"MABC" (space) message & send to 7575

نت نئے آدم خور

آج کل ڈیجیٹل قرضوں کے نام پر عوام کا جو حشر کیا جا رہا ہے‘ شاید اس کا احساس اس وقت ہو گا جب لوگ اس استحصال سے تنگ آ کر خود کشیوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ آئے دن اس حوالے سے ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہے کہ روح کانپ جاتی ہے مگر اربابِ اختیار کے ہاں ذرا سا ارتعاش بھی برپا نہیں ہوتا۔ وزیر آباد کے ایک تنگ دست محنت کش کے بیٹے کی ٹانگ کا آپریشن تھا۔ گھر میں کھانے کیلئے بھی کچھ نہ تھا‘ ایسے میں آپریشن کے پیسے کہاں سے آتے؟ گھر میں موجود چند ماشے سونا فروخت کرنے کے بعد بھی جب مزید پیسوں کا کہیں سے کوئی بندو بست نہ ہو سکا تو اس محنت کش کے پاس سوشل میڈیا پر قرضہ دینے والے ایک اشتہار سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اشتہار میں 90 دِنوں کی مدت پر قرضہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بد قسمت اور مجبور شخص نے جھٹ سے اپلائی کیا اور دوسرے دن اسے مطلوبہ رقم مل گئی لیکن ہوا یہ کہ قرضہ لینے کے صرف سات دن بعد اسے کمپنی کی جا نب سے فون آیا کہ قرضے کی ادائیگی کا وقت ہو گیا ہے‘ لہٰذا جلد از جلد قرض اد ا کر دیجئے۔ اس نے بتایا کہ اس نے تو تین ماہ کیلئے قرضہ لیا ہے اور ابھی تو صرف سات روز ہوئے ہیں۔ ریکارڈ چیک کیجئے‘ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ لیکن کمپنی کے ریکوری ایجنٹ نے بدتمیزی کے سے لہجے میں کہا کہ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی‘ آپ ہی کا نام میرے سامنے ہے اور آپ نے ہی قرض اد اکرنا ہے۔ اس شخص کو کہا گیا کہ اگر آپ لیے گئے قرضے کی مدت میں توسیع چاہتے ہیں توآج اور ابھی6600 روپے اضافی فیس جمع کرا دیں۔ یہ سن کر اس غریب شخص کی کیا حالت ہوئی ہو گی‘ اس کااندازہ وہ نہیں لگا سکتا جس کی جیب میں چار پیسے موجود ہیں۔ وزیر آباد کے اس بے بس خاندان نے کیسے یہ فیس اد اکی‘ یہ بات صرف وہی جانتا ہے۔ اس کے بعد چند دن سکون کے گزر ے کہ ایک دن پھر کال آ گئی۔ بارہ روز بعد دوبارہ کمپنی کے ریکوری ایجنٹ کا فون آیا کہ قرض کی ادائیگی کی تاریخ کل ختم ہو چکی ہے‘ فوری طور پر قرض اد اکریں اور اگر کل تک قرض واپس نہ کیا تو قرض لیتے وقت فارم میں جن رشتہ داروں کے فون نمبر درج کیے گئے تھے‘ ان سب کو فون کر کے بتایا جائے گا۔ اس کے بعد ہمارے لوگ آ پ کے محلے اور گھر میں آئیں گے۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کی ٹانگ کے آپریشن کے لیے27 ہزار روپے قرضہ لیا تھا جو سود در سود کی شکل میں بڑھ کر 60 ہزار سے زائدہو چکا تھا۔ پھر اس خاندان کے ساتھ جو ہوا‘ وہ اس معاشرے‘ اس کے نظامِ عدل‘ آئین و قانون اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افراد‘ سب کے خلاف ایک فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر آباد کے اس شخص کا نام میں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ غربت اور بے چارگی کی بچی کھچی عزت کا کچھ تو پاس رہنا چاہئے۔
اہالیانِ لاہور کی یادوں میں یقینا وہ منظر تازہ ہو گا کہ جب شادمان میں ایک شخص کا جنازہ اپنے دوست‘ احباب کے کندھوں پر سوار اپنی آخری قیام گاہ کی طرف محو سفر تھا کہ اچانک بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار‘ کلاشنکوف بردار جنازہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ جنازے میں بھگدڑ مچ گئی۔ چند برسٹ ہوا میں چلانے کے بعد میت کو قبضے میں لے لیا گیا۔چند قریبی لواحقین کے سوا باقی سب لوگ ہوائی فائرنگ اور ان لوگوں کے خوف سے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ میت کو قبضے میں لینے کے بعد ان لوگوں کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ مرنے والے شخص نے ہم سے سود پر قرضہ لیا تھا اور ہماری کچھ رقم اس کی طرف بقایا ہے۔ جب تک ہماری رقم اور سود کی ادائیگی نہیں ہو گی‘ ہم کسی کو بھی یہ میت دفن نہیں کرنے دیں گے۔ وہ میت اس علاقے میں‘ سب کے سامنے ان سود خوروں نے یرغمال بنائے رکھی مگر کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا۔ پتا چلا کہ مرحوم نے سود پر لی گئی رقم سے دو گنا ادائیگی کر دی تھی لیکن سود در سود کی رقم بقایا تھی۔ ملک کی تاریخ کے اس انوکھے اور شرمناک ترین واقعے پر ملک کے تمام اخبارات میں شور مچ گیا مگر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ میت دو دن تک ان سود خوروں کے قبضے میں رہی تھی۔ اس دن مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ زندہ نہیں‘ مردہ افراد کا معاشرہ ہے۔
شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ تو سنا دیا ہے لیکن ابھی تک اس حکم پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگر میں یہ لکھنے بیٹھ جائوں کہ اب تک کتنے باپ اور بچے‘ کتنی مائیں، بیٹیاں،اورسہاگنیں سود در سودکی دلدل کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں تو یہ داستان بیان کرنے میں مہینوں لگ جائیں گے۔پاکستان کی ہر گلی‘ ہر محلے میں سود در سود کے زہریلے ناگ سے ڈسے ہوئے لوگ اپنی جگہ پر خود ایک کہانی ہیں۔ ہزاروں کی کہانیاں چھپ چکی ہیں اور کئی لاکھ افراد منہ چھپائے اندر ہی اندر شرم سے مر تے جا رہے ہیں۔ میڈیاسود کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے‘رسوا ہونے والوں کی چیخیں سناتا رہا لیکن سب خاموش رہے۔ سودی کاروبار کرنے والوں‘ سود کھانے والوں‘ سودی کھاتوں کا اندراج کرنے والوں‘ سودی لین دین کے گواہوں‘ غرض ہر ایک پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت کی گئی ہے۔ سود کو نہ صرف صریحاً حرام کہا گیا ہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں ریاستی سطح کے علاوہ نجی سودی کاروبار بھی پورے دھڑلے سے جاری ہے۔ ہر علاقے میں کچھ لوگ موجود ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں اور جن کے بارے میں سب کو پتا ہے لیکن اگر کوئی انجان ہے تو وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اربابِ اختیار ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ (سورۃ البقرہ: 275) اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف) ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ادھار میں زیادتی سود ہے۔ (صحیح مسلم)رِبا کی تعریف کرتے ہوئے امام رازی لکھتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ وہ اس کے عوض ہر ماہ یا ہر سال ایک معین رقم لیا کریں گے اور اصل رقم مقروض کے ذمہ باقی رہے گی۔ مدت پوری ہونے کے بعد قرض دینے والا مقروض سے اصل رقم کا مطالبہ کرتا اور اگر مقروض اصل رقم ادا نہ کر سکتا تو قرض خواہ مدت اور سود‘ دونوں میں اضافہ کر دیتا۔ یہ 'رِبا‘ اور آج کا سود ہے‘ جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھا۔
لوگوں کی نسلیں اس سود در سود کے عوض گروی پڑی ہوئی ہیں۔ اگر کسی چند ہزار ماہوار کمانے والے غریب یا بیروزگار نے دس ہزار قرض لیا ہے تو اسے ایک ہزار ماہانہ سے بھی زائد سود ادا کرنا پڑتا ہے اور اصل قرض اپنی جگہ قائم رہتا ہے بلکہ کسی ماہ قسط ادا نہ کرنے سے یہ رقم مزید بڑھ جاتی ہے اور پھر بڑھتی ہی رہتی ہے۔ چند سال قبل مجھے اندرونِ سندھ کے کچھ دیہی علا قوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر میں کانپ اٹھا کہ سینکڑوں بچیاں سود کی عدم ادائیگی کے جرم میں ہندو اور مسلم وڈیروں اور خاصہ داروں کے ہاں گروی پڑی تھیں۔ یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کچھ بچیوں اور ان کے والدین سے میں نے خود بات کی اور جب پوچھا تو وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ ''ہم سارا پیسہ ان لوگوں کو دے چکا لیکن یہ بولتا ہے کہ ابھی اور با قی ہے۔ آج کل ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے‘ ہم پیسہ کہاں سے دے‘‘۔
ملک کے بڑے تجارتی گروپ‘ سرمایہ دار اور متمول افراد‘ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ ان مظلوموں کی مدد کر سکے؟ قرآنِ پاک میں اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کی جانے والی نعمتیں گنواتا ہے اور پھر فرماتاہے : مگر وہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گزرا۔ اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا ہے؟ کسی (کی) گردن کا چھڑانا۔ یا بھوک کے دن کھانا کھلانا۔ یتیم رشتہ دار کو۔ یا فقیر خاکسار کو۔ (سورۃ البلد: 11 تا 16)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں