"MABC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ریکو ڈک … (2)

بی ایچ پی نے جب 1994ء میں چاغی کے علاقے میں کام کا آغاز کیا تو اسے ایک ہزار کلومیٹر کا علاقہ دیا گیا تھا لیکن صرف 435 مربع کلومیٹر میں کام کرنے کے بعد ہی اسے زمین میں موجود قیمتی معدنیات کے ہوشربا ذخائر کا علم ہو گیا۔ کمپنی کی اپنی رپورٹ کے مطابق یہاں 22 بلین پائونڈ تانبا اور 13ملین اونس خالص سونے کے پچاس سال تک کے ذخائر کی موجود گی کے پختہ امکانات ہیں۔ جولائی 1993ء کے بعد جیالوجیکل سروے اور ڈرلنگ پر آسٹریلین مائننگ کمپنی کے مطابق‘ ابتدائی دو‘ ڈھائی سالوں میں اس کے سات ملین ڈالر خرچ ہوئے لیکن نجانے کیا ہوا کہ 1996ء میں اس پروجیکٹ پر گہری خاموشی چھانا شروع ہو گئی جو چھ سال تک محیط رہی۔ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مارچ 2002ء میں بی ایچ پی کو پروسپکٹنگ لائسنس دیا جسے چاغی ہل ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کے تحت ''ریکوڈک لائسنس‘‘ کا نام دیا گیا لیکن اس لائسنس کے اجرا کے وقت بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جگہ حکومت بلوچستان نے خود کو معاہدے میں آسٹریلین کمپنی کے ساتھ پارٹنر کے طور پر درج کرا لیا جس پر ان دونوں میں اختلافات پیدا ہو گئے اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے۔
عمران خان نے اگلے روز اپنی پریس کانفرنس میں بالکل درست کہا کہ وہ لیڈران‘ جن کے گھر‘ فارم ہائوسز اور کاروبار بیرونی ممالک میں ہوں‘ انہیں اپنا حکمران کبھی بھی منتخب نہ کیجئے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوا تو یہ اشرافیہ تو اپنا بیگ اٹھا کر اپنے حقیقی ملک چلی جائے گی‘ مسئلہ تو انہیں بھگتنا پڑے گا جن کا جینا مرنا اس دیس کے ساتھ ہے۔ عام انتخابات کے دوران یہ مشاہدہ ہر کسی کو ہوتا ہے کہ لوگ مرکزی لیڈر کے علاوہ ایسے امیدواران کو ووٹ دینے سے کتراتے ہیں جو ان کے حلقے کے رہنے والے نہ ہوں۔ لے دے کر عمران خان پر ایک گھڑی کے حوالے سے سنگ باری کرنے کے علاوہ لگتا ہے کہ پوری پی ڈی ایم کے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ عمران خان کے قریبی سمجھے جانے والے کئی افراد اب پی ڈی ایم کے ساتھ مل چکے ہیں مگر وہ بھی ایون فیلڈ یا سرے محل جیسا کوئی سیکنڈل نہیں نکال سکے کیونکہ جن کے مفادات ملک سے باہر چھپے ہوتے ہیں‘ کک بیکس کی ضرورت بھی انہیں ہی محسوس ہوتی ہے۔ آبائی وطن تو انہوں نے محض شوقِ حکمرانی کے لیے رکھا ہوتا ہے۔
خیر‘ بات ہو رہی تھی ریکوڈک کی۔ جب مالی معاملات تشویش کن صورت اختیار کر گئے تو بی ایچ پی نے آسٹریلیا ہی کی ایک کمپنی ''منکور ریسورسز آسٹریلین این ایل‘‘ کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جس نے ریکوڈک پروجیکٹ پر ساڑھے تین ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ اس کمپنی نے ایک تیسری کمپنی ''ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی)‘‘ کو اپنا سب پارٹنر بنا لیا اور اپریل 2002ء میں ٹی سی سی اور بی ایچ پی میں اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں ریکوڈک پروجیکٹ پر کام کا آغاز کرنے والی آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی کا عمل دخل تقریباً ختم ہو گیا اور ٹی سی سی چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ریکوڈک ایکسپلوریشن لائسنس کے75 فیصد کی مالک بن گئی لیکن ٹی سی سی نے وہی رفتار اختیار کیے رکھی جو بی ایچ پی نے 1994ء سے اختیار کر رکھی تھی جبکہ 2002ء میں طے پانے والے معاہدے کی رو سے کمپنی 2006ء تک ہر قسم کی فزیبلٹی سٹڈی سمیت سونے اور کاپر کی پیداوار دینے کی پابند تھی لیکن وہ اپنی اس کمٹمنٹ میں نا کام رہی۔ 2006ء میں جب ٹی سی سی نے ریکوڈک سے پروڈکشن شروع کرنا تھی تو ایک نیا کھیل شروع کر دیا گیا۔ اندرونِ خانہ مائننگ کی دنیا کی مشہور کمپنیوں‘ چلی کیAntofagasta اور کینیڈا کیBarrick Gold Corporation نے ٹی سی سی کے تمام حقوق حاصل کر لیے اور اعلان کر دیا کہ ٹی سی سی کی تیار کردہ فزیبلٹی رپورٹ اور اب تک اس نے جوکام مکمل کیا ہے‘ اس کے بجائے ہم آزادانہ کام کرتے ہوئے تیس ملین ڈالر کی لاگت سے نئے سرے سے کام کا آغاز کریں گے اور اب تک کیے گئے کام سے ہمارا کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس چالبازی کا اصل مقصد یہ تھا کہ بی ایچ پی اور ٹی سی سی نے جو بھی کام کر رکھا تھا‘ معاہدے کے مطابق بلوچستان حکومت سے اس کا 25 فیصد وصول کیا جائے اور پھر وہی کام کرنے کے پیسے چلی اور کینیڈا کی کمپنیاں بھی وصول کریں۔ حقیقت یہ تھی کہ ٹی سی سی ان کمپنیوں کو رپورٹ دے چکی تھی کہ ریکوڈک میں وسیع پیمانے پر تانبے اور سونے کے علاوہ انتہائی قیمتی اور نایاب دھات Molybdenum کے بھی بے تحاشا ذخائر پائے گئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ٹی سی سی نے یہ رپورٹ کبھی بھی حکومت بلوچستان کو فراہم نہیں کی تھی۔ یہ بیش قیمت دھات جوہری اسلحے اور دفاعی سامان کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ حکومت بلوچستان اگلے چند سال تک خوابِ غفلت کا شکار رہی جبکہ نئی کمپنیوں نے فزیبلٹی رپورٹ کے نام پر 2008ء میں حکومت کو 220 ملین ڈالر کا بل تھما دیا۔ یہ بل پیش ہوا تو حکومت کو یاد آیا کہ 1993ء میں یہ معاہدہ طے پایا تھا اور 15 سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں صرف کروڑوں ڈالروں کے بل ہی بھیجے جا رہے ہیں جبکہ پروجیکٹ وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کہیں گوادر پورٹ کی طرح بلوچستان کی بیش بہا معدنیات کو نکالنے کی آڑ میں بھی تو کوئی کھیل نہیں کھیلا جا رہا؟
حساس اداروں نے ملکی سلامتی اور معاشی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت کو مشورہ دیا کہ بلوچستان کے قدرتی ذخائر پر بھرپور توجہ دی جائے جس پر بلوچستان کی کابینہ نے 24 دسمبر 2009ء کو متفقہ طور پر فیصلہ کرتے ہوئے ریکوڈک پروجیکٹ پر سنجیدگی سے کام کرنے کیلئے ایک بورڈ آف گورنر تشکیل دیا جس کی سربراہی مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو سونپی گئی۔ اب تک ریکوڈک معاہدے میں جو بنیادی غلطیاں کی گئی تھیں ان میں ٹی سی سی کو آسٹریلین سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہونے کی اجازت اور ایکسپلوریشن لائسنس کی بار بار تجدید شامل تھیں۔ اسے نااہلی کہیے یا مصلحت پسندی کہ ٹی سی سی کی غیر ملکی سٹاک ایکسچینج کی رکنیت کی وجہ سے حکومت بلوچستان اس پر کسی بھی قسم کا دبائو ڈالنے کے حق سے محروم ہو گئی۔ ٹی سی سی کا کہنا تھا کہ جب بی ایچ پی نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تو اس نے حکومت بلوچستان کو آگاہ کر دیا تھا کہ معاہدے کے مطابق ان کا 75 فیصد شیئر حکومت بلوچستان حاصل کر لے لیکن حکومت نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے معذوری ظاہر کر دی جس پر یہ حقوق ٹی سی سی کو منتقل ہو گئے۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ 2000ء میں جب معاہدے کی تجدید ہو رہی تھی تو ایک شق یہ رکھی گئی تھی کہ اگر کمپنی اپنے مالی حقوق کسی دوسری کمپنی کو منتقل کرے گی تو حکومت بلوچستان کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے مالی حصے کو بڑھا سکے گی لیکن جب یہ حقوق دیگر کمپنیوں کو منتقل کیے گئے تو کسی نے بھی اس طرف دھیان دینے کی کوشش نہیں کی۔ ٹی سی سی کی بیلنس شیٹ کے مطابق مارچ 2010ء تک وہ 400 ملین ڈالر اس پروجیکٹ پر خرچ کر چکی تھی جس میں 130 ملین روپے اس نے صرف اس علاقے کی بہتری اور دوسری سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کیے جبکہ 19ملین ڈالر حکومت بلوچستان کو مختلف ٹیکسوں کی مد میں ادا کیے تھے۔
2008ء میں ریکوڈک میں اندازاً 76 بلین ڈالر کے ذخائر تھے جو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے سے 450 بلین ڈالر مالیت کو پہنچ چکے تھے۔ اگلے چند برسوں میں عالمی لین دین میں ڈالر کے بجائے سونا ''متبادل کرنسی‘‘ کے طور پر سامنے آنے کا امکان ہے اور جس کے پاس سونے کی بہتات ہو گی‘ وہی ملک مضبوط ہو گا۔ ریکوڈک میں انتہائی قیمتی اور نایاب دھات Molybdenum کے بیش بہا ذخائر کی موجودگی کی بھی توثیق ہو چکی ہے اور جیسے ہی اس دھات کے موجودگی کنفرم ہوئی تو امریکہ، بھارت اور اسرائیل سمیت کئی ممالک ہل کر رہ گئے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ یہ نایاب دھات ایئر کرافٹ، میزائلز اور سپیس انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس منصوبے کو بریک لگانے کے کوششیں شروع ہو گئیں اور بریک صرف اس منصوبے کو نہیں بلکہ ملک کی معیشت کو لگائی گئی تھی کیونکہ ان ذخائر سے استفادہ کرنے کی صورت میں ہمارا ملک اقوام عالم کی دست نگری کی ہزیمت سے بچ سکتا تھا اور اسے کسی عالمی مالیاتی ادارے کی ضرورت نہیں رہنی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں