برطانیہ کے ازبکستان میں سابق سفیر کریگ مرے نے اپنے ایک ٹویٹ میں وہ بیان دیا ہے جسے جانچنا اور پرکھنا تو دور‘ آج کے ذمہ داران کو یہ ہمت بھی نہیں ہوتی کہ یہ بات انہیں ہضم ہوسکے۔ عمران خان جب بھی رجیم چینج کی بات کرتے ہیں تو ہر حکومت کی جانب سے جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی‘ یہ سب جھوٹ کا پلندہ اور ایک ڈھکوسلا ہے۔ بعض افراد تو یہ تک کہتے ہیں کہ یہ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے‘ جسے عمران خان اپنی سیاسی دکانداری بڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ عمران خان امریکہ مخالف جذبات کو ابھار کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابق برطانوی سفیر کریگ مرے نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ''(رجیم چینج) حالیہ چند سال کی وہ سب سے بڑی کہانی تھی جس پر پردہ ڈالا جاتا رہا ہے‘‘۔ اگر کریگ مرے غلط کہہ رہا ہے تو پھر پی ڈی ایم کو نہ صرف برطانوی حکومت سے احتجاج کرنا چاہیے بلکہ اسے کسی یورپی کورٹ میں بلا کر اس سے اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کیلئے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ یقین جانیے‘ اگر کریگ مرے کے خلاف برطانیہ یا یورپ و امریکہ کی کسی عدالت میں غلط بیانی اور پی ڈی ایم کی 'شہرت اور ساکھ‘ کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ دائر کر دیا جائے تو یقینا پی ڈی ایم سرکار کو اتنا پیسہ مل سکتا ہے کہ اس سے الیکشن کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ہمت اور کوشش کون کرے گا؟ اس قوم اور ملک پر ہمارے فیصلہ سازوں کی مہربانیوں اور کرم فرمائی سے اب تک ایسے کتنے ہی احسانات کیے جا چکے ہیں جن کا قرض چکانا اس دھرتی کے بیٹوں کے بس کی بات نہیں لگ رہی، کیونکہ جس قسم کے اس وقت حالات ہو چکے ہیں‘ اب تو گھر سے نکل کر دفتر‘ اور دفتر سے نکل کر گھر کے علاوہ کوئی بھی کام دشوار لگنے لگا ہے۔ اس لیے یہ جو چاہیں‘ کیے جائیں، جس طرح کا چاہیں سلوک کرتے رہیں، جس قدر چاہیں‘ جس کے پاس چاہیں ہمیں گروی رکھتے جائیں‘ یقین جانیے کوئی ہلکی سی احتجاجی آواز بھی نہیں نکلے گی جو ان کے آرام اور نیند میں مخل ہو۔ اگر ان کی سواری کے راستے میں عوام کوگرمی‘ سردی‘ بارش‘ آندھی‘ طوفان میں سڑکوں اور چوراہوں پر دو‘ چار گھنٹے کے لیے کھڑا رکھا جاتا ہے‘ مختلف راستے بند کر کے خجل و خوار کیا جاتا ہے تو بھی یہ احتجاج کے نام پر کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں نکالیں گے۔
محض چند روز سے نہیں بلکہ گزشتہ گیارہ ماہ سے ہمیں یہی سنایا اور بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کسی غیر ملکی سازش سے نہیں گری بلکہ فخریہ طور پر بتایا جاتا رہا کہ بلاول ہائوس کی کامیاب پلاننگ سے اس حکومت کو رخصت کیا گیا۔ یہ بات درست بھی لگتی ہے کیونکہ ٹی وی کیمروں نے ایک ایک لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے دکھا دیا تھا کہ سندھ ہائوس میں تحریک انصاف کے منحرف اراکینِ اسمبلی‘ جنہیں عرفِ عام میں لوٹا کہا جاتا ہے‘ کو نہ صرف اکٹھا کر کے رکھا گیا تھا بلکہ یہ سب وہاں عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پہلے ان سب کو ایک بڑے ہوٹل میں رکھا گیا‘ حالانکہ او آئی سی کانفرنس کی وجہ سے اس وقت اسلام آباد کے سبھی ہوٹلوں میں بکنگ بند تھی مگر پی ڈی ایم کے لیے یہ ہونی بھی ہو کر رہی۔ پھر سندھ ہائوس کو ان کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ یہ سب معاملات جب قوم کے سامنے آنے لگے تو انہیں وہاں سے دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا۔ اس لیے سرِدست یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ اس رجیم چینج یا بقول سرکاری ترجمانوں کے‘ حکومت کی تبدیلی کے اصل خالق اور ماسٹر مائنڈ مقامی افراد ہیں اور اس کام پر ان کو فخر بھی ہے کہ کس طرح ایک چلتی ہوئی حکومت کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا۔
چند روز قبل پیمرا نے عمران خان کے خطاب، تقاریر حتیٰ کہ بیانات چلانے پر بھی پابندی عائد کی (گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے پیمرا کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا) مگر اس کے باوجود ٹی وی کی جس سکرین کو بھی دیکھتے‘ وہاں عمران خان کا ذکر ہی سننے کو ملتا۔ حکومتی ترجمانوں، وزرا اور مشیروں کی جانب سے عمران خان اور توشہ خانہ کی گھڑی کی کہانیاں بلاتکان سنائی جاتی ہیں‘ جنہیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ توشہ خانہ ہی ہے۔ بقول پی ڈی ایم سرکار‘ عمران سرکار نے توشہ خانہ کا حشر نشر کر دیا‘ نہ صرف غیر ملکی تعلقات کو نقصان پہنچایا بلکہ ملک کی عزت کو بھی دائو پر لگا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب عمران خان کو اس مقدمے میں سزا دلانے کے اتائولے ہوئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان نے جو مطالبہ کیا ہے‘ کیا یہ بہتر نہیں کہ اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے توشہ خانہ سمیت ممنوعہ فنڈنگ کیسز کو کھلی عدالتوں میں چلا یا جائے تاکہ ایمانداروں کا اصل چہرہ عوام اور قوم کے علاوہ دنیا بھر کے سامنے عیاں ہو جائے۔ پی ڈی ایم اور ہمنوائوں کے بقول اگر توشہ خانہ میں لوٹ مار کی گئی ہے تو پھر ڈر کاہے کا؟ براہِ راست مقدمے کی کارروائی نشر کر کے سچ اور جھوٹ کو علیحدہ کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ اگر قدرت نے موقع فراہم کیا ہے تو پچھلی پانچ دہائیوں کا توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کر دیں اور ایمانداری کا بھرم چاک کر دیں تاکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں اپنے مقابل کسی قسم کا خوف اور ڈر نہ رہے۔
آج کل ایک سیاسی فیشن یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جس بھی مقدمے میں اپنے خلاف فیصلہ آئے، اپیل میں جانے کے بجائے عوام میں جا کر یہ مقدمہ بنایا جائے کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے عدلیہ کو بھی نشانے پر رکھنے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔ اس مسئلے کا بھی ایک ہی حل ہے۔ سیاسی مقدمات کی اوپن کورٹ میں سماعت کا حکم دیتے ہوئے تمام ٹی وی چینلز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ تمام مقدمات کو براہ راست نشر کیا جائے اور اہم سرکاری و پبلک مقامات، دفاتر اور مارکیٹوں میں ٹی وی سکرینیں لگا کر سیاسی لیڈران کے خلاف ہر جرم اور ہر مقدمے کی کارروائی کو قوم کو دکھایا جائے تاکہ سب کو پتا چل جائے کہ کس کس نے کس طرح اس ملک و قوم کو لوٹا ہے۔ کس کس نے اس قوم کی چمڑی ادھیڑ کر اس کے حصے کی ایک ایک دمڑی تک اپنے پاس رکھ لی۔ صبح شام توشہ خانہ کی گردان سن سن کر پوری قوم اکتا چکی ہے اور اسے قوم کی اپیل ہی سمجھ لیجئے یا ان پر کوئی احسان‘ کہ براہ راست مقدمات کی تمام کارروائی ٹی وی چینلز پر نشر کی جائے اور اس کارروائی کا آغاز نیچے سے کیا جائے؛ یعنی سب سے پہلے موجودہ حکومت اپنے گیارہ ماہ کا حساب دے، پھر خان صاحب اپنے پونے چار سالوں کا حساب دیں، پھر شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور اسی طرح چلتا چلتا یہ سلسلہ انیس سو اسّی کی دہائی تک لے جایا جائے جب تحائف کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرنے کی روایتِ بد کا آغاز ہوا تھا۔ اس سے ملک و قوم کو پتا چل جائے گا کہ توشہ خانہ کو کس کس نے لوٹا۔ اس سلسلے میں راقم کے پاس بھی کچھ تفصیلات موجود ہیں‘ جو بوقت ضرورت حکومت سمیت کسی بھی دوسرے فورم پر معاونت کے لیے پیش کی جا سکتی ہیں۔
پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاکس میں روز روز کا شور مچانے اور ڈھول پیٹنے کے بجائے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ قوم کو جھوٹ اور گمراہی سے بچایا جا سکے۔ پھر جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا‘ قوم پر سب کے اصل چہرے واضح ہو جائیں گے کہ وہ کون تھے جو نہ صرف خود بلکہ اپنی نسلوں سمیت قوم کے ٹیکس کے پیسوں اور وسائل پر عیش و آرام کر رہے تھے۔ ان سب سے ملک و قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی اور ہمارا ملک ہر قسم کے چوروں اور لٹیروں سے پاک ہو جائے گا۔ جب سابق وزیراعظم عمران خان خود مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ کے مقدمات کو براہِ راست عوام کو دکھایا جائے تو پھر کسی قسم کی رکاوٹ نہیں رہنی چاہئے، بلکہ اس مطالبے کو ایک قدم آگے بڑھانا چاہیے اور ملک کی پوری سیاسی قیادت اور تمام ممبرانِ اسمبلی کے اثاثوں کے مقدمات براہِ راست نشر کرنے چاہئیں تاکہ روز روز کی سیاسی جھک جھک ختم ہونے کے بعد عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ اس اوپن ٹرائل کے بعد کوئی یہ بھی گلہ نہیں کر سکے گا کہ اس کیساتھ انصاف نہیں ہوا‘ کیونکہ پوری قوم تمام دستاویز اور ثبوتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور پرکھ رہی ہو گی۔