"MABC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت

گکھڑ منڈی میں عمران خان کی تقریر اور لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد کو دیکھنے کے بعد ہی سے خدشات لاحق ہونا شروع ہو گئے تھے۔ نجانے کیوں میری چھٹی حس مسلسل کسی خطرے کا اشارہ کر رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ جی ٹی روڈ کے اطراف میں واقع یہ شہر اور علاقے مسلم لیگ نواز کا مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے اور یہاں پی ٹی آئی کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ اپنے دورِ حکومت میں جب عمران خان نے ''بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبے کے تحت گوجرانوالہ اور نواح کے علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں درخت اور پودے لگوائے تو ان میں سے زیادہ تر پودے مقامی افراد کی جانب سے اکھاڑ دیے گئے۔ کئی لوگوں نے‘ جن میں ایک ایم پی اے بھی شامل تھے‘ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان یہاں ہزاروں‘ لاکھوں درخت لگا کر ان علاقوں کو ''جنگل‘‘ بنانا چاہتے ہیں اور یہ سازش وہ کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ گکھڑ منڈی میں عمران خان کی تقریر کا بیشتر حصہ ارشد شریف کے واقعے پر مشتمل تھا اور خان صاحب کافی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے جبکہ شرکاکی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔
اس وقت کہنے کو تو پنجاب میں تحریک انصاف اور چودھری پرویز الٰہی کی حکومت ہے لیکن اب ثابت ہو چکا ہے کہ یہ حکومت صرف ترقیاتی کاموں تک محدود ہے‘ باقی سارے کام کوئی اور دیکھ رہا ہے۔ اگر پنجاب میں واقعی تحریک انصاف کی حکومت ہوتی تو وہ علاقے‘ جہاں سے عمران خان کا لانگ مارچ گزرنے والا تھا‘ وہاں ایسے پولیس افسران کو اہم تعیناتیوں سے دور رکھا جاتا جنہیں مقامی ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اپنی مرضی سے تعینات کروا رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگ تو اپنی مرضی سے کسی ڈی پی او سے تھانے کے محرر کا تبادلہ نہیں کرا سکتے مگر ان علاقوں میں کسی بھی اہم پولیس یا انتظامی سیٹ پر کوئی شخص اس وقت تک تعینات نہیں ہو سکتا جب تک کہ مقامی سیاستدانوں کی اشیرباد حاصل نہ ہو جائے۔
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے وزیر آباد سے گزرنے سے ایک شام پہلے وزیر آباد کے ایک شادی ہال میں ضلع گوجرانوالہ کے کچھ افراد کا اکٹھ ہوتا ہے جس میں عمران خان کے خلاف نفرت انگیز زبان اور اشتعال دلانے والی تقریریں کی جاتی ہیں۔ اس تقریب کا کسی نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟ کئی پی ٹی آئی کے حامی‘ جو اس تقریب میں سن گن لینے کے لیے موجود تھے‘ انہوں نے پارٹی قیادت کو متنبہ بھی کیا مگر اس کے باوجود حفاظتی اقدامات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ خود خان صاحب یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں حملے سے ایک رات قبل ہی بتا دیا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے‘ اس کے باوجود سخت سکیورٹی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ شادی ہال میں جاری تقریب اشتعال انگیز تقریروں کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ مقامی پولیس اور مخبروں نے پنجاب حکومت کو اس کی اطلاع دی ہو۔ ڈی پی اوگجرات یا وزیر آباد کے ڈی ایس پی، مقامی تھانے اور تحصیل کے سکیورٹی آفس نے بھی ان اشتعال انگیز تقریروں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ میں تیس تیس سال تک حکمرانی کرنے والوں کی جڑیں کس قدر گہری اور مضبوط ہیں‘ اس کا اندازہ وزیر آباد کی تقریب کے بعد حافظ آباد میں وفاقی کابینہ کے اراکین کی موجودگی میں ایک دوسری تقریر کے مواد سے لگا یا جا سکتا ہے جہاں نہ صرف میڈیا کے نمائندے بلکہ پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ ان سب کی موجودگی اور وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق، عطا تارڑ اورسائرہ افضل تارڑ کے سامنے مسلم لیگ کا ایک مقامی لیڈر سرعام سابق وزیراعظم کو دھمکیاں دیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ اندازہ کریں کہ یہ تقریر ایسے وقت میں کی گئی جب عمران خان گولیاں لگنے سے زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ سب کے سامنے یہ تقریر کی جاتی ہے‘ وزرا تالیاں بجاتے ہیں‘ اسی تقریر کے دوران ایک شخص سٹیج پر آکر اشتعال انگیزی کرنے والے شخص کا منہ چوم کر اسے ہلہ شیری دیتا ہے اور سب ادارے سوئے رہتے ہیں۔ حافظ آباد کے جلسے میں کی جانے والی اس تقریر کا مقامی پولیس کی جانب سے فوری طور پر نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ سوشل میڈیا پر یہ تقریر‘ وزیر آبادکی تقریر کی طرح‘ وائرل ہو گئی اور چند گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ گئی۔ جب دنیا بھر میں یہ وڈیو وائرل ہو جاتی ہے تو پھر جا کر اس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں لیکن اس کا منہ چوم کر اسے شہ دینے والے شخص کا نام ایف آئی آر میں کہیں بھی موجود نہیں۔ پولیس کی جانب سے کارروائی کی بھی گئی تو بے دلی سے اور آدھی ادھوری۔ پنجا ب کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر براجمان کون سے افراد ہیں‘ جن کی ہمدردیاں تین دہائیوں تک پنجاب پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور کون سے افراد کی اس جماعت کے افراد کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں‘ یہ باتیں اب ہر کوئی جانتا ہے۔ انتظامیہ میں اس وقت کئی افسر کلیدی عہدوں پر فائز ہیں جو میاں صاحبان کی گڈ بک میں ٹاپ پر شامل تھے۔ اعتزاز احسن کی ایک میڈیا ٹاک کا یہ جملہ ہمیشہ سامنے رکھئے کہ عمران خان نے سسٹم کو نہیں بلکہ مافیاز کو للکار رکھا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی میاں برادران سے ٹکر لی‘ بالآخر اسے جھکتے ہی بنی خواہ وہ سجاد علی شاہ ہوں‘ جہانگیر کرامت ہوں یا پرویز مشرف۔ یہ محض عمران خان ہی ہے جو اب بھی پوری طرح سے ڈٹا ہوا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بھلے ان کی حکومت تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی مرہونِ منت ہے لیکن یہ حکومت مسلسل خطرات سے دوچار ہے کیونکہ خبریں گرم ہیں کہ نواز شریف صاحب نے اپنی پاکستان واپسی میں اس لیے تاخیر کر رکھی ہے کہ انہوں نے یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ ان کی آمد سے قبل پنجاب اسمبلی میں چودھری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرائی جائے۔ شنید ہے کہ حکمران اتحاد اس کی تیاری کر چکا ہے، بالفرض اگر پنجاب کے اراکین اسمبلی اس کام کیلئے میسر نہیں ہوتے تو پنجاب میں گور نر راج بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز ہی لندن میں وزیراعظم شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب اسی سال واپس آئیں گے۔ پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے مگر سکہ اب بھی نواز لیگ کا چلتا ہے۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، ننکانہ، اوکاڑہ، ملتان اور بہاولپور سے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ ان شہروں میں پولیس اور انتظامیہ اب بھی مکمل طور پر نواز لیگ کے تابع ہے۔ یہی حال ہمارے آبائی ضلع قصور کا ہے جہاں آج بھی نواز لیگ کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی مرضی چلتی ہے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ تھانوں کے محرر تک سیاسی رہنمائوں کی سفارش پر لگائے گئے اور ان اضلاع کے بیشتر ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز انہی سے ہدایات لیتے ہیں جن کی سفارش پر وہ تعینات ہوئے۔ مشیرداخلہ پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے قریبی تعلقات اپنی جگہ لیکن انہیں اب آگے بڑھ کر پنجاب میں تھانوں سمیت ضلعی انتظامیہ پر سے سیاسی قبضہ ختم کرانا ہو گا۔ یہی ان کے عہدے کا تقاضا ہے۔ سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی وہ رپورٹ مشیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجا ب کو اپنے سامنے رکھنا ہو گی کہ جب انہیں 145 پولیس انسپکٹرز کی فہرست دیتے ہوئے حکم دیا گیا کہ ان سب کو آج ہی ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دے دی جائے تو آئی جی پنجاب عباس خان جیسے دلیر اور ایماندار پولیس افسر نے ہر ریجنل پولیس افسر کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر ان پولیس انسپکٹرز کے نام بھجوائیں جو سنیارٹی میں پہلے سو نمبرز پر ہیں اور پھر سیاسی چہیتوں کی فہرست کو ایک جانب رکھتے ہوئے ترقی کے اصل حقدار سینئر انسپکٹرز کو ترقی دینے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈا سیل کی جانب سے عباس خان کے خلاف حالیہ دنوں میں ایک وڈیو وائرل کی گئی ہے جس میں ان پر لانگ مارچ میں افغانوں کو استعمال کرنے کا جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔ شاید یہ پروپیگنڈا کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ سابق آئی جی پنجاب عباس خان کا مارچ 2021ء میں کورونا کے سبب انتقال ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں