10 دسمبر کو دنیا بھر میں پچھترواں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا؛ اگرچہ یہ دن اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام پوری دنیا میں ایک لگے بندھے انداز میں ہر سال منایا جا رہا ہے مگر عالمی امن اور دنیا بھر کے انسانوں کو ان کے حقوق کی ضمانت دینے والے اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مقبوضہ وادیٔ جموں و کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، فلسطین کس اذیت سے گزر رہا ہے، میانمار میں اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کا درجہ کیا ہے۔ دیکھا جائے تو عالمی امن کے ضامن ادارے اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ امریکہ یا اس کے اتحادی جب چاہتے ہیں‘ اسرائیل اور بھارت کی فسطائیت کا شکار ہونے والے فلسطینیوں اور کشمیریوں کی مدد کرنے کے بجائے غاصب ملکوں کا ساتھ دیتے ہوئے فلسطینیوں اور کشمیریوں جیسی مظلوم اور محکوم قوموں پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا وہ کون سا گھر ہے جس کے باسیوں کا لہو انڈین آرمی اور اس کی پیرا ملٹری فورسز نے نہیں بہایا؟ وہ کون سا کشمیری ہے جس نے بھارتی بربریت اور جبریت کا گھائو نہیں سہا۔ اس کے باوجود نہ تو رواں ماہ امریکہ سے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سنگین ممالک کی جاری ہونے والی فہرست میں بھارت کو جگہ دی گئی اور نہ ہی عالمی سطح پر بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اگست 2022ء میں شائع ہونے والی کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد تین سال کے دوران بھارت کی قابض افواج نے 13 خواتین سمیت 662 کشمیری شہید کیے۔ 2 ہزار 278 کشمیریوں کو زخمی کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران 38 خواتین بیوہ جبکہ 91 بچے یتیم ہوئے۔ مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی افواج نے 1 ہزار 93 املاک مسمار کیں۔ 17 ہزار 993 افراد کو گرفتار کیا جبکہ 125 خوتین کی عصمت دری کی گئی۔ اس کے باوجود قانون کی حکمرانی کے حوالے سے جاری کردہ ''رُول آف لاء انڈیکس‘‘ میں 140 ممالک کی فہرست میں بھارت کو 77ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔کیا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اعداد و شمار بھارت میں قانون کی حکمرانی کی تصدیق کرتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا پورا مقدمہ جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ نامور برطانوی تاریخ دان Alastair Lamb نے کشمیر پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اپنی کتاب ''Birth of a Tragedy: Kashmir 1947‘‘ میں وہ اقوام عالم سمیت بھارت کے ہر ادارے اور تھنک ٹینک کو چیلنج کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کیلئے مہاراجہ کشمیر سے منسوب خط سرینگر میں نہیں بلکہ دہلی میں ٹائپ ہوا تھا اور اس پر 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر سے طاقت کے زور پر دستخط کرائے گئے تھے جبکہ اس خط پر دستخط ہونے سے قبل ہی بھارتی فوج کشمیر پر قبضے کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔
آج کلاشنکوفیں تانے بھارت کی7 لاکھ سے زائد فوج‘ بارڈر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور پولیس کے ظلم و بربریت کے سائے میں آزادیٔ کشمیر کی شمع کو روشن رکھنے کی خاطر ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کی مقبوضہ وادی گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی ظلم اور جبر کا سامنا کر رہی ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں آٹھ ہزار سے زائد افراد دورانِ حراست لاپتا ہو چکے ہیں‘ پیلٹ گنوں کے بے رحمانہ استعمال سے سینکڑوں بچے اور ہزاروں افراد اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ 80 لاکھ سے زائد جیتے جاگتے مگر پابند سلاسل کشمیری دنیا بھرکے انسانی حقوق کے پاسبانوں اور انسانی حرمت کیلئے نعرے بازی کرنے والوں سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا انسانی حقوق کا احترام اور آزادی کا تقدس کسی مخصوص رنگ اور نسل تک محدود ہوتا ہے؟ کیا خود کو مہذب اور باشعور کہنے والوں کی نظر میں اکثریت کی بنا پر رائے شماری سے آزادی حاصل کرنے کا اختیار صرف مشرقی تیمور کی من پسند نسل تک ہی محدود ہے؟ کیا کشمیر و فلسطین اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کا پیمانہ کچھ اور ہے؟ کیا انسانی حقوق کا عالمی منشور یہ کہتا ہے کہ اپنی نسل ، اپنے مذہب یا اپنی رنگت کے علا وہ دنیا میں کسی دوسرے کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق نہیں دینا چاہئے ؟
مذہبی اکثریت کی بنیاد پر جب سلطنتِ برطانیہ ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا طے کر رہی تھی تو اس وقت ہندوستان میں انگریزی راج کے تحت560 ریاستوں اور راجواڑوں میں خودمختار حکومتیں تھیں جن کے دفاع اور خارجہ امور کے معاملات انگریز سرکار کے پاس تھے۔1946ء میں انگریز کیبنٹ مشن نے مراسلہ جاری کیا جس کے پیراگراف14 میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کے تحت ان ریاستوں کی حاکمیت اعلیٰ نہ تو حکومت برطانیہ کے ماتحت ہو گی اور نہ ہی انگریز راج کی جگہ بننے والی کسی نئی حکومت کو منتقل ہو گی۔ 1947ء ایکٹ کے آرٹیکل7 کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ ان ریا ستوں کے کسی بھی معاملے میں برطانوی حکومت کا کسی بھی قسم کا عمل دخل نہیں ہو گا اور یہ ریاستیں اپنے معاملات میں آزاد ہوں گی۔ بھارت اور پاکستان کی شکل میں وجود میں آنے والی دونوں نئی مملکتیں ان ریا ستوں کے معاملات میں نہ تو مداخلت کی مجاز ہو ں گی اور نہ ہی کوئی فریق ان ریا ستوں کو زبردستی اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کرے گا لیکن اس فیصلے کے بعد سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا لارڈ اوول نے برطانوی ہائوس آف لارڈز میں کھڑے ہو کر پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ''برطانوی حکومت کسی بھی صورت میں کسی ریاست کے علیحدہ تشخص کی اجا زت نہیں دے گی‘‘۔ اس پر وائسرائے انڈیا لارڈ مائونٹ بیٹن نے فیصلہ سنایا کہ اگر کوئی ریا ست بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے دو شرائط کی پابندی لازمی ہو گی؛ جغرافیائی محل وقوع اور ریاست کے لوگوں کا مذہب۔ باقی سب ریاستیں مذکورہ شرائط کے تحت بھارت یا پاکستان کا حصہ بن گئیں مگر کشمیر، حیدر آباد اور جو نا گڑھ کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا۔
آزادی کے وقت نواب آف جونا گڑھ نے اپنی ریا ست کا الحاق پاکستان سے کیا تھا اور قائد اعظم نے بارہ ستمبر47ء کو اسے باقاعدہ طور پر منظور بھی کیا تھا لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن‘ جو بھارت کا پہلا گورنر جنرل مقرر ہو چکا تھا‘ نے ایشو کھڑا کیا کہ پاکستان کا یہ اقدام تقسیم ہند کے فارمولے کے خلاف ہے اور ہر ریا ست اپنے محل وقوع اور مذہبی اکثریت کی بنیاد پر ضم ہو گی۔چونکہ اس کا جغرافیائی محل وقوع پاکستان سے دور تھا لہٰذا 17 ستمبر1947ء کو بھارتی فوج نے جونا گڑھ پر حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ جما لیا۔ نظام آف حیدر آباد (دکن) بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن وہاں بھی مسئلہ محل وقوع اور مذہب کا تھا۔ نظام حیدر آباد بضد رہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جائیں گے مگر وی پی مینن، سردار پٹیل اور لارڈ مائونٹ بیٹن نے انہیں دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس پر نظام میر عثمان نے 24 اگست47 ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رابطہ کیا لیکن سکیورٹی کونسل کے کسی ایکشن سے پہلے ہی بھارت نے حیدر آباد میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ یہی صورتحال جودھ پور کے راجہ کے ساتھ بھی پیش آئی جو پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن وہاں بھی لارڈ مائونٹ بیٹن نے مذہب کارڈ کھیلا کہ وہاں کی اکثریت ہندو ہے‘ لہٰذا یہ ممکن نہیں۔ مسلم لیگ اور قائدا عظم نے بہت کوششیں کیں کہ تقسیمِ ہند کے تحت بنگال اور پنجاب کو تقسیم کرنے کے بجائے یہ مکمل طور پر پاکستان میں شامل کیے جائیں لیکن بار بار کی جانے والی ان درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا گیا کہ یہ مطالبہ برطانیہ کے تقسیمِ ہند کے طے شدہ فارمولے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انصاف، اصول، اخلاقیات اور انگریز کے تمام اصول و ضوابط کشمیر کے معاملے میں مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جغرافیائی طور پر کشمیر پاکستان سے منسلک ہے اور وہاں کی اکثریت بھی مسلم ہے‘ کسی نے بھی بھارت کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔ برٹش انڈیا لائبریری اور اُس وقت کے سرکاری کاغذات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کی گردن میں بھارتی جبر و استبداد کا یہ پھندا کسی اور نے نہیں برطانیہ اور امریکہ نے خود ڈال رکھا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج یہ دونوں ممالک دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سرخیل بن کر لیکچرز دے رہے ہیں اور جس ملک کو چاہیں انسانی حقوق کے نام پر بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔