے اجلاس تک کے لیے ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دینے کے سوا اور کیا نام دیا جائے؟ نئی دہلی میں دنیا بھر کے سفارتکار موجود ہیں‘ کیا ان سے نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں روا رکھی جانے والی بربریت کو روکنے میں اب تک کیا کیا ہے؟ حالانکہ وہ سب گواہی دیتے ہیں کہ اقلیتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے خطرناک ملکوں کی فہرست میں بھارت کا نام سرفہرست لیا جانا چاہیے۔ یقینا وہ دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے بھی آگاہ ہوں گے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آج بھی دنیا میں غالباً بھارت ہی ایسا ملک ہے کہ جہاں ریاستی ظلم پر آواز اٹھانے والوں کے گھر تک مسمار کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر کا ہر دوسرا ہسپتال، سکول، کالج اور سرکاری ادارہ بھارتی فوج کے قبضے میں جا چکا ہے‘ اور عوام کو ان بنیادی سہولتوں سے استفادہ کرنے سے محروم کیا جا چکا ہے مگر سب چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ چند ماہ قبل لندن میں ایک نجی لا فرم سٹوک وائٹ انٹرنیشنل نے میٹرو پولیٹن پولیس کو درخواست دی تھی کہ انڈیا کی فوج کے سربراہ سمیت دیگر فوجی اور نیم فوجی حکام کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگی جرائم، ریپ، عدالت سے ماورا قتل اور تشدد کے دیگر واقعات کی وجہ سے برطانوی قانون جینوا کنونشنز ایکٹ 1957ء کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
2021ء کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ ایک طرف‘ جس نے بھارت کو ننگا کر کے رکھ دیا، امریکی ادارےUSICRF نے بھارت میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنی رپورٹ میں امریکی انتظامیہ کو جو سفارشات پیش کی تھیں‘ کیا ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد ہوا؟ اس رپورٹ میں بھارت کو انسانی اور مذہبی حقوق کی پامالی کے حوالے سے دنیا بھر کیلئے ''گہری تشویش‘‘ والا ملک قرار دیا گیا تھا۔ کیا کسی ادارے نے بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار سے متعلق تیار کی گئی اس ہوشربا رپورٹ کی روشنی میں کوئی ایکشن لیا؟ کیا ذمہ داران کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا آغاز ہوا؟ امریکی کانگرس جب بھارت کو مسلسل تین برس تک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دے چکی ہے تو کیا اس کے بعد امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور تجارتی و دفاعی اداروں کو بھارت کو نوازنے اور اسے ہلہ شیری دینے کا لائسنس دینا چاہئے؟ کیا وجہ ہے کہ مسلسل تین برس تک امریکی کانگرس بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر واویلا کرتی آ رہی ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کانگرس اور ہیومن رائٹس واچ کی کسی ایک بھی سفارش پر عملدرآمد کرنے سے انکاری کیوں ہے؟ کیا اس کے بعد جب بائیڈن انتظامیہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے اور اس کے خلاف کارروائی یا پابندیوں کی سفارش کرے تو اس کا کوئی اخلاقی جواز رہ جاتا ہے؟
انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کا رویہ یہ ہے کہ اس کی وزارتِ خارجہ نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سمیت UPR جیسی تمام تنظیموں کی شائع کردہ رپورٹس اور منظور کردہ قراردادوں کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کسی بھی غیر ملکی ادارے کو بھارت کے شہریوں کے آئینی حقوق کے بارے میں لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں۔ کیا اس کے بعد بھی دنیا کو خاموش تماشائی بنے رہنا چاہیے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں