"MABC" (space) message & send to 7575

مودی کی آن‘ بان‘ شان گجرات کا موربی پل

بھارتی ریاست گجرات کے شہر موربی میں ہندوئوں کے مشہور ''چھٹھ تہوار‘‘ کا دن جیسے جیسے قریب آتا جا رہا تھا‘ بی جے پی اور آر ایس ایس سمیت انتہاپسند تنظیمیں دور دراز سے آنے والے ہندو یاتریوں کو لبھانے اور انہیں مودی جی کا خوبصورت ''ہندو توا‘‘ چہرہ دکھانے کیلئے بے تاب ہوئی جا رہی تھیں۔ چھٹھ تہوار کی آمد کے سلسلے اور ہندو رسومات کو ادا کرنے کے موقع کو بی جے پی کی پروموشن کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مچھو ندی پر بنائے گئے ایک قدیم معلق پل‘ جسے برسوں قبل بند کر دیا گیا‘ کی تزئین و آرائش اور مرمت کا کام خصوصی طور مہینوں پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا تاکہ تہوار سے پہلے اسے کھولا جا سکے اور اس سے سے گزرکر یاتری تہوار منانے کیلئے جائیں۔ اس پل کو دیوی‘ دیوتائوں کی تصاویر اور مودی جی کی ''پراتھنا‘‘ کے انداز میں بیٹھنے والے پوز والی بڑی بڑی تصویروں سے سجایا گیا۔ ایک سو پچاس سال قبل تعمیر کیے گئے اس پل کے کمزور حصوں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے دو کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ مہینوں جاری رہنے والی پل کی مرمت کے بعد اسے ابھی کھولا ہی گیا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے مقامی کارٹل کی کرپشن ڈیڑھ سو یاتریوں کی جان لے گئی۔ موربی‘ جو گجرات کے دارالحکومت احمد آباد سے تقریباً 300 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے‘ میں واقع اس قدیم اور تاریخی سسپینسن پل کی تعمیر نو کے بعد کیے گئے افتتاح کے بعد یاتری اس پر چڑھنا شروع ہوئے اور شام سات بجے کے قریب اچانک یہ پل درمیان میں سے ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور سینکڑوں یاتری پل ٹوٹنے سے مچھو ندی میں جا گرے جن میں سے 140 سے زیادہ ہلاک ہو گئے جبکہ دو سو کے قریب زخمی ہو گئے۔
سستی شہرت اور ذاتی پروجیکشن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو کسی پل بھی چین نہیں لینے دیتی۔ اگر بھارت کے ڈھائی سو کے قریب ٹی وی چینلز کے سامنے ایک دن کیلئے بیٹھ جائیں تو آپ کو دو چیزیں ضرور دیکھنے اور سننے کو ملیں گی۔ ایک‘ پاکستان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا اور دوسری‘ نریندر مودی کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کا منظر۔ جہاں بھی سیاست کو چند مافیاز اور مخصوص خاندان یرغمال بنا لیں‘ اس معاشرے میں ٹی وی پر یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نریندر مودی سرکار محض ٹی وی چینلوں کے ذریعے ہی مخالفین پر حملہ آور نہیں بلکہ گورنمنٹ سپانسرڈ ایسی فلمیں بھی بنائی جا رہی ہیں جن میں بہانے بہانے سے مخالفین کو ملک دشمن، بیرونی ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر کا آلہ کار اور غدار ثابت کیا جاتا ہے۔ مخالفین کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہمیں چلائی جاتی ہیں جبکہ مودی سرکار کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے ''رام راج‘‘ واپس آ گیا ہے۔
موربی کے اس جھولنے والے سسپینسن پل کی تعمیر قریب ایک سو پچاس برس قبل اس وقت ہوئی تھی جب بر صغیر پر برطانیہ کا راج تھا۔ مقامی افراد اس پل کا خالق ایک مقامی مہاراجہ کو قرار دیتے ہیں جس نے 1880ء میں یہ پل تعمیر کرایا۔ خستہ حالی کے سبب یہ پل مرمتی کاموں کے لیے گزشتہ سات ماہ سے بند پڑا تھا اور پھر تزئین و آرائش کے بعد 26 اکتوبر کو گجرات کے نئے سال کے تہوار ''چھٹھ‘‘ کے موقع پر اسے عوام کے لیے دوبارہ کھولا گیا۔ نریندر مودی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اس پل کی تعمیرِ نو اور تزئین و آرائش کو گجرات کی جنتا کیلئے مودی سرکار کا تحفہ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس پل کی اتنی اہمیت ہے کہ ریاستِ گجرات کے قابلِ دید مقامات کی فہرست میں اسے ٹاپ پر رکھا گیا ہے اور ٹورازم میں اس پل کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس پل پر چڑھنے کے لیے سرکار نے ٹکٹ بھی لگا رکھا ہے اور ٹکٹوں کی مد میں بھی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ پل کے کمزور حصوں کی تعمیرِ نو کے دوران اور اس کے افتتاح کے بعد بلند بانگ دعوے کیے جارہے تھے کہ گجرات کا یہ موربی پل اپنے منفرد اور لاجواب ٹیکنیکل ڈیزائن کے لحاظ سے مودی جی کا تحفہ بن کر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ بستا رہے گا۔گجرات سرکار کی ویب سائٹ پر اس پل کو ''تکنیکی عجوبہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جب اس پل کی تعمیرِ نو جا ری تھی تو اس وقت بھی بہت سے فنی ماہرین کہہ رہے تھے کہ اس پل کے ڈیزائن اور تعمیر میں اختیار کی جانے والی ٹیکنالوجی بتا رہی ہے کہ یہ زیا دہ دن چلنے والا نہیں مگر مرمت کرنے والی کمپنی نے اسے ''مودی کی آن، بان اور شان‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ آٹھ‘ دس برس تک اس پل کو کچھ نہیں ہو گا اور اگر پل کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا گیا تو آئندہ 15 برس تک کسی بھی قسم کی مرمت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ لیکن وہ تمام خدشات جو تعمیراتی ماہرین کی جانب سے ظاہر کیے جا رہے تھے‘ اس وقت درست ثابت ہو گئے جب افتتاح کے کچھ گھنٹوں بعد ہی یہ پل نہ صرف اچانک دھڑام سے زمین بوس ہو گیا بلکہ اپنے ساتھ چار سو سے زائد افراد کو بھی لے ڈوبا۔ ریاست گجرات کی پولیس کے مطابق موربی شہر میں واقع پل گرنے کے واقعے میں جتنے افراد ہلاک ہوئے ان میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے اور ان میں سے بعض بچوں کی عمر تو دو برس یا اس سے بھی کم تھی۔ پولیس نے اس حادثے میں 56 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی جن میں سے 40 بچوں کی عمر 12 برس سے بھی کم تھی۔ اس ایک پل پر ہی موقوف نہیں‘ گجرات اور بھارت کی کئی دیگر ریاستوں میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کو سرمایہ فراہم کرنے والی کنسٹرکشن کمپنیوں کے کارٹلز ہر قسم کے سرکاری تعمیراتی منصوبے پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھارت میں کانگرس بطور اپوزیشن انتہائی کمزور ہو چکی ہے‘ اسی لیے بی جے پی آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں ایک انتہا پسند ہندو توا آمریت طاری کیے ہوئے ہے۔ کسی بھی سرکاری اہلکار کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ مودی کے ان ''لاڈلوں‘‘ کو کسی بھی بات پر انکار کر سکے کیونکہ جیسے ہی پولیس یا کوئی انتظامی افسر بی جے پی اور ہندو توا تنظیموں کو من مانیوں سے منع کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے اسے غدار، ''پاکستانی‘‘، ماس کھانے والا اور گائو ماتا کا دشمن قرار دے کر اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔
جب موربی میں پل کی تعمیر نو جاری تھی تو سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں نے دہلی کے ''انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (IIT) کو اس کی تعمیر کی چند خامیوں سے آگاہ کیا جس پر کچھ لوگ اسے دیکھنے کیلئے آئے تو اس وقت ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر سری کرشنن نے اس کی تعمیرِ نو پر حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ''جب پل اور فلائی اوور بنانے کیلئے قابلِ اعتماد اور جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے تو اس پل کی تعمیرِ نو میں فرسودہ طریقے اور آئوٹ ڈیٹڈ مشینری کیوں استعمال کی جا رہی ہے؟‘‘ لیکن کسی نے بھی ان کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ پروفیسر سری کرشنن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انہیں اس پل کی تعمیرِ نو پر شدید تحفظات ہیں لیکن گجرات حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کسی بھی بات پر توجہ دینا تو دور کی بات‘ اسے سننا بھی پسند نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تعمیراتی کام تمام مروجہ اور تکنیکی اصول و ضوابط کے مطابق کیے جائیں تو حادثات رونما نہیں ہوتے۔ دوسری جانب اب یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ آر ایس ایس کے ملکیتی ''اوریوا گروپ‘‘ نامی جس کمپنی نے اس پل کی تعمیر کیلئے دو کروڑ سے زائد (دو لاکھ بیالیس ہزار ڈالر) وصول کیے‘ اس نے‘ دستیاب ریکارڈ کے مطابق‘ فنڈ میں سے صرف 12 لاکھ روپے ہی پل کی تعمیر پر خرچ کیے جبکہ باقی رقم مبینہ طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس کی مقامی قیادت کے ساتھ آپس میں بانٹ لی گئی۔ اب اگر دو لاکھ ڈالر والا کام گیارہ‘ بارہ ہزار ڈالر میں ہو گا تو نتیجہ تو وہی نکلنا تھا‘ جو نکلا؛ البتہ دکھ یہ ہے کہ اس کرپشن کے باعث لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد کی جان گئی جبکہ پونے دو سو افراد زخمی ہوئے۔ اِن سوالوں کے جوابات کون تلاش کرے گا کہ ''اوریوا گروپ‘‘ کا انرولمنٹ کب ہوا؟ اتنے اہم پروجیکٹ کی ڈیزائننگ اور پل کی نگرانی اور تعمیراتی میٹریل کی چیکنگ کی ذمہ داری کسے سونپی گئی؟ کیا تعمیراتی کمپنی کا سرکاری تعمیرات کا کوئی ریکارڈ ہے؟ دو کروڑ کا یہ ٹھیکہ کس نے دیا اور کس کس نے اپنا حصہ وصول کیا؟ اگر ان سوالات کا جواب نہیں ملتا تو اس صریح کرپشن کے باعث مودی کا ''Aura‘‘ مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں زیا دہ دیر تک چھپا نہیں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں