Vlad Tepes‘ جسے دنیا ڈریکولا کے نام سے جانتی ہے‘ نے بیس ہزار سے زائد بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو اپنی ریاست والیچیا کے باہر نیزوں پر لٹکا رکھا تھا۔ اس کے مظالم ہی کی وجہ سے اسے ''ولاد دی امپیلر‘‘ یعنی 'میخیں گاڑ کر مارنے والے ولاد‘ کا نام دیا گیا۔ روس کے Ivan Vasilyevich کا معمول تھا کہ وہ اپنی تفریح طبع کیلئے روزانہ سینکڑوں افراد کو اپنے دربار میں بلاتا اور پھر اپنے سپاہیوں کو حکم دیتا کہ ہر ایک کو مختلف طریقوں سے قتل کرو اور جس کا طریقۂ قتل سب سے اذیت ناک ہو گا‘ اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اسے تاریخ میں Ivan the Terrible کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک دفعہ کسی بات پر یہ اپنے بیٹے سے خفا ہوا تو اسے بھی قتل کرا دیا حالانکہ وہ بیٹا تمام بچوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ اس نے تقریباً پچپن سال عمر پائی اور اس دوران دسیوں ہزار افراد کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگا۔ چنگیر خان‘ ہلاکو خان‘ تیمور لنگ‘ ایڈولف ہٹلر‘ جوزف سٹالن اور مسولینی جیسی چند شخصیات کا نام آج تاریخ میں منفی حوالوں میں زندہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خصلتیں انسان میں جنیاتی طور پر موجود تھیں۔ کتابِ مقدس میں ہے کہ خدا نے جب انسان کی تخلیق کیا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ اے پروردگارِ عالم! یہ انسان جسے ہم تیرے حکم سے سجدہ کر رہے ہیں‘ دنیا میں بے پناہ شر اور قتل وغارت پھیلائے گا۔ کیا دنیا میں آنے والی معصوم صورتوں کو حیوانی جبلت دینے میں ہم اور ہمارا معاشرہ بھی قصوروار تو نہیں ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے اور ہر انسان میں دوسرے انسانوں اور جانداروں کی محبت پیدا کی ہے لیکن پھر کیا ہوا کہ انسان نے اپنے آپ میں انسانوں ہی کی عداوت پیدا کر لی۔ بطور مسلمان یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ عالمِ ارواح میں روحوں نے سب سے پہلے اپنے خالق سے آشنائی حاصل کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری قوتِ سماعت کو سب سے پہلے اپنے پاک نام سے روشناس کرایا تھا لیکن پھر کیا ہوا کہ اس انسان نے دنیا پر آ کر اپنے آپ میں بدی پیدا کر لی؟ خالق و مالک نے انسان کے آرام کیلئے رات بنائی لیکن انسان نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر ہنستے بستے گھروں کے چراغ بجھانا شروع کر دیے۔ ماں کی نرم و ملائم گود میں پرورش پانے والا کوئی انسان ہاتھ پائوں کھولتے ہی وحشی جانوروں کے سے اطوار کیوں اپنانے لگتا ہے؟ کیا اس کی ذمہ دار اس کی ماں ہے، معاشرہ ہے یا قدم قدم پر پیش آنے والی محرومیاں؟ پیدائش کے بعد مسلمان بچے کے کان میں اذان دے کر اس کے جسم میں سب سے پہلے اس کے حقیقی خالق و مالک کا نام ڈالا جاتا ہے۔ کسی بھی گھر میں پیدا ہونے والا بچہ‘ جھولے میں لیٹے ہوئے‘ ماں کی گود میں دبکے ہوئے‘ عالم معصومیت میں دنیا وما فیہا سے بالکل بے نیاز ہوتا ہے‘ اسے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے؟ اچھا کون ہے اور برا کون ہے؟ بچے کی سوچ دنیا کے ہر شر اور ہر برائی سے بے نیاز ہوتی ہے۔ اس کے قریب آگ کا شعلہ لے جائیں تو وہ اسے بھی پکڑنے کی کوشش کرے گا کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ یہ آگ اسے جلا ڈالے گی۔ اس کے قریب سانپ ہو تو وہ اسے پکڑنے‘ اس سے کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ وہ معصوم اس بات سے بالکل بے خبر ہوتا ہے کہ یہ سانپ اسے ڈس بھی سکتا ہے۔ لاعلمی کے اس عالم میں یہ معصوم جسم ایک حقیقت سے بخوبی آشنا ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ اگر پیار سے اس بچے کے ننھے ننھے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے پچکاریں تو یہ معصوم جسم زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ آپ کے پیار کا جواب دے گا۔ اگر آپ اسے پیار سے اٹھا کر اس کو چومیں گے تو یہ بچہ کلکاریاں مارتے ہوئے آپ سے لپٹ جائے گا اور اس کی مسکراہٹ بھرپور پیار کا بار بار اظہار کرے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات نے انسان کو سب سے پہلے جو جذبہ عطا فرمایا‘ وہ یہی پیار کا جذبہ تھا۔
انسان خواہ زندگی کی کسی منزل پر ہو‘ دنیاوی اعتبار سے خواہ کتنا ہی بڑا یا کتنا ہی چھوٹا ہو‘ بے کسی میں‘ بے بسی میں‘ بد حالی میں‘ خوشحالی میں‘ غرض ہر قدم پر وہ اپنے وجود کا بھرپور احساس دلاتا ہے اور اس بات کا شدت سے متلاشی رہتا ہے کہ اسے چاہا جائے‘ پیار کیا جائے۔ اس کی کائناتِ ہستی کی سب سے بڑی دولت یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کا محبوب ہو‘ کسی کا مطلوب ہو اور کسی کے دل کی دھڑکن ہو۔ اسی جذبۂ پیار و محبت کو لے کر وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ اس کا قبیلہ، خاندان، ماں باپ، بہن بھائی اور عزیز و اقارب غرضیکہ ہر انسان اس کو سراپا پیار نظر آتا ہے اور وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے زینے پھلانگ کر شعور کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔ جب اس کی خرد کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ اپنے گرد وپیش اور ماحول کا جائزہ لیتا ہے تو اپنے قبیلے، گھر اور معاشرے کے طور طریقے اور ہر ملنے جلنے والے کی عادات و گفتار اسے متوجہ کرنے لگتی ہے۔ اردگرد کا ماحول اس معصوم جسم میں ایک کھوج ابھارتا ہے۔ وہ جو جھوٹ سے ناآشنا تھا‘ جو مکر و فریب سے بے بہرہ تھا‘ جو لالچ اور خود غرضی سے پاک تھا‘ جو حسرت و مایوسی سے بیگانہ تھا‘ جسے فتوحات، بادشاہی او دشمنی جیسے دل آزار اور اذیت ناک جذبوں سے کوسوں دور کا بھی واسطہ نہ تھا جب اپنے گھریلو ماحول سے لے کر اپنے گلی‘ محلے اور ابتدائی ماحول میں ایک انسان کا دوسرے سے کیا جانے والا سلوک دیکھتا ہے تو قدم قدم پر چونک جاتا ہے۔ کبھی ماں سے‘ کبھی باپ سے‘ کبھی بہن بھائیوں سے اور کبھی خود سے اصرار کرتا ہے‘ استفسار کرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ زندگی کا یہ دوسرا رخ جو اس نے پہلے نہ کبھی دیکھا‘ نہ سنا، اسے اس کا درس کیوں دیا جا رہا ہے؟ جب خدا نے بھر پور محبت سے نوازا ہے تو نفرت کا سبق کیوں پڑھایا جا رہا ہے؟ جھوٹ کی مالا جپنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ مکر و فریب کی تختی لکھنے کیلئے کیوں دی جا رہی ہے؟
وقت گزرتا رہتا ہے اور یہ سوال اس بچے کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔ وہ بار بار اصرار کرتا ہے مگر جب کوئی بھی جواب نہیں ملتا تو یہی معصوم اور بھولا بھالا وجود محبت کی جگہ نفرت، نیکی کی جگہ برائی، روشنی کی جگہ تاریکی، پھول کی جگہ کانٹے اور معصومیت کی جگہ مکر و فریب کو دینے لگتا ہے۔ یہ مجبور و بے بس انسان اپنی اصل اساس اور گوہرِ انسانیت لٹا کر‘ ہجوم کی نقالی کرتے کرتے مصنوعی دنیا کی بھیڑ میں گم ہو جاتا ہے۔ اس کی سادگی چھین لی جاتی ہے، اس کی معصومیت دفن ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ انسان سے حیوان بننا شروع ہو جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ساتھ ہی اس کے ذہن سے عدل کی پہچان ختم ہو جاتی ہے، اس کا ضمیر مردہ ہونے لگتا ہے۔ ایمان و ایقان بکھر کر رہ جاتا ہے۔ وہ فطرتِ سلیم‘ جس پر اسے پیدا کیا گیا تھا‘ دھندلانے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ابتدا میں جرم سے وہ ملامت محسوس کرتا ہے مگر پھر اس کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ بہتا ہوا خون دیکھ کر اسے تسکین ملنے لگتی ہے۔ اس کا انسانیت سے ناتا بالکل ختم ہو کر رہ جا تا ہے۔ اب اسے صرف اپنی خواہشوں کے پورا ہونے کی فکر رہتی ہے۔ کوئی رشتہ اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ اپنے آپ سے بے خبر اس انسان کو رات کے پچھلے پہر جب ہوش آتا ہے تو زندگی کا قافلہ بہت دور جا چکا ہوتا ہے۔ جرم کا خوف، سزا کا ڈر، قانون کی گرفت سے بچنے کی بھاگ دوڑ اور پشیمانی کی تند سوچیں اس کا جینا دوبھر کر دیتی ہیں۔ پناہ کے حصول کیلئے ایک سے دوسری جگہ چھپن چھپائی، دن کا چین نہ راتوں کی نیند۔ جب قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد وہ اپنے کیے کی سزا بھگتتے ہوئے پھانسی گھاٹوں، کوڑوں، گلوٹین اور فائرنگ سکواڈ کا سوچتے ہوئے آہنی بیڑیوں میں جکڑا ہوا جیل کی اندھیری اور تنگ کوٹھڑی میں زندگی کے باقی دن گزار رہا ہوتا ہے تو بالوں کی سفیدی اور جسم کی نقاہت اسے واپسی کی خبریں سنانا شروع کر دیتی ہے۔ اس وقت اسے اپنا بچپن بڑی شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ اپنے جرائم سے بچنے کیلئے وہ تصور ہی تصور میں خود کو ایک بچہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ پھر وہی بچہ بن جائے‘ وہی جھولا ہو‘ وہی گود ہو۔ اس وقت وہ اپنے وہ مجرم تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ معصومیت سے سفاکیت تک پہنچا تھا یا پہنچایا گیا تھا۔