حکومت کی طرف سے پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت میں غریب اور مستحق افراد میں رمضان ریلیف پیکیج کے تحت آٹے کی مفت تقسیم کا سلسلہ 25شعبان سے جاری ہے لیکن حکومتی بدانتظامی کے باعث غریب عوام کے لیے مفت آٹے کا حصول وبالِ جان بن کر رہ گیا ہے۔ مختلف شہروں سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بدنظمی سے اب تک پانچ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ دھکم پیل سے متعدد مرد و خواتین زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آٹے کے حصول کے لیے لگنے والے ہجوم کو ہٹانے کے لیے پولیس بھی غریب شہریوں پر تشدد کرتی نظر آئی۔ لمبی قطاروں میں لگ کر کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد بھی کبھی شناختی کارڈ کے بار کوڈ کا مسئلہ تو کبھی رجسٹریشن نہ ہونے اور کبھی مفت آٹے کیلئے نااہل ہونے کے ایشوز پر شہری بغیر آٹا لیے مایوس لوٹنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کے تحت 25 شعبان المعظم سے 25 رمضان المبارک تک مستحق افراد کو 10 کلو آٹے کے تین تھیلے دینے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اس مقصد کیلئے ابتدائی طور پر استحقاق کا معیار بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رجسٹریشن قرار دیا گیا تھا؛ تاہم بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو افراد 60 ہزار روپے ماہوار تک کی آمدنی کے حامل اور بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ نہیں‘ وہ بھی خود کو رجسٹر کرا کے مفت آٹا حاصل کر سکیں گے۔ اب آٹے کی ترسیل شروع ہو چکی ہے لیکن کسی متعلقہ محکمے نے نئی رجسٹریشن کا طریق کار وضع نہیں کیا اور کم آمدنی والے غیر رجسٹرڈ حضرات تاحال مفت آٹے سے محروم ہیں۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے مفت آٹا سکیم کے آغاز کے ساتھ ہی سبسڈائز آٹے کا سلسلہ منقطع کر دیا ہے اور مل مالکان نے سستے آٹے کی پسائی ختم کرکے 10 کلو آٹے کا تھیلا تقریباً 1200 روپے کا کر دیا ہے جس سے رجسٹریشن نہ ہو سکنے کے باعث مستحق افراد بھی مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے سفید پوشوں کا بھی کچھ بندوبست کرے تاکہ انہیں بھی مہنگائی سے کچھ ریلیف مل سکے۔
اگر عبوری جائزہ لیا جائے تو مفت آٹے والے اس سیاسی ڈرامے کو ابھی تین‘ چار روز ہی ہوئے ہیں اور اب تک پانچ اموات ہو چکی ہیں۔ جب عمران خان کی حکومت میں کورونا وائرس جیسی عالمی اور خطرناک وبا کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار اور ذریعۂ معاش سمٹنا شروع ہوئے تھے‘ عالمی دبائو پر پاکستان سے بر آمد کی جانے والی مصنوعات کا کورونا وائرس کے خدشے کی بنا پر کوٹہ اور مقدار کم کرنا پڑی تھی تو مجبوراً بہت سی فیکٹریاں اور ادارے اپنی پروڈکشن محدود کرنے لگے تھے۔ جب دکانوں کو ایک مقررہ اوقات کے بعد بند کرنے کا پلان بنایا گیا تو بہت سے دیہاڑی دار لوگوں کا ذریعہ معاش ختم ہونے لگا‘ جس پر اپنے عوام کی اس تکلیف کا احساس کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک قابل خاتون‘ محترمہ ثانیہ نشتر کو احساس پروگرام کی سربراہی سونپ دی۔ اس نیک دل خاتون نے غریب اور بے روزگار افراد کو اس وقت کی مہنگائی کے تناسب سے بارہ ہزار روپے ماہانہ کی مالی امداد دینے کا پروگرام بنایا۔ ایسے تمام لوگ اور خاندان‘ جو احساس پروگرام کے اہل تھے‘ انہیں ایک میدان یا بڑے ہال میں کرسیوں پر بٹھانے کے بعد اس باعزت طریقے سے امداد دی جاتی رہی کہ کسی کو ذرا سی بھی تکلیف نہ ہوئی‘ نہ ہی کسی کی عزتِ نفس کی تذلیل ہوئی۔ جس طرح عمران خان نے اپنے عوام کا احساس کرتے ہوئے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا‘ موجودہ حکومت کوئی ایسا انتظام کیوں نہیں کر سکتی؟ اس طرح کے اقدامات سے سستی شہرت یا وقتی سیاسی فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ایسے اقدامات کے دور رس اثرات سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ جب نگران حکومت اور وزرا سے میڈیا کے لوگوں نے عوام میں آٹے کی تقسیم کا کوئی بہتر طریقہ کار اپنانے کی بابت سوال کیا تو کہا گیا کہ حکومت کے پاس اخراجات نہیں ہیں۔ وزرا اگر یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس کیلئے اخراجات نہیں تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ وزرا عمران خان پر مسلسل تنقید تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے دورِ حکومت میں کیے گئے اچھے کاموں کو غریب عوام کی سہولت کیلئے کیوں استعمال نہیں کر سکتے۔ ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے مفت آٹا کی تقسیم کیلئے اختیار کیے گئے طریقہ کار کے مطابق جو بھی اپنا شناختی کارڈ نمبر حکومت کے دیے گئے نمبر پر میسج کرے گا‘ اسے اس میسج کے بدلے تین روپے ادا کرنا ہوں گے۔ اگر تین یا پانچ کروڑ لوگ یہ پیغام بھیجتے ہیں‘ تو 9سے 15کروڑروپے حکومت کو مل جائیں گے۔ حکومتی خزانے سے نہ سہی‘ عوام سے اکٹھے کیے جانے والے ان پیسوں سے ہی آٹے کی تقسیم کا کوئی بہتر طریقہ کار وضع کر دیا جائے۔
ہم انفرادی طور پر ہر سال اوورسیز پاکستانیوں سے زکوٰۃ اور خیرات کی مد میں جن غریب افراد‘ بیواؤں اور یتیم بچے‘ بچیوں کیلئے امداد لیتے ہیں‘ وہ ان سب کے گھروں تک اس باعزت طریقے سے پہنچاتے ہیں کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی اور انہیں یہ احساس بھی نہیں دلایا جاتا کہ ان پر کوئی احسا ن کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں ایک خاندان کے ایک فرد کی طرح ان کی رقوم ان کے گھروں تک با عزت طریقے سے پہنچائی جاتی ہیں۔ گزشتہ تین‘ چار روز میں پنجاب کے درجنوں مقامات پر مفت آٹے کے ایک تھیلے کے حصول کیلئے آئے ہوئے غریب عوام‘ جن میں بچے بوڑھے‘ عمر رسیدہ اور بیمار افراد اور خواتین شامل ہیں‘ کی حکومتی بدانتظامی اور بے پناہ رش کی وجہ سے جو حالت ہو رہی ہے‘ وہ اس معاشرے اور ملک کیلئے باعثِ شرم ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں عوام کو بھکاریوں کی طرح آٹا دینے کیلئے کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر بھی انہیں آٹا نہیں ملتا۔ مفت آٹے کی تقسیم کا جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے‘ وہ کسی طور بھی قابلِ ستائش نہیں۔ سستی شہرت کیلئے جو بھی ناٹک رچایا جاتا ہے‘اس کے کبھی بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ ایسے سبھی اقدامات کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت بھگتنا پڑتا ہے۔
رجیم چینج سے پی ڈی ایم نے سوچا تو یہ تھا کہ اس طرح وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور مزے سے باقی کی حکومتی مدت پوری کرلے گی لیکن عمران خان نے اس حکومتی اتحاد کا سارا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ گیارہ ماہ کی حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کا جو بھرکس نکلا ہے‘ اس نے عوام کو اتحادی حکومت سے مزید نالاں کر دیا ہے۔ اس لیے اب جب عمران خان الیکشن کی بات کرتے ہیں تو حکومت الیکشن سے بھاگتی نظر آتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کی معاشی پالیسیوں نے عوام کی جو حالت بنا ڈالی ہے‘ عوام اس کا سارا غصہ الیکشن میں نکالیں گے۔ اس عوامی غصے کو کم کرنے کیلئے حکومت نے مفت آٹے کی تقسیم کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدانتظامی کے باعث عوام میں حکومت کے خلاف مزید غم وغصہ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔