"MABC" (space) message & send to 7575

26 تاریخ ہی کیوں؟

کیا 26 نومبر کا لانگ مارچ سیاسی سیٹ اَپ کیلئے خطرے کی علامت بن سکتا ہے؟ کیا یہ دن اسلام آباد کے کسی ایوان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتا ہے؟ کیا اس سے قبل ہی صدر عاف علوی وزیراعظم شہباز شریف کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت سیاسی ایوانوں میں زیرِ گردش ہیں؛ تاہم علم الاعداد کے ماہرین 26 کے ہندسے میں الجھے ہوئے ہیں۔
عمران خان کا لانگ مارچ تین نومبر کو جیسے ہی وزیر آباد کی جانب بڑھا تو وہاں ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ قاتلانہ حملے میں ٹانگوں پر لگنے والی گولیوں سے زخمی ہونے والے عمران خان تکلیف اور زخموں کے باوجود 26 نومبر کی تاریخ مقررکرتے ہوئے راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ گو کہ اب بھی عمران خان کی زندگی کو لاحق خطرات کی شدت سے اظہار کیا جا رہا ہے مگر اس کے با وجود ان کا لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ سب کو حیران کر رہا ہے۔ یقینا لوگوں کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے جب نئی دہلی کی جانب مارچ کا اعلان کیا تو اس وقت بھی سخت سردی کے باوجود انہوں نے 26 جنوری کی تاریخ ہی نئی دہلی پہنچنے کیلئے مقررکی تھی۔ مودی سرکار کی جانب سے کئی طریقوں سے کسانوں کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ چھبیس کے بجائے کوئی اور دن مقرر کر لیں لیکن مودی سرکار کے لگاتار دبائو اور سخت کوششوں کے با وجود اسے ناکامی ہوئی۔ مودی سرکار کو یقین تھا کہ چھبیس کا دن مقرر کیا جانا اپنے اندر کوئی معنی ضرور رکھتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کبھی کبھی کوئی لفظ یا ہندسہ کسی انسان‘ کسی جگہ یا علاقے سے اس طرح منسوب ہو جاتا ہے کہ اس جگہ کی تاریخی حیثیت بھلے ختم ہو جائے‘ لیکن اس مقام سے منسوب لفظ یا عدد رہتی دنیا تک ذہنوں میں محفوظ ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ 13 کا ہندسہ امریکی و یورپی معاشرے میں بھی نحس سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح نائن الیون کی طرح عیسوی کیلنڈر کی 26 تاریخ بھی بہت سے ممالک کو انجانے خوف میں مبتلا کیے رکھتی ہے۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک‘ کئی ممالک 26 کے عدد کو قدرتی آفات اور ز لزلوں سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس تاریخ کو پیش آنے والے اکثر حادثات میں ہزاروں بلکہ لاکھوں شہریوں کے نام ونشان تک مٹ کر رہ گئے۔ دنیا بھر کے ماہرِ ارضیات اور سائنسدان اکثر حیران ہوتے ہیں کہ اکثر ایسی آفات‘ جو کروڑ ہا انسانوں کو نگل چکی ہیں‘ 26 تاریخ ہی کو کیوں آتی ہیں۔
بھارت کی جانب دیکھیں تو بھارت کے صوبے گجرات کے علاقے بھوج میں آنے والے ہولناک زلزلے‘ جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6 ریکارڈ کی گئی‘ کو وہاں کے لوگ آج تک نہیں بھولے اور یہ خوفناک تباہی پھیلانے والا زلزلہ 26 جنوری 2001ء کو آیا تھا، جب بھارت اپنا 52واں ریپبلک ڈے منا رہا تھا۔ اس زلزلے میں 20 ہزار سے زائد افراد چند لمحوں میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔ ممبئی میں 2005ء میں آنے والے سیلاب نے زبردست اور خوفناک تباہی مچائی تھی۔ یہ خوفناک سیلاب جولائی کی26 تاریخ کو آیا تھا جس نے پانچ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا تھا۔ ممبئی ہی میں تاج محل ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور شیوا جی ٹرمینل پر قبضہ کر کے مبینہ دہشت گردوں نے جب 60 گھنٹے تک پورے بھارت کو اپنی دہشت میں جکڑ کر 167 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تو وہ سال تھا 2008ء لیکن تاریخ تھی نومبر کی 26۔
26 جنوری 1700ء کو شمالی امریکہ کے علاقے Cascadia میں آنے والے 8.7 سے 9.2 شدت کے زلزلے میں 30 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ 26 مارچ 1812ء کو وینزویلا میں آنے والے زلزلے سے 20 ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی۔ انڈونیشیا کے علاقے کارکتائو میں 26 اگست 1883ء کے ایک سمندری طوفان اور آتش فشاں کے حادثے میں 36 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 26 جون 1926ء کو یونان کے جزیرے رہوڈس میں آنے والے زلزلے نے وہاں اس قدر تباہی مچائی کہ ہزاروں لوگ آن کی آن میں ہلاک ہو گئے۔ کانسو (چین) میں 26 دسمبر 1932ء کے زلزلے نے 70 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ ترکی کے 26 دسمبر 1939ء کے زلزلے سے 41 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔پرتگال میں 26 جنوری 1951ء کے زلزلے میں 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 26 جولائی 1963ء کو یوگو سلاویہ کے زلزلے کی تباہی آج بھی وہاں پر دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ چین میں 26 جولائی 1976ء کو آنے والے زلزلے سے 2 لاکھ 55 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ 26 مئی 2003ء اور پھر دو ماہ بعد 26 جولائی 2003ء کو یکے بعد دیگرے آنے والے جکارتہ اور تاسک (انڈونیشیا) کے دو زلزلوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح 2004ء میں انڈونیشیا سے اٹھنے والا سونامی بھی 26 دسمبر ہی کو آیا تھا جس میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جکارتہ میں 26 مئی 2006ء، تاسک میں 26 جون 2010ء اور منتاوئے میں چار ماہ بعد ہی 26 اکتوبر 2010ء کو آنے والے زلزلوں نے ہر طرف تباہی پھیلا دی تھی۔ ایران کے شہر بام میں 26 دسمبر 2003ء کے خطرناک زلزلے نے 60 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ 26 فروری 2010ء کو جاپان اور 26 اپریل 2010ء کو تائیوان میں 6.9 شدت کے آنے والے زلزلے نے پورے علاقے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ بنگلہ دیش میں 26 اپریل 1989ء کے زلزلے نے سینکڑوں لوگوں کی جان لی۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا میں دس لاکھ سے زائد زلزلے آتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر اس قدر خفیف ہوتے ہیں کہ محسوس بھی نہیں ہوتے‘ انہیں صرف جدید حساس آلات ہی شناخت کر سکتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان محسوس کر سکتے ہیں اور ایسے زلزلوں کی تعداد تو بہت کم ہے جو جانی یا مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ ہر سال اوسطاً چند ایک ہی بڑے زلزلے آتے ہیں جوکبھی سینکڑوں یا ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بھی بنی نوع انسان کی خوش قسمتی ہے کہ دنیا کے 70 فیصد سے زائد حصے کو سمندر نے ڈھانپ رکھا ہے، اس طرح زیا دہ تر زلزلے سمندر میں ہلکا سا طلاطم اٹھانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتے۔ باقی تیس فیصد رقبے میں سے بھی صرف ایک تہائی انسان کے تصرف میں ہے اور دو تہائی صحرائوں، جنگلات، پہاڑوں اور برفانی خطوں پر مشتمل ہے جہاں بہت کم لوگ آباد ہیں۔ عمومی طور پر ان علاقوں میں ہلکی شدت کے آنے والے زلزلے ہمارے ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بن پاتے۔ براعظم افریقہ اور آسٹریلیا اس لحاظ سے کافی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ وہاں بہت کم زلزلے آتے ہیں لیکن امریکہ، سائبیریا، روس، جاپان، چین کا وسطی اور جنوبی علاقہ، انڈونیشیا، مغربی بنگال، پاکستان، ایران ، ترکی، یونان اور سپین کے علاقوں کو زلزلوں کی پٹی کہا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں اوسطاً ہر روز 5 درجے سے کم کا ایک زلزلہ آتا ہے جبکہ سال میں ایک زلزلہ 7 یا اس سے زیادہ شدت کا بھی آتا ہے۔ جاپان میں سالانہ اوسطاً معمولی نوعیت کے 5 ہزار سے زائد زلزلے ریکارڈکیے جاتے ہیں جبکہ 150کے لگ بھگ زلزلے پانچ یا اس سے زیادہ شدت کے آتے ہیں۔
سائنسی طور پر زلزلوں کی کئی توضیحات پیش کی جاتی ہیں‘ گو کہ ان کی پیش گوئی کا کوئی مؤثر نظام ابھی تک وجود میں نہیں آ سکا مگر ایک بات سائنس دانوں کے لیے آج تک معمہ بنی ہوئی ہے کہ دنیا میں آنے والے زیادہ تر زلزلے اور طوفان کے لیے ''26 تاریخ‘‘ ہی کیوں؟ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان جیسے ''زخمی چیتے‘‘ کی اگلی جست 26 تاریخ ہی کو کیوں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں