رجیم چینج سے دو ہفتے پہلے وہ ملک جو 57 ممالک کی میزبانی کا اعزاز حاصل کر رہا تھا‘ ایک ہی سال میں اس پاتال سے جا لگا ہے کہ مختلف شہروں میں آٹے کے ایک تھیلے کیلئے بھوکے ننگے لوگوں کی نہ ختم ہونے والی قطاروں کا ریکارڈ بنا رہا ہے۔ ملک بھر میں مفت آٹے کا حصول زندگی اور موت کی جنگ بن گیا ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک دو درجن کے قریب افراد آٹا لائنوں میں لگ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ قریب دس افراد کی موت بھگدڑ میں کچلے جانے سے جبکہ دیگر کی شدید گرمی میں طویل قطاروں اور حبس کے سبب ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔ درجنوں افراد لاٹھی چارج اور کچلے جانے کے باعث اپنے ہاتھ پائوں تڑوا بیٹھے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ نحوست کا ایک سایہ رجیم چینج پر مسلط ہے کہ اس حکومت کا کوئی بھی قدم درست نہیں پڑ رہا۔ اس وقت وزیراعظم صاحب اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر آٹا فراہمی سنٹروں کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ ملک جس کا سربراہ گزشتہ سال او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی کر رہا تھا‘ اب آٹا سنٹروں تک محدود ہو چکا ہے۔ یقینا اس صورتحال پر جتنا بھی ماتم کیا جائے‘ وہ کم ہے۔ افریقہ کے کسی قحط زدہ علاقے میں ایسا کچھ ہو تو شاید دنیا اتنی توجہ نہ دے لیکن سونا اگلنے والی زمینوں کے حامل زرعی ملک کیلئے یہ شرم کا مقام ہے۔ اس پر مستزاد وہ گندم جو فلور ملوں کو فراہم کی جا رہی ہے۔ اب تو فلور ملز کی جانب سے باقاعدہ خطوط لکھ کر آگاہ کیا جا رہا ہے کہ پرانی خراب مکئی بھی اس گندم میں شامل کی جا رہی ہے۔ درجنوں ایسی وڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں اس آٹے کی حقیقت بتائی گئی ہے، کئی فلور مل مالکان نے خود ایسی وڈیوز بنائی ہیں کہ حکومت کی جانب سے انہیں جو گندم فراہم کی جا رہی ہے وہ کم از کم انسانوں کو کھلانے والی نہیں ہے۔ آٹے کے ایک ایک ٹرک کے سامنے ہزار‘ دو ہزار لوگوں کا ہجوم‘ روزے کی حالت میں کئی گھنٹے شدید دھوپ میں کھڑا رہنے کے بعد جب کٹھن مشقت اور طویل انتظار کے بعد ایک خاندان دس کلو آٹے کا تھیلا حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا مگر
یہ خوشی چند ہی لمحوں بعد اس وقت کافور ہو جاتی ہے جب اس تھیلے کو کھولا جاتا ہے۔ اس میں موجود آٹے کو دیکھنے کے بعد سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ طوعاً وکرہاً اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے اس آٹے سے جب روٹی بنائی جاتی ہے تو اس پکی ہوئی روٹی کی حالت اور اس کا ذائقہ‘ یہ سب وہی جان سکتا ہے جسے مفت میں ملنے والا یہ آٹا حاصل کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ شاید رجیم چینج والوں کی نظروں میں یہ غریب لوگ جس قسم کی آب و ہوا اور جیسے ماحول میں رہنے کے عادی ہیں‘ انہیں اگر اچھا آٹا دیا گیا تو ان کے معدے اسے ہضم نہیں کر سکیں گے‘ اس لیے جتنی بھی پرانی اور مکئی ملی گندم تھی‘ اس سے بنا آٹا ان غریب پاکستانیوں کو کھلایا جا رہا ہے۔ کئی ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں کہ گندم میں قصداً مٹی اور بھوسہ شامل کیا جا رہا ہے‘ ایسی گندم سے بنا آٹا عوام کو نہ صرف کھلایا جا رہا ہے‘ بلکہ ان پر احسان بھی جتلایا جا رہا ہے کہ حکومت انہیں مفت آٹا فراہم کر رہی ہے۔ استاد گوگا دانشور اس صورتحال پر کہتے ہیں کہ اس آٹے پر محض عوام ہی نہیں بلکہ خود آٹا بھی احتجاج کر رہا ہے کہ اسے انسانوں کے پیٹ میں کیوں اتار جا رہا ہے؟
آج جو آٹا اس قوم کے کروڑوںباسیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے‘ اسے دیکھنے کے بعد قریب چھ برس قبل بھارت کا افغانستان کو بھیجا گیا گندم کا وہ تحفہ یاد آ رہا ہے جس کیلئے مودی سرکار نے عالمی میڈیا اور سفارتی سطح پر خوب تشہیر کی تھی تاکہ دنیا بھر بالخصوص افغانوں کو یہ تاثر مل سکے کہ دیکھو بھارت کس قدر انسان دوست ہے کہ ایک مسلم ریاست کو بھوک سے بچانے کیلئے بھاری اخراجات کر کے اپنے عوام کے حصے کی روٹی افغان عوام کو بطور تحفہ بھیج رہا ہے۔ افغانستان کو گندم بھجوانے سے پہلے بھارت نے کابل انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ گندم کنٹینروں کے ذریعے واہگہ کے راستے بھیجنے کے بجائے ایران کی چابہار بندرگاہ سے بھجوائے گا کیونکہ پاکستان اس کے کنٹینرز کی تلاشی لیتے ہوئے اس عمل میں رکاوٹیں ڈالے گا جس سے بھوکے افغان عوام کو بروقت گندم پہنچنے میں دیر ہو جائے گی۔ بھارت نے کہا کہ وہ ممبئی، کنڈالہ اور مندرہ کی بندرگاہوں سے گندم کے جہاز چابہار بھیجے گا۔ بعض مبصرین کے مطابق گندم کے کنٹینروں میں محض گندم نہیں تھی بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے بھیجا جانے والا اسلحہ بھی اسی گندم میں چھپایا گیا تھا اور واہگہ کے راستے کنٹینرز بھیجنے کی صورت میں یہ اسلحہ پکڑے جانے کا خدشہ تھا۔
بہرکیف جنوری 2018ء میں ایک دن اچانک کابل کا شمشاد ٹی وی بریکنک نیوز دینے لگا کہ بھارت کی افغانستان کو امداد کے طور پر دی جانے والی پندرہ ہزار ٹن گندم کے استعمال سے افغانستان کا ہر دوسرا گھر جلد اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو رہا ہے اور حالت یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھ چکا ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ متعدد بچے اور ادھیڑ عمر کے افراد پیٹ کے امراض سے اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جب کثیر تعداد میں پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کا معائنہ کیا گیا اور ان کے معدوں سے خوراک کے نمونے لے کر تجزیے کے لیے لیبارٹری میں بھیجے گئے تو پھر یہ ہولناک حقیقت سامنے آئی کہ ان افراد کو یہ بیماری کسی وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ بھارت کی بھیجی گئی گندم کی روٹی کھانے سے ہوئی تھی۔ شمشاد ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جب اس گندم کی لیبارٹری رپورٹ سامنے آئی تو کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ افغانستان سے دوستی اور محبت کا دم بھرنے والا بھارت افغانستان کے عوام کے ساتھ اس طرح کی سفاکی اپنا سکتا ہے اور اس گھٹیا حد تک جا سکتا ہے۔ افغانستان کے ایک چینل کابل نیوز ٹی وی کے اینکر غازی خیل نے بھارتی گندم سے ہونے والی ہلاکتوں اور بیماریوں کی تفصیلات بتا کر پوری دنیا کے ہوش اڑا دیے۔ سینکڑوں افراد اس گندم کو کھانے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، ہزاروں پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہوئے اور کچھ تو عمر بھر کا روگ لے بیٹھے۔
27 اکتوبر 2017ء کو جب بھارتی گندم سے لدا بحری جہاز بھارت سے ایران کی بندرگاہ چابہار کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت بھارتی حکومت نے بھارت‘ افغان دوستی کے خوب راگ الاپے۔ چابہار سے جب یہ گندم افغانستان کے سرحدی قصبے زارنج میں پہنچی تو رنگا رنگ تقریب میں بھارتی سفارتکاروں کے ہاتھوں افغان حکومت نے اس گندم کو وصول کیا۔ اس تقریب سے ایک طرف بھارت افغانستان کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اسے اب پاکستان اور اس کی کراچی یا گوادر پورٹ کی کوئی ضرورت نہیں رہی اور دوسری طرف وہ مسلم دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بھارت کو افغان عوام کا کس قدر احساس ہے۔ اسی آڑ میں وہ دنیا کو یہ بھی بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ سی پیک سے ملحقہ گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں چابہار بندرگاہ بہتر اور ایک اچھا علاقائی متبادل ہے۔
جب کابل سمیت افغانستان کے متعدد علاقوں سے کثیر تعداد میں لوگوں کے بیمار ہونے کی خبریں سامنے آئیں تو دنیا بھر کا تحقیقاتی میڈیا سرگرم ہو گیا اور پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ جب یہ گندم بھارت سے افغانستان بھیجی جا رہی تھی تو اس وقت بھارتی محکمۂ خوراک کے حکام اور بھارتی وزارتِ خارجہ کو بخوبی علم تھا کہ یہ گندم اُس سٹاک سے افغانستان بھیجی جا رہی ہے جسے محکمۂ صحت اور وزارتِ خوراک نے فلور ملوں اور دیگر ریاستوں کو فراہم نہ کرنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ درحقیقت اس سٹاک میں وہ گندم شامل تھی جسے فصلوں کے بیج کے طور پر گوداموں میں سٹاک کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ نریندر مودی حکومت نے بھارتی کرنسی کے نوٹ تبدیل کر دیے۔ کسان کئی کئی ہفتے پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کیلئے قصبوں اور شہروں میں دھکے کھاتے رہے اور کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے وقت پر بیج نہ خرید سکے۔ پھر اگلے سال یہ فالتو زائد المیعاد بیج افغانستان بھیجی جانے والی گندم میں شامل کر تے ہوئے اسے بھارت کی مغربی بندرگاہ کنڈالہ سے چابہار روانہ کر دیا گیا جہاں سے یہ بڑے بڑے ٹرکوں اور ٹرالوں میں لاد کر پہلے افغان صوبے نمروز اور پھر وہاں سے افغانستان کے دوسرے حصوں میں بھیج دی گئی اور پھر اس زائد المیعاد گندم اور بیجوں کے استعمال سے افغانوں میں جلد اور پیٹ کی بیماریاں ایسی تیزی سے پھیلنا شروع ہوئیں کہ ہفتوں میں ہی کابل سمیت افغانستان کے تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں جگہ باقی نہ رہی۔
محسوس ہوتا ہے کہ آج کل پاکستان میں بھی سستی سیاسی شہرت اور تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم کرنے کیلئے رجیم چینج والوں نے اسی قسم کی ناقابلِ استعمال گندم کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس بیکار گندم کی فراہمی پر عوام کو خوش خبری دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ کیا ہوا اگر پچھلی حکومت کے لنگر خانے اور پناہ گاہیں نہیں ہیں‘ کیا ہوا اگر بارہ ہزار کا امدادی پیکیج نہیں ہے‘ گھبرائو مت! یہ دیکھو مفت آٹا اور میلوں لمبی قطاریں۔