لگ بھگ چوبیس گھنٹوں تک جو کچھ لاہور کے علاقے زمان پارک میں کیا جاتا رہا اور اس کے جواب میں جس قسم کی مزاحمت دیکھنے کو ملی‘ اس کی کہانیاں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گی مگر سوشل میڈیا پر کھلے عام اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اشاروں‘ کنایوں میں ایسی باتیں پچھلے کئی ہفتوں سے بیان کی جا رہی تھیں کہ کچھ لوگوں کی خواہش اور انا کی تسکین کے لیے یہ سارا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پہلے 8 مارچ اور پھر 14 اور 15 مارچ کو جس قسم کے تشدد اورآنسو گیس کا سامنا عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر بیٹھے، اردگرد بسنے والوں حتیٰ کہ وہاں سے گزرنے والوں کو کرنا پڑا‘ اس کی ملک کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اپنے پیشہ ورانہ معمول میں جب تک کسی معاملے کی مکمل تصدیق نہ کر لوں اور اس کے ثبوت میرے سامنے نہ ہوں‘ تب تک کچھ بھی صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے سے ہمیشہ پرہیز کیا ہے کیونکہ میرے استاد محترم نے سمجھایا تھا کہ قیاس آرائیوں یا سنی سنائی باتوں کے پیچھے بھاگ اٹھنے سے پہلے کوشش کرنا کہ معاملے کی مکمل تحقیق ہو جائے۔ لاہور میں زمان پارک اور اردگرد کے علاقوں میں پولیس کے دستوں اور وہاں موجود عمران خان کے حامیوں اور عوام کا ایک دوسرے سے سامنا ہو رہا تھا۔ جس چینل کو ٹیون کریں‘ آنسو گیس، واٹر کینن، ڈنڈا بردار فورس اور شیلڈ بردار اہلکار نظر آ رہے تھے۔ ہر جگہ پولیس کی جانب سے پھینکی گئی ا ٓنسو گیس کے زہریلے دھویں سے لوگوں کے بری طرح کھانسنے اور وہاں موجود خواتین اور بچوں کے رونے اور تڑپنے کے منا ظرہی دیکھنے کو ملے۔ ایک میڈیا ور کر کی حیثیت سے ٹی وی پر یہ مناظر دیکھنے اور سوشل میڈیا پر آنے والی بے تحاشا وڈیوز دیکھنے کے بعد ارادہ کیا کہ محض خبروں پر گزارہ نہیں کرنا چاہیے‘ کچھ آنکھوں دیکھا حال بھی ہونا چاہئے تاکہ سوشل میڈیا کی جعلی اور بوگس وڈیوز اور پوسٹوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے سچائی اور حقیقت کو سب کے سامنے لایا جا سکے۔ تمام دن‘ پھر شام اور رات کو بھی جب آپریشن جاری رہا تو زمان پارک جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم چند دوست رات بارہ بجے گھر سے نکلے اور جونہی جیل روڈ سے نہرکی جانب بڑھے‘ پتا چلا کہ مال روڈ تک کا راستہ کنٹینرز کھڑے کر کے بلاک کیا جا چکا ہے۔
جہاں ہم موجود تھے‘ یہ جگہ مال روڈ سے چند فرلانگ دور تھی لیکن آنسو گیس کی شدت اور اس کے مہلک ہونے کا احساس وہاں بھی ہو رہا تھا۔ زہریلی اور تیز گیس ہوا میں اس طرح رچ بس چکی تھی کہ سانس لینا محال ہو رہا تھا۔ جب وہیں‘ سائیڈ پر گاڑی کھڑی کر کے ہم باہر نکلے اور گیس ہمارے نتھنوں سے ٹکرائی اور آنکھوں میں گھسی تو ہم سب چکرا کر رہ گئے۔ آنکھیں اس طرح دکھنے لگیں جیسے کسی نے آنکھو ں میں تیز مرچیں ڈال دی ہوں۔ دور‘ دور تک آنسو گیس کا کوئی شیل نظر نہیں آیا لیکن سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ وہ گیس تھی جو زمان پارک اور ملحقہ علاقوں میں فائر کی گئی تھی اور جو ہوا کے ساتھ ساتھ دور دور کے علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ وہاں کھڑے محض چار‘ پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ سب کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ فوری طور پر وہیں سے واپس جانے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارے ایک وکیل دوست نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور گاڑی مختلف گلیوں سے گھماتے ہوئے دھرمپورہ کی جانب موڑ لی۔ جوں جوں ہم زمان پارک کی سمت بڑھ رہے تھے‘ ہماری آنکھوں کے سامنے جو مناظر آ رہے تھے‘ سادہ الفاظ میں انہیں پاگل پن ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ گوشت پوست کے بنے انسان ہیں جو آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ سے بے حال ہو چکے تھے‘ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں‘ کچھ کے چہرے خون سے رنگے ہوئے تھے مگر ان کا عزم اور ولولہ جوان تھا۔ محض جوان ہی نہیں‘ بے شمار بوڑھے‘ عورتیں حتیٰ کہ بچے بھی نظر آ رہے تھے۔ یہ مناظر دیکھ کر پہلا خیال یہی آیا کہ یہ پُراسرار لوگ ہیں۔
ہمارے کچھ جاننے والے پولیس افسران کافی دنوں سے زمان پارک کے علاقے میں فرائضِ منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''لگتا ہے انہیں نہ تو زندگی سے پیار ہے اور نہ ہی موت کا کوئی خوف ہے‘ یہ عجیب قسم کے جنونی لوگ ہیں جو نجانے کہاں سے آئے ہیں‘‘۔ یہ لوگ جو کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے خان کی حفاظت کر رہے ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی ٹکٹ کا یا کسی اور عہدے کا امیدوار نہیں ہے۔ بیشتر کی ظاہری حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ہی ان میں سے کسی کے پاس اپنی گاڑی ہو۔ یہ موٹر سائیکلوں‘ سائیکلوں والے لوگ تھے‘ جن کا اپنی محدود آمدنی میں بمشکل گزارہ ہو پاتا ہو گا۔ کوئی لالچ، کوئی حرص، کوئی طمع ان کے چہروں پر نظر نہیں آئی۔ یہ حقیقی نظریاتی لوگ تھے‘ مالِ غنیمت یا کشور کشائی سے جنہیں کوئی سروکار نہ تھا۔
زمان پارک گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان ہی نہیں‘ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ لوگ عمران خان کا انٹرویو کرنے کیلئے پاکستان میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ لوگ راقم سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ چند ایک بار ان کے ساتھ زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ پر ان کے انٹرویوز اور کبھی بریفنگز اور سوال و جواب کے سیشنز کور کرنے کے لیے جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران وہاں لگے کیمپ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوتا رہا‘ جو زیادہ تر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ٹکٹ کے حصول کے خواہشمندوں کی جانب سے لگائے گئے تھے کیونکہ ہر کیمپ میں ٹکٹ کے طلبگاروں کے نام اور ان کے حلقۂ انتخاب موٹے حروف میں لکھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایک نشست سے متعدد افراد ٹکٹ کے حصول کے امیدوار ہوں گے‘ لہٰذا ہر ایک نے قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے اپنے ساتھ تیس‘ چالیس لوگوں کو بھی بٹھایا ہوا تھا۔ اس لیے وہاں ہر وقت پنجاب بھر سے آئے پانچ‘ دس ہزار افراد موجود رہتے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی دکھائی دیتے رہے جو ٹکٹ یا کسی ذاتی مفاد سے بے نیاز نظر آئے۔ خواہش تھی کہ وہاں کچھ دیر رک کر ایسے لوگوں سے بات چیت کی جائے‘ ان سے گھر بار چھوڑ کر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ساری ساری رات کسی کرسی‘ کسی دری پر سونے کی وجہ معلوم کی جائے۔ چونکہ زیادہ تر غیر ملکی میڈیا کے لوگوں ساتھ ہوتے تھے‘ اس لیے زیادہ موقع نہیں مل سکا، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہی لوگ پی ٹی آئی کا اصل اثاثہ ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ سارا ڈرامہ ایک گرفتاری کے لیے رچایا گیا۔ ہمارے ملک‘ خاص طور پر پنجاب اور اندرونِ سندھ میں یہ رواج عام ہے کہ سیاسی و ذاتی مخالفین کو پولیس سے ملی بھگت یا اپنی طاقت، دولت اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے مختلف قسم کے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر عدالتوں کو کیسز کی نوعیت سے مقدمے کی اصلیت کا علم ہو جاتا ہے لیکن انہیں ایک ضابطے کی کارروائی کرنا ہوتی ہے‘ جس کے بعد ہی مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے خلاف درج مقدمہ سب کے سامنے ہے جسے عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ کہتے ہوئے سرے سے ہی خارج کرنے کا حکم صادر کیا کہ یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں‘ یہ کیس بے بنیاد ہے۔ اسی قسم کے مقدمات سینیٹر اعظم سواتی اور شہباز گل کے خلاف بلوچستان کے مختلف اضلاع میں درج ہوئے تھے اور بلوچستان ہائیکورٹ نے تمام ایف آئی آرز کو بے بنیاد اور بوگس قرار دیتے ہوئے ان شخصیات کو ان مقدمات سے باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ امجد شعیب جیسے معزز اور عمر رسیدہ شخص کو تین دن تک کیوں اور کس کے ایما پر حوالات میں بند رکھا گیا؟ اعظم سواتی اور شبہاز گل کے خلاف بلوچستان میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ کیا کچھ لوگوں کی ضد پوری کرنے کیلئے عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا جا رہا ہے؟ ہمارے وکلا دوستوں کا کہنا تھا کہ ایسے سینکڑوں وارنٹس ہر روز عدالتیں جاری کرتی ہیں مگر آج تک کسی کی گرفتاری کے لیے ایسا اہتمام دیکھنے کو نہیں ملا۔