قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آگاہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پنجاب میں انتخابات کیلئے سٹیٹ بینک نے 21 ارب روپے کے فنڈز مختص کر دیے ہیں؛ تاہم ان فنڈز کے اجرا کا اختیار سٹیٹ بینک کے پاس نہیں ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا گیا کہ سٹیٹ بینک پارلیمان کی منظوری کے بغیر اخراجات کا اختیار نہیں رکھتا اور یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد یہ کیس قومی اسمبلی میں لے جایا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ممبر اور مسلم لیگ نواز کے رہنما برجیس طاہر نے کہا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ صرف پنجاب میں انتخابات ملک کیلئے نقصان دہ ہوں گے کیونکہ جو پنجاب میں جیتے گا، وہی باقی تینوں صوبوں میں جیتے گا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اسی کی حکومت ہو گی۔ انہوں نے سٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کے حکام سے یہ بھی استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سٹیٹ بینک کو فنڈز فراہم کرنے کی ہدایت کیسے دے سکتی ہے؟ وزیر قانون کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عدالتی آرڈر کے ذریعے فنڈز کے اجرا کا معاملہ قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے وگرنہ کل کو 21 ارب روپے کا حساب کون دے گا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر سٹیٹ بینک فنڈز جاری کرتا ہے تو مستقبل میں یہ سٹیٹ بینک افسران کی تنخواہوں سے کٹے گا یا گورنر سٹیٹ بینک دیں گے۔ اس سے قبل وزیر داخلہ بھی سٹیٹ بینک کے افسران کو دھمکاتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر سٹیٹ بینک کے افسروں نے فنڈز جاری کیے تو یہ رقم ان کی تنخواہوں سے وصول کی جائے گی اور ایسا نہ ہو کہ وہ باقی کی تمام عمر اس فنڈز کی بھرپائی ہی کرتے رہیں۔اس طرح کے بیانات کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قائمہ کمیٹی، کابینہ یا قومی اسمبلی میں فنڈز کے اجرا کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ بہر حال آج (18 اپریل کو) یہ واضح ہو جائے گا کہ وزارتِ خزانہ اور اکائونٹنٹ جنرل سپریم کورٹ میں کیا رپورٹ جمع کراتے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ وزارتِ خزانہ اور اکائونٹنٹ جنرل رقم دینے کی تصدیقی رپورٹ 18 اپریل کو عدالت میں پیش کریں۔عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن 18 اپریل کو 21 ارب روپے فنڈز کی وصولی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔
حکومت الیکشن کرانے سے کیوں بھاگ رہی ہے‘ یہ ایک اور حکومتی رکنِ اسمبلی نے بتا دیا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ جو پنجاب میں فاتح ہو گا‘ وہ نہ صرف باقی تینوں صوبوں بلکہ جی بی اور آزاد کشمیر میں بھی فاتح ہو گا۔ اسے زیادہ سے زیادہ حکومت کی خام خیالی ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ خود پی ٹی آئی کے رہنما بھی بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ کے پی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ وہاں دور‘ دور تک پی ٹی آئی کا کوئی حریف نظر نہیں آ رہا۔ جہاں تک پنجاب کا معاملہ ہے‘ اب تک کے تمام سرویز پی ٹی آئی کی برتری کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اس برتری میں حکومت کی جانب سے شدید مہنگائی اور آئے دن بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ یقینا مسلم لیگ نواز کو بھی اس کا ادراک ہے اور اسی وجہ سے الیکشن کو ہر ممکن حد تک دور کھینچا جا رہا ہے۔ چند روز قبل ہی گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا اور ایسے گھرانے جنہیں ہزار‘ پندرہ سو روپے بل آیا کرتا تھا‘ انہیں اس ماہ دس ‘ دس ہزار روپے بل آیا ہے۔ ناانصافی اور ظلم کی حد دیکھیے کہ جنہوں نے جنوری‘ فروری میں گیس استعمال کی‘ چار ماہ بعد گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کے بعد ان سے ''بقایا جات‘‘ وصول کیے جا رہے ہیں۔ کسی ایک شعبے کی بات نہیں‘ ہر جگہ یہی لوٹ مار نظر آ رہی ہے۔ حکومت کی مفت آٹا سکیم تو بری طرح پٹ چکی‘ جو ناقص آٹا اس سکیم کے تحت عوام کو فراہم کیا گیا‘ عمومی حالات میں شاید وہ جانوروں کے کھلانے کے کام آتا۔ صرف مفت آٹا سکیم ہی نہیں‘ فلور ملز کو بھی جو گندم فراہم کی جا رہی ہے‘ وہ بھی انتہائی ناقص ہے۔ گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے‘ وہ بھی ان حالات میں جب ایران سے سستی گندم کی سمگلنگ کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔ ایک طرف ایران سے سستی گندم سمگل کی جا رہی ہے اور دوسری جانب اندرونِ ملک آٹے کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے اور جو آٹا مہنگے داموں مل رہا ہے وہ بھی انتہائی ناقص کوالٹی کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر آخر یہ سارا پیسہ جا کہاں رہا ہے؟ کیونکہ جب الیکشن کرانے کی بات آتی ہے تو حکومت کا ایک ہی بہانہ ہوتا ہے کہ سرکاری خزانے میں اتنے پیسے نہیں ہیں‘ نیز قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الگ الگ الیکشن کرانے سے ملک و قوم کا شدید نقصان ہو گا۔ یہ درست ہے کہ الگ الگ الیکشن سے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔کتنا اضافہ؟ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق اس سے 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔ ایک اہم آئینی تقاضا نبھانے اور ملک کے نصف سے زیادہ عوام کو ان کا حقِ رائے دہی دینے کیلئے اگر 20 ارب روپے کی اضافی رقم خرچ ہوتی ہے تو کیا برا ہے؟
اب ذرا حکومت کے اس بیانیے کا پوسٹ مارٹم ہو جائے کہ خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ اتوار‘ 16 اپریل کو جس ''مفت آٹا سکیم‘‘ کا اختتام ہوا‘ پنجاب کی نگران حکومت کے مطابق اس پر 53 ارب روپے کی لاگت آئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سکیم کے تحت 4 کروڑ 11 لاکھ سے زائد (دس کلو گرام) آٹے کے تھیلے مستحقین میں مفت تقسیم کیے گئے جس سے دس کروڑ سے زائد افراد مستفید ہوئے۔ واضح رہے کہ پنجاب کی کُل آبادی بارہ‘ تیرہ کروڑ ہے‘ اگر حقائق کی کسوٹی پر اس دعوے کو پرکھیں تو یہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ بہر کیف‘ ایک اہم آئینی تقاضے کو نبھانے کیلئے حکومت کے پاس 21ا رب روپے نہیں ہیں مگر 53 ارب روپے ایک ایسی سکیم میں جھونکے جا سکتے ہیں جو تیس سے زیادہ افراد کیلئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ اسی طرح لیپ ٹاپ سکیم‘ جسے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ کیلئے ابتدائی طور پر دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں عدالت میں فنڈز کی عدم فراہمی کے حوالے سے زیر سماعت کیس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 10 ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کیلئے 21 ارب کیوں نہیں؟ سیاسی فوائد بٹورنے کیلئے اراکینِ اسمبلی کو نوازنے کا سلسلہ بھی پورے جوبن پر ہے اور مختلف سکیموں کیلئے دھڑا دھڑ فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں۔ اب تک مختلف ارکانِ اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے ''خالی خزانے‘‘ سے 50 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ مالی سال 2022-23ء کی پارلیمنٹیرین سکیموں کیلئے بجٹ میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، بعد میں اس بجٹ کو بڑھاکر 87 ارب اور پھر90 ارب روپے کر لیا گیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینے والے اراکین کے علاوہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو بھی 50 کروڑ روپے فی کس کے حساب سے ترقیاتی فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔اس وقت سی ڈی اے کا ایک ٹینڈر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں اسلام آباد کے سیکٹر جی فائیو ٹو میں 100 ملین (دس کروڑ) روپے کی لاگت سے چیئرمین الیکشن کمیشن کی رہائش گاہ کی تعمیر کیلئے 5 مئی سے قبل تک پیشکشیں طلب کی گئی ہیں۔ مختصراً یہ کہ حکومت کے پاس باقی ہر کام کیلئے پیسے ہیں مگر عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی تعمیل میں الیکشن کرانے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ یہاں لاہور کے الحمرا ہال میں ہوئے ادبی میلے میں نامور دانشور انور مقصود کا کہا گیا وہ فقرہ یاد آ رہا ہے کہ ''آپ کے پاس طاقت ہے جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن یاد رکھئے کہ ملک کے آئین کو دیا جانے والا یہ زخم اس ملک کے کمزور اور ناتواں جسم کو مدتوں تڑپاتا رہے گا‘‘۔