''پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ سراسر ظلم اور غریب عوام کا معاشی قتل ہے، عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہونے پر عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا لیکن اضافے پر خوب پھرتی دکھائی جاتی ہے، نااہلی، نا لائقی اور کرپشن میں ڈوبی حکومت عوام کو مہنگائی کی دلدل میں ڈبو چکی ہے‘‘۔ یہ ٹویٹ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اضافہ ہونے پر آج کی حکومت کے کسی مخالف سیاسی رہنما، کسی معاشی ماہر یا عوام کا درد رکھنے والی کسی شخصیت کی جانب سے نہیں کیا گیا بلکہ یہ 16 جنوری 2022ء کو آج کے وزیراعظم اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جانب سے اس وقت کیا گیا تھا جب عمران خان حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمت فی لٹر تین روپے اضافہ کیا گیا تھا۔ عمران حکومت نے جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا، حکومت کے ناقدین، مخالف سیاسی رہنما اور سوشل میڈیا پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرنے والے دانشوروں کی فوج ہمیشہ ایک ہی بات کرتی نظر آئی کہ میاں نواز شریف کے دور میں پٹرول 76 روپے کا لٹر تھا۔ ریکارڈ کی درستی کیلئے عرض ہے کہ جنوری 2016ء میں‘ جب ملک میں میاں نواز شریف کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور پٹرول 76 روپے فی لٹر مل رہا تھا، اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 29 ڈالر فی بیرل تھی۔ دوسری طرف جب میاں شہباز شریف بحیثیت اپوزیشن لیڈر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر عمران خان حکومت کے لتے لے رہے تھے‘ اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت فی بیرل97 ڈالر تھی اور پٹرول 147 روپے فی لٹر کا تھا۔ آج کل برطانوی برینٹ آئل کی قیمت میں عالمی سطح پر کمی کا رجحان ہے اور اس کی قیمت 86 ڈالر فی بیرل ہے جبکہ عوام کو ایک لٹر پٹرول 250روپے کا مل رہا ہے۔ یعنی گزشتہ سال جنوری کی نسبت پٹرول کی عالمی مارکیٹ کی قیمت میں فی بیرل11 ڈالر کی کمی ہوئی ہے جبکہ ملکی سطح پر اس کی قیمت میں 103 روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ غریب عوام کے دکھ درد کا احساس یہ نہیں کہ تیل کی قیمت میں اضافے پر نمبر ٹانکنے کے لیے ٹویٹ کر دیا جائے بلکہ عوام دوستی یہ ہے کہ جب دنیا بھر میں تیل سستا ہو رہا ہو‘ اس وقت قیمتیں کم کر کے عوام کو بھرپور ریلیف دیا جائے۔
گزشتہ روز جس طرح یکلخت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ضابطے کی کارروئیوں سے ہٹ کر اضافہ کیا گیا ہے‘ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی عمران خان اور تحریک انصاف کو چھیڑتے ہوئے کیا گیا ہے۔ چند روز قبل جب قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے 35 اراکین کے استعفے منظور کیے گئے تھے تو اس وقت کئی وفاقی وزرا اور مشیروں نے پی ٹی آئی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو 35 پنکچر کا بیانیہ تو یاد ہو گا، اب اس کی اپنی ٹیوب میں سے 35 پنکچر نکل آئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم سرکار کو 35 کا ہندسہ بہت پسند ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفے 35، 35 کر کے منظور کیے گئے، اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ بھی35، 35 روپے فی لٹر ہی کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ کی مخالفت یا دشمنی تو تحریک انصاف سے ہے‘ پھر بدلہ عوام سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ 35، 35 روپے پٹرول اور ڈیزل کے بڑھا کر‘ ہم عوام کو 35، 35 زخم کیوں لگا رہے ہیں؟ آپ آپس کی مخالفت اپنے تک ہی محدود رکھیں‘ ہم عوام کو 35 پنکچر مت لگائیں۔
لگتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی غریب اور لاچار قوم کو 1947ء کی ہجرت، دکھوں، تکلیفوں اور آنسوئوں کے علا وہ اپنے عزیزوں کی قربانیوں اور ان کی کٹی پھٹی لاشوں اورلٹی ہوئی عزتوں کے عوض جو ملک ملا‘ وہ کوئی حقیقت نہیں بلکہ پردۂ سکرین پر چلنے والا کوئی کھیل ہے‘ جسے تفریح یا وقت گزاری کیلئے مرتب کیا گیا یا شاید مزید پیسے کمانے کیلئے کوئی انویسٹمنٹ کی گئی کیونکہ آج جو حال غریب، نچلے اور متوسط طبقے کا ہو چکا ہے‘ اس پر کچھ کہنے سے بہتر ہے ہے خدا بزرگ و برتر کے آگے التجا کی جائے‘ اس سے رورو کر دعا مانگی جائے کہ اے پروردگار! اے دلوں کے بھید تک کو جاننے والے! جنہوں نے اس ملک کے غریب عوام کا گھر بار لوٹا ہے‘ ان کی مجبوریوں کو خریدا ہے‘ ان کی جیب کاٹ کر بچا بچا کر رکھے گئے اور دن رات خون پسینہ ایک کرکے کمائے گئے سرمائے کو یہاں سے دو ر‘کہیں کسی غیر ملک میں چھپا رکھا ہے‘ ان سب کا حساب یقینا آخرت میں تو ہو گا ہی‘ مگر اس دنیا میں بھی انہیں اسی طرح کی تکالیف کا سامنا کر ادے جس کا سامنا عوام کر رہے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی گلیوں‘ کچے پکے مکانوںمیں رہنے والوں کو فیکٹریوں‘ فائونڈریوں کی بھٹیوں کے سامنے دہکتے ہوئے بڑے بڑے بوائلروں کے سامنے چند ہزار روپے ماہانہ کی اجرت کے بعد ایک وقت کی روٹی اور چند کلو آٹے کیلئے جس طرح لمبی اور طویل قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے‘ انہیں بھی عالی شان محلات سے نکال کر اسی طرح لائنوں میں کھڑا کر تاکہ انہیں احساس ہو جائے کہ دبئی، سنگا پور، ترکی، بلجیم،لندن،سپین، آئس لینڈ، آسڑیلیا اور امریکہ سمیت نجانے دنیا کے کون کون سے ملک میں یہ بڑے بڑے پلازے خرید کر، سٹورز خرید کر، عالی شان فلیٹس اور محلات خرید کر جو موج مستیاں کر رہے ہیں‘ ان کی ان عیاشیوں کی سزا اُن افراد کو بھگتنا پڑ رہی ہے‘ جن کا غربت کے علاوہ کوئی قصور نہیں ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ تو یکمشت تیس‘ چالیس روپے پٹرول، گھی اور آٹا سمیت دوسری ضروری اشیا مہنگی کر دیتے ہیں مگر اس غریب کا کیا قصور جو ان فیصلوں کی وجہ سے بھوکا سونے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس کے بچے غذائیت کی کمی کا شکار رہ جاتے ہیں، جو بجلی، پانی اور گیس کا چند ہزار کا بل دینے سے بھی عاجز آ جاتا ہے۔
اسحاق ڈار جیسے تجربہ کار اور معتبر وزیر خزانہ کی کچھ عرصہ پہلے کی گئی پریس بریفنگ کے نکات اس وقت میرے سامنے پڑے ہیں۔ اس بریفنگ میں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اقرار کرنے پرمجبور ہو گئے کہ عمران خان کے تین سالہ دورِ حکومت میں برآمدات کو24.8 ارب ڈالر سے32 ارب ڈالرتک پہنچایا گیا، باوجود اس کے کہ کورونا کے باعث پوری دنیا میں لاک ڈائون تھا۔ کیا عمران خان کے مخالفین کی زبان سے یہ اقرار کوئی چھوٹی بات ہے ؟ کیا اب بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت ملکی معیشت کو بہتری کی جانب لے کر جا رہی تھی؟کیا اُس وقت اور آج کے دور کی بیروزگاری کا موازنہ یہ نہیں بتاتا کہ پی ٹی آئی کا دورِ بتدریج معیشت کو بہتری کی جا نب لے کر جا رہا تھا؟ سوال پھر وہی ہے کہ جب سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا تو پھر عمران خان کی حکومت کو کیوں اور کس کے کہنے پر چلتا کیا گیا؟ کیا اس کا مقصد صرف اپنے خلاف درج مقدمات کا خاتمہ کرنا تھا یا کوئی اور ایجنڈا بھی ہے؟بعض غیر ملکی شخصیات نے رجیم چینج سے پہلے جس طرح عمران مخالف شخصیات سے ملاقاتوں کی بھرمار کر رکھی تھی‘ اسے دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے اپنے کوئی مقاصد نہیں تھے۔ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو کہا ہے کہ اب اﷲہی اس ملک کی حالت ٹھیک کرے گا‘ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین کامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی سب کچھ کرنے والا ہے‘ وہی کارساز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان نے اس ملک کو برباد کیا‘کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اس حکومت کا کام محض اپنے مقدمات کو داخلِ دفتر کرتے ہوئے اپنا ریکارڈ کلیئر کرنا ہے؟ چند ماہ پہلے تک لندن کے گوشۂ عافیت کے باہر کھڑے ہو کر کہا جا رہا تھا کہ ''کس شیر کی آمد ہے کہ ڈالر کانپ رہا ہے‘‘۔ جس وقت ڈار صاحب لندن سے پاکستان کیلئے روانہ ہو رہے تھے اور ڈالر دس روپے کم ہو گیا تھا تو کہا گیا کہ ہماری آمد سے قبل ہی 1300 ارب سے زائد ملکی قرضے کم ہو گئے ہیں، اب جو ملکی قرضوں میں 5000 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ چند ہفتوں میں ڈالر 200 روپے پہ لانے کا دعویٰ سن کر پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا تھا (باوجود اس کے کہ حکومت کی تبدیلی کے وقت ڈالر 180 روپے کا تھا) امید تھی کہ تجربہ کاروں نے اعلیٰ درجے کی پلاننگ کر رکھی ہو گی لیکن آج صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ دوست لوگ چند سو ڈالر خریدنے کے لیے جب مارکیٹ گئے تو اس وقت ان کے ہوش اڑ گئے جب ایک دن کے انتظار کے بعد انہیں ایک ڈالرکی قیمت 265روپے ادا کرنا پڑی۔