سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں تانبے اور سونے کی کان کنی کے منصوبے ریکوڈک کے نئے معاہدے کو درست قرار دیا ہے۔ وزیراعظم کی تجویز پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک ریفرنس کی صورت میں ریکوڈک کے نئے معاہدے پر عدالت عظمیٰ سے رائے طلب کی تھی جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے 29 نومبر کو صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کی تھی جسے جمعہ کے روز جاری کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ معاہدہ قانون کے مطابق ہے اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے بھی درست ہے۔ ریکوڈک 1993ء سے حکومت بلوچستان اور غیر ملکی معدنی کمپنیوں کے مابین قانونی چارہ جوئی کا سبب بنا ہوا تھا۔ 2012ء میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت رہا اور جنوری 2013ء میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت اور مائننگ کمپنی کے کنٹریکٹ کو متعدد مائننگ قوانین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ 2017ء میں ورلڈ بینک کے ثالثی کے فورم نے معاہدے کی اس طرح منسوخی کے خلاف فیصلہ سنایا اور جولائی 2019 ء میں اس ادارے کی جانب سے پاکستان کو پانچ ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کا حکم سنایا گیا۔ اس بھاری جرمانے کے بعد عمران خان کے دورِ حکومت میں ماورائے عدالت تصفیہ کیا گیا اور رواں سال مارچ میں ایک نیا معاہدہ طے پایا جس پر اسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی لی گئی۔
یہ سارا سیاق و سباق اس لیے بیان کیا گیا کہ پی ڈی ایم کے چھوٹے بڑے سبھی لیڈران اور ان کے ہمدردوں کی جانب سے ہر وقت یہی سوالات کیے جاتے ہیں کہ لوگوں کو کوئی ایک ایسا کام بتا دیں جو عمران خان حکومت نے اس ملک و قوم کی بہتری اور فائدے کیلئے کیا ہو۔ یہ سوال ہم سب مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں اور حکومتی مشیران سے اکثر سنتے رہتے ہیں۔ آج اپنے کالم میں اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے عمران خان حکومت کے صرف چند بڑے کارناموں‘ جن میں ریکو ڈک خصوصی طور پر شامل ہے‘ پر بات کریں گے اور بتائیں گے کہ کیسے عمران خان نے ترک رینٹل پاور کمپنی (کارکے) سے اس ملک و قوم کے 1.2 ارب ڈالر(280 ارب روپے)، آئی پی پیز سے طویل مذاکرات کے بعد 604 ارب روپے، ریکوڈک کی مد میں لگ بھگ چھ ارب ڈالر (1430 ارب روپے) اور جی آئی ڈی سی میں 400 ارب روپے محفوظ کیے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ رقم ملک کے مختص دفاعی بجٹ سے دوگنا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا ٹیموں کو عمران خان کی نظریاتی سیاست یا طویل سیاسی جدوجہد کا بے لوث ساتھ دینے والوں پر بنی گالا کے تنخواہ دار کا الزام لگانے اور یہ تہمت دھرنے سے نہیں روکا جا سکتا مگر اس کا فیصلہ یقینا اُس جہان میں ہو کر رہے گا کہ کس نے اپنے ذاتی مفاد کو ملک و قوم پر نچھاور کیا اور کس نے اپنے تھوڑے سے کمیشن کے لیے ملک کے وسائل کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا۔
عمران خان اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہر دوسری‘ تیسری تقریر میں ریکوڈک کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ وہ اس ملک کے نوجوان طبقے کو بتایا کرتے تھے کہ گھبرائو مت! پاکستان میں بہت سے قیمتی ذخائر موجود ہیں‘ یہ مٹی بہت زرخیز ہے‘ اس کے پہاڑ دنیا کی بہترین اور انتہائی قیمتی دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں‘ ضرورت صرف ان پر توجہ دینے کی ہے‘ اس پر بغیر کسی لالچ اور حرص کے کام کرنا ہو گا‘ یہ تمام قیمتی دھاتیں بلوچستان اور پاکستانی عوام پر نچھاور کرنے کو بے تاب ہیں‘ بس نیک نیتی کا ہونا ضروری ہے۔ اسے بد قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے سامراج‘ جس میں سیا ستدان، افسر شاہی اور نظام کے دیگر بینی فشری شامل ہیں‘ نے اب تک اپنی ذات اور چند ایسی غیر ملکی طاقتوں کو ہی خوش رکھنے کی کوششیں کی ہیں جنہیں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ انہوں نے کبھی اس سوچ کو اپنے پاس پھٹکنے ہی نہیں دیا کہ یہ چند لاکھ اشرافیہ کا نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ انہیں بھی علاج، تعلیم، روزگار اور عالمی سطح پر برابری کا مقام اور عزت چاہئے۔
عمرا ن خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریکوڈک پر نیا معاہدہ کیا کہ پاکستان اب پہلے کی طرح بیس پا پچیس فیصد نہیں بلکہ پچاس فیصد کا حصہ دار ہو گا۔ اس پر مذکورہ کمپنی نے یہ شرط رکھی کہ سب سے پہلے اس معاہدے پر ملک کی سب سے بڑی عدالت سے تصدیقی مہر لگوائیں تاکہ اس معاہدے کو ہر طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہو سکے جس کے بعد اس حوالے سے نئی قانون سازی کی گئی اور معاملہ صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ بھیجا گیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی قانون سازی سے کوئی بھی ایسی غیر ملکی کمپنی مستفید ہو سکتی ہے جو پانچ سو ملین یا زیادہ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔
ریکو ڈک کیا ہے‘ کیا واقعی وہاں سونا اور کوئی دوسری قیمتی دھاتیں ہیں یا یہ صرف کہانیاں ہیں؟ یہ منصوبہ کب شروع ہوا‘ اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور یہ منصوبہ اب تک کن کن مراحل سے گزرا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عام پاکستانیوں کے ذہن میں ابھرتے رہتے ہیں۔ ریکوڈک پر کام کا آغاز پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا بلکہ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے استعفوں کے بعد نگران وزیراعظم معین قریشی کے دور میں بلوچستان کی نگران صوبائی حکومت کی زیرِ نگرانی اس کام کا آغاز ہوا اور ریکوڈک میں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت کے لیے 29 جولائی 1993ء کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی BHP کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ریکوڈک پروجیکٹ کی آمدنی کا 25 فیصد حکومت اور 75 فیصد کا حق دار BHP کو بنایا گیا۔ اسی طرح فنڈز کی فراہمی بھی فریقین کی ذمہ داری تھی۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت منافع کی شرح جان بوجھ کر کم رکھی گئی۔ اس پر کوئی رائے دینے سے پہلے 1999ء میں دنیا بھر میں مائننگ اور پرافٹ شیئرنگ کے عالمی معاہدوں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک 33 فیصد، مشرقی ایشیا 32 فیصد، لاطینی امریکہ 27 فیصد، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ 26 فیصد جبکہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک 10 فیصد پر ایسے عالمی معاہدے کر رہے تھے۔ مجموعی طور پر اس وقت 25 سے 28 فیصد تک منافع ہی حکومتوں کے حصے میں آتا تھا کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے سبب یہ ایک مشکل، دقت و وقت طلب کام تھا۔ لہٰذا اس دور کے حساب سے یہ بہت ہی مناسب معاہدہ تھا۔ اکتوبر 1993ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے ریکوڈک کے اس منصوبے میں عدم دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اس کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس منصوبے کیلئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس پروجیکٹ پر کام بند ہو جائے گا لیکن آسٹریلین کمپنی کے ساتھ نگران حکومت کے کیے گئے معاہدے میں ایک شق یہ بھی تھی کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اگر فنڈز نہیں ہو ں گے تو آسٹریلین کمپنی یہ اخراجات خود برداشت کرے گی لیکن اس کے عوض آسٹریلین کمپنی کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ حکومت سے یہ رقم لندن انٹر بینک ریٹ پر سود کے ساتھ وصول کرے۔ 1993ء کے اس معاہدے میں سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے چاغی کا تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا علاقہ شامل تھا۔ فروری 2005ء میں اس معاہدے کی تجدید کی گئی اور تین سال بعد فروری 2008ء میں اس کی دوبارہ تجدید ہوئی جس کی میعاد فروری 2011ء میں ختم ہونا تھی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ اس پورے عرصے کے دوران اس منصوبے پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک بار پھر اس معاہدے کی تجدید کی جائے گی۔ (جاری)