مارچ 2022ء اور اس سے قبل اگست 2021ء میں جب یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو فون کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ‘ شنید ہے کہ دوسری طرف اُسی دوران جوبائیڈن جن عرب حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب اور عرب امارات کے حکمرانوں کو فون کر رہے تھے لیکن وہ جوبائیڈن کا فون سننے کے خواہاں نہیں تھے۔ یہ خبر کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے در پردہ ترجمان وال سٹریٹ جرنل نے شائع کی ہے۔ جوبائیڈن کی خواہش تھی کہ روس یوکرین جنگ کی صورت حال کے پیش نظر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے اِن عرب ممالک پر دباؤ ڈالا جائے لیکن سعودی عرب کے سخت انکار نے جوبائیڈن اور ڈیمو کریٹس کو اس حد تک سیخ پا کر دیا کہ وہ شاہی فیملی کو دھمکیاں دینے پر اُتر آئے۔ امریکہ کے اس غلط رویے کے بعد سعودی عرب کی روشن خیال قیادت یہ نتیجہ اخذ کر چکی ہے کہ امریکی کبھی بھی اُس کے دوست نہیں بن سکتے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے مابین کئی دہائیوں سے انتہائی مضبوط تعلقات استوار ہیں لیکن اب ان کبھی نہ کمزور ہونے والے تعلقات میں پڑنے والی دراڑیں ہو سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست کا کوئی نیا رخ متعین کر دیں۔ آخر کچھ تو وجہ ہو گی کہ امریکہ کے سخت دباؤ کے باوجود سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کا اپنا اعلان واپس نہیں لیا۔ کیا سعودی عرب اب امریکہ سے پیچھے ہٹ کر روس اور چین سے اپنے تعلقات کو ایک نئی نہج پر لے جانا چاہتا ہے؟ اور اگر سعودی عرب کی ایسی کوئی خواہش ہے تو امریکہ اسے ممکن ہونے دے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جو ان دنوں عالمی بالخصوص خلیج کی سیاست میں پوچھے جا رہے ہیں۔ سعودی قیادت شاید اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ امریکہ کی دوستی اُس کے لیے کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی اور یہ کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا دار و مدار صرف اور صرف امریکی مفادات پر منحصر ہوتا ہے۔ ڈومور اور چشم پوشی کی وہ ذلت جو پاکستان نے امریکہ کا اتحادی ملک ہوتے ہوئے اور اپنا سب کچھ امریکی مفادات اور افغانستان سمیت خطے میں اس کے دیگر مقاصد پورے کرتے ہوئے اٹھائی‘ اُس کا پاکستان کو جو صلہ ملا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکی چشم پوشی کا یہ سلسلہ بھی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1965ء میں جب پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے امریکی اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ نے نہ صرف اُس وقت بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کو نئے اسلحہ کی فراہمی سے انکار کر دیا اور پہلے سے دیے گئے امریکی اسلحے کے اضافی پرزے دینے سے بھی منع کر دیا بلکہ اپنی فوجی امداد کا رُخ اچانک بھارت کی جانب موڑ دیا۔ روس اس جنگ سے پہلے ہی بھارت کو اسلحے سے لیس کر رہا تھا اور امریکہ جو اُس وقت روس مخالف تھا اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت اور مدد کر رہا تھا‘ اُس نے نہ صرف مشکل وقت میں پاکستان کی پشت سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا بلکہ ہمارے دشمن بھارت کی امداد میں جُت گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ یہی کچھ اب امریکہ سعودی عرب کے ساتھ کرنے جا رہا ہے بلکہ یہ سمجھ لیجئے کہ امریکیوں نے اپنے ماتحت اتحادیوں کی کمر میں خنجر گھونپنے کی اپنی روایات پر عمل شروع بھی کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر راکٹ پھینکے جا رہے ہوں تو امریکہ کی یہ حرکت کچھ عجیب نہیں کہ اُن راکٹوں کو راستے میں روک کر تباہ کرنے والے پیٹریاٹ میزائلوں کی سعودی عرب کو فراہمی اچانک بند کر دی جائے۔امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کے خلاف ایک ایسی مہم چلائی جس کا مقصد سعودی عرب اورخاص کر شاہی خاندان کے امیج کو سخت نقصان پہنچانا تھا۔ سعودی ولی عہد اور سعودی حکومت اس وقت چکرا کر رہ گئی جب امریکہ نے حوثی باغیوں یا لڑاکا فورس کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنے سے سعودی عرب کی سلامتی کو شدید سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کو اب چین کے ارد گرد ایسے ممالک کی ضرورت ہے جنہیں وہ چین کے سیاسی اور تجارتی سفر میں روڑے اٹکانے کے لیے استعمال کر سکے۔ وہ ممالک جو چین کی معاشی ترقی کی راہ میں جیسی بھی ہوں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں امریکہ کی مدد کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو امریکہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ چین کے سی پیک اور گوادر بندر گاہ منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال میں لانا چاہے یا اسے افغانستان میں مداخلت کے لیے استعمال کرے لیکن یہاں پر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایران امریکہ کو پاکستان اور چین کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی اجا زت دے گا؟ یہاں پر یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا پاکستان میں رجیم چینج کا مقصد یہی تھا کہ عمران خان کے بعد ملک ایسی قیادت کے حوالے کیا جائے جو امریکی مفادات کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہو سکے؟ اور کیا امپورٹڈ حکومت کے قیام کے بعد یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے؟ امریکہ کی سخت مخالفت اور دھمکیوں کے باوجود OPEC اور سعودی عرب کے جو بائیڈن کو سخت انکار نے انہیں انتہائی پریشان کر دیا ہے۔ کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ تیل کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ رکھنے والا ملک امریکہ‘ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے دوسروں پر دبائو ڈالتا پھرے جبکہ وہ اپنے ذخائر کو محدود رکھنا چاہتا ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اوپیک ممالک یہ امریکی خواہش پوری کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اُن کے اس انکار پر نہ صرف امریکی صدر بلکہ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداران بھی سیخ پا ہو چکے ہیں۔
ڈیمو کریٹس نے وائٹ ہائوس پریہ دبائو ڈالنا بھی شروع کر دیا ہے کہ سعودی عرب سے اُن امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے جو سعودیہ کی سکیورٹی کے لیے وہاں بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ سعودی عرب سے وہ تمام ہتھیار ‘ جن میں پیٹریاٹ میزائل بھی شامل ہیں‘ واپس لینے پر زوردیا جا ئے۔ امریکہ سعودی عرب سے کیوں ناراض ہے‘ اس کی ایک جھلک دکھانے کیلئے سینیٹر کرس مرفی کی انتہائی دلچسپ ٹویٹ سامنے رکھ رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں ''یمن ‘ سوڈان اور لیبیا میں امریکی مفادات کے خلاف کام کرنے کے با وجود خلیجی ریاستوں کو اسلحہ فروخت کرنے کا سارا مقصد یہی تھا کہ جب بھی کسی جگہ بین الاقوامی بحران آئے گا تو خلیجی ممالک روس اور چین پر امریکہ کو ترجیح دیں گے لیکن بد قسمتی سے ان کی جانب سے ایسا نہیں ہو رہا‘‘۔
سعودی عرب کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی امریکہ کئی مرتبہ سعودی عرب کو ایسے جھٹکے دے چکا ہے اور امریکہ کے ہنری کسنجر کا وہ فقرہ کسے یاد نہیں کہ امریکہ اپنے دشمن کو نہیں بلکہ سب سے پہلے اپنے دوستوں کو ڈستا ہے اور وہ ممالک اور قیادتیں جنہوں نے اپنے ملک کے مفادات کو پوری طرح امریکی قدموں میں جھونک کر مالِ غنیمت سمیٹا ہو وہ تو کبھی بھی اس کے نزدیک رحم کے مستحق نہیں ہوتے۔ بھٹو‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ساتھ جو کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے ۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سعودی عرب بہت جلد ''برکس‘‘ کی ممبر شپ لینے جا رہا ہے۔برکس میں شمولیت کے بعد سعودی عرب کے لیے معاشی وسعت میں مزید اضافہ ممکن ہو سکے گا۔ لیکن کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعے سعودی عرب کی برکس میں شمولیت کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکائے گا۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو ان تمام عوامل کے پیش نظر امریکہ کے لیے یہ امر انتہائی پریشانی کا باعث ثابت ہوگا اگر سعودی عرب نے جوابی وار کرتے ہوئے تیل کی قیمت امریکی ڈالر کے بجائے کسی دوسری کرنسی میں وصول کرنا شروع کر دی‘ لیکن کیا سعودی عرب جس کی معیشت کا شمار دنیا کے پہلے بیس ممالک میں ہوتا ہے‘ ایسا کر سکے گا؟