"MABC" (space) message & send to 7575

ایک نیا ٹرک حملہ

جمعرات 20 اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں پونچھ جموں روڈ پر بھارتی فوج کے ایک ٹرک پر حملہ ہوا جس میں پانچ بھارتی فوج ہلاک ہو گئے۔ بھارت سرکار کی جانب سے اس حملے کا الزام ہمیشہ کی طرح جیش محمد اور پاکستان کی ایجنسیوں پر لگایا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ بھارتی فوج، میڈیا اور عوام کے اندر اٹھنے والے اس طوفان کے دوران کیا گیا جو پلوامہ میں 'را‘ کے چالیس بھارتی فوجی جوانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے شیطانی کھیل کے بے نقاب ہونے کے بعد اٹھا ہے۔ 14 فروری 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارت کی پیرا ملٹری فورس کے ایک ٹرک پر حملہ ہوا تھا جس میں چالیس سے زائد جوان ہلاک ہو گئے تھے۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ یہ دراصل مودی سرکار اور RAW کا مشترکہ فالس فلیگ آپریشن تھا اور اب بھارت کے اپنے ادارے اور میڈیا اصل ذمہ داروں اور قاتلوں کے نام دنیا بھر کے سامنے لا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں اُس وقت کے گورنر ستیہ پال نے بھی ایک تہلکہ خیز انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مودی حکومت کو پلوامہ حملے کا پہلے سے علم تھا، نریندر مودی نے بھارتی فوجیوں کو بچانے کے بجائے اپنے سیاسی مقصد کے لیے انہیں مروا دیا اور واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ ستیہ پال کا کہنا تھا کہ پلوامہ ڈرامے کا مقصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابات میں سیاسی فائدہ پہنچانا تھا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پیراملٹری فورس کے قافلے پر حملہ بھارتی نظام بالخصوص فوج اور وزارتِ داخلہ کی نااہلی اور لاپروائی کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ فورسز نے اپنے اہلکاروں کو لے جانے کے لیے جہاز مانگا تھا لیکن وزارت داخلہ نے دانستہ انکار کیا۔ ستیہ پال کے مطابق ''جب میں نے یہ معاملہ اٹھایا تو مودی نے خاموش رہنے اور اس معاملے پر کسی سے بات نہ کرنے کا حکم دیا‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی سکیورٹی کے نگران اجیت دوول نے بھی اُنہیں پلوامہ حملے پر بات کرنے سے روک دیا تھا۔
یقینا قارئین گواہ ہوں گے کہ میں اپنے کالموں میں نہ صرف پلوامہ ڈرامے بلکہ پٹھان کوٹ حملے کے حوالے سے بھی کئی واقعاتی شواہد کی روشنی میں یہ بتا چکا ہوں کہ یہ سب حملے دراصل ''را‘‘ نے کرائے تھے اور ان کا مقصد صرف ایک تھا کہ کسی طرح ان حملوں کو پاکستان کی کارروائی قرار دے کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔ اس سے قبل گودھرا اور گجرات کے فسادات کے پیچھے بھی یہی کہانی تھی۔ اب ''پلوامہ ڈرامہ‘‘ کے حقائق سامنے آنے پر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ اور ریگولر افسران و جوانوں کے اندر سخت غصہ پایا جاتا ہے اور ان کی جانب سے اپنی نفرت کا اظہار کھل کر کیا جا رہا ہے جس پر 'را‘ اور مودی سرکار کی پریشانی دیکھنے والی ہے۔ را کی فتنہ انگیز ذہنیت اور سازش دیکھئے کہ چند روز قبل جس ٹرک کو نشانہ بنایا گیا‘ باقاعدہ منصوبے کے تحت اس میں جو پانچ فوجی بٹھائے گئے جن میں سے چار سکھ تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جیسے ہی ''آزادی پسند کشمیریوں‘‘ کے حملے میں ان سکھوں کی ہلاکت کی خبر عام ہو تو مشرقی پنجاب سمیت ہریانہ اور دنیا بھر میں رہنے والوں سکھوں‘ جو کرتارپور راہداری اور پاکستانی پنجاب کا دورہ کرنے کے بعد یہاں کے افراد کا پیار بھرا سلوک دیکھ کر پاکستان کیلئے دوستی اور محبت رکھنے لگے ہیں‘ کے جذبات کو نہ صرف پاکستان مخالف کیا جائے بلکہ G20 کانفرنس‘ جو ستمبر میں مقبوضہ کشمیر میں منعقد کی جائے گی‘ کے مدعوئین سمیت دنیا بھر کو باور کرایا جائے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔
اگلے ماہ بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کی گوا کانفرنس ہونے جا رہی ہے‘ جبکہ گزشتہ ماہ جی ٹونٹی کا ایک اجلاس ہوا‘ لہٰذا غیر ملکی مبصرین اور میڈیا کی موجودگی میں کسی بھی حملے میں خود کو مظلوم ثابت کر کے پاکستان پر الزام دھرنا قدرے آسان ہے۔واضح رہے کہ اس وقت بھارت میں خالصتان تحریک کا محاذ ایک بار پھر بھڑک رہا ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں پنجابی سکھوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ خالصتان تحریک کے نئے رہنما اور ''وارث پنجاب دے‘‘ تحریک کے سربراہ امرت پال سنگھ کو بھارتی فوج قریب ایک ماہ قبل ہی گرفتار کر چکی تھی مگر اس گرفتاری کو خفیہ رکھا گیا اور امرت پال کی گرفتاری کی آڑ میں اس کے خاندان کے سو کے قریب افراد سمیت ہزاروں پنجابی سکھوں کو گرفتار کر لیا۔ اب بھارتی فوج نے اس کی گرفتاری کو تسلیم کرنے کے بعد اسے پنجاب سے 2600کلومیٹر دور آسام کی جیل میں منتقل کر دیا ہے۔ اس وقت بھارت کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو خالصتان تحریک چل رہی ہے‘ اسے کوئی بیرونی حمایت حاصل نہیں ہے‘ یہ خالصتاً پنجابی سکھوں کی تحریک ہے اور محض مشرقی پنجاب ہی میں نہیں‘ بھارت سے باہر‘ آسڑیلیا، امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی خالصتان تحریک کے حامی دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں لندن میں بھارتی سفارتخانے کے باہر نہ صرف خالصتان کے حامیوں نے پنجابی سکھوں کی گرفتاریوں کے خلاف پُرزور احتجاج کیا بلکہ ایک شخص نے بھارتی سفارتخانے پر لگا ترنگا اتار کر وہاں خالصتاتی پرچم لہرا دیا۔ گزشتہ دنوں بھارتی پنجاب کے بھٹنڈا ملٹری سٹیشن میں فائرنگ کا ایک واقعہ بھی پیش آیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس حملے سے متعلق یہی اطلاعات ملیں کہ حملہ آور باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ یہ ایک اندرونی کارروائی تھی۔ بعض تجزیہ کار اس حملے کو بھی خالصتان تحریک سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دو روزہ دورے پر کیرالا میں ہیں لیکن اس سے پہلے ہی ''گودی میڈیا‘‘ نے شور مچا رکھا تھا کہ کیرالا کی جنتا پارٹی کے چیف کو دھمکی آمیز خط ملا ہے کہ اگر مودی کیرالا آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔واضح رہے کیرالا وہی ریاست ہے جس کی حکمران جماعت ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا (ڈی وائی ایف آئی) نے بی بی سی کی جانب سے نریندر مودی پر بننے والی دستاویزی فلم بڑی سکرینوں پر دکھانے کا اعلان کیا تھا۔
بھارتی فوج کے ٹرک پر چند روز قبل ہوئے حملے سے قبل فروری 2019ء کے پلوامہ فالس فلیگ آپریشن اور چالیس جوانوں کی ہلاکت کے اصل ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک آزاد اور خود مختار انکوائری کمیٹی کا مطالبہ انتہائی زور پکڑ رہا تھا۔ بھارتی پولیس اور فوج کے ریٹائرڈ افسران سمیت دانشوروں اور سول سوسائٹی حتیٰ کہ سابق بھارتی آرمی چیفس کی جانب سے بھی پلوامہ حملے کی تحقیقات کے لیے خودمختار انکوائری کمیٹی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔اس وقت بھارت کے با شعور عوام یہ جان کر سخت غصے میں ہیں کہ مودی ٹولہ اپنے گندے اور گھٹیا عزائم کی تکمیل اور ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے اپنے ہی عوام کو قتل کرانے سے دریغ نہیں کرتا۔ بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اپنے عوام کی بلی چڑھاتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتیں۔ مکر و فریب کے ذریعے اپنے وقتی فائدے کیلئے یہ بھارت کی غریب مائوں کے بچوں کی بوٹیاں نوچتیں اور یتیم ہو جانیوالوں معصوم بچوں کے ارمانوں کو کچل دیتی ہیں۔ ویسے تو بھارتی سیاستدانوں اور را کے گھنائونے کھیل پر ایک پوری کتاب بھی ناکافی ہو گی؛ تاہم ذیل میں درج چند اہم مثالیں بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے کافی ہیں۔
نائن الیون سے پہلے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور کلنٹن حکومت کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر کے تصفیے کیلئے مذاکرات پر اتفاقِ رائے ہوا۔ امریکی صدر کا دورۂ بھارت و پاکستان بھی طے پا گیا۔ امریکی صدر کلنٹن مارچ2000ء میں واشنگٹن سے نئی دہلی کیلئے روانہ ہوئے لیکن ابھی وہ جہاز میں ہی تھے کہ کچھ نا معلوم لوگوں‘ جنہوں نے کشمیری مجاہدین کی وردی پہنی ہوئی تھیں‘ نے مقبوضہ کشمیر کے ایک گائوں چٹی سنگھ پورہ کے36 سکھوں کو صبح سویرے گھروں سے باہر نکال کر کلاشنکوفوں سے بھون دیا۔ جیسے ہی صدر کلنٹن نئی دہلی کے اندر اگاندھی ایئر پورٹ پر اترے تو انہیں بتا یا گیا کہ اس وقت بھارت کی سڑکیں عوام کے غیظ و غضب اور انتقام کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ اس لیے کشمیر یا پاکستان سے بہتر تعلقات کے ایجنڈے پر کسی بھی قسم کی بات چیت کیلئے ماحول سازگار نہیں ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بل کلنٹن کئی مرتبہ اس پر افسوس کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کاش وہ بھارت کا دورہ نہ کرتے جس نے36 بے گناہ سکھ خاندانوں کو زندہ درگور کر دیا۔
19 فروری 2007ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی مشترکہ کاوشوں سے سیا چن اور کشمیر پر امن مذاکرات کیلئے نئی دہلی جارہے تھے۔ ایک رات قبل ہی پانی پت کے قریب دیونا ریلوے سٹیشن کے قریب نئی دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتا ایکسپریس کی دو بوگیاں بم سے اڑا دی گئیں جس میں سوار69 مسافروں زندہ جل گئے۔ بھارتی میڈیا نے فی الفور اس کا الزام جہادی تنظیموں اور پاکستانی ایجنسیوں پر لگا دیا۔ امریکہ وہ پہلاملک تھا جس نے بھارت کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے واویلا کیا کہ اس میں لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے۔ جب تفتیش شروع ہو ئی تو یہ بھارتی فوج کے کرنل پروہت نیٹ ورک کا کارنامہ نکلا۔ 69 انسانی جانوں‘ جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی‘ کی بلی دے کر بھارت پاکستانی وفد سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے یہ کہہ کر بھاگ نکلا کہ اس دہشت گردی کے بعد بھارتی عوام کا موڈ اور اندرونی ماحول پاکستان سے کسی بھی قسم کی بات چیت کیلئے درست نہیں اور خورشید محمود قصوری بے نیل مرام واپس آ گئے۔
26 نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کا قصہ نہ صرف نرالا بلکہ قدرے مضحکہ خیز بھی ہے۔ جیسے ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے وفد کے ساتھ نئی دہلی پہنچتے ہیں تو اسی شام بھارت کے تاریخی سیون سٹار ہوٹل تاج محل، ہوٹل اوبرائے اور شیوا جی ریلوے ٹرمینل پر دہشت گرد اندھا دھند فائرنگ شروع کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔ اس حملے میں مرنے والی سب سے اہم شخصیت انسدادِ دہشت گردی یونٹ کے انچارج انسپکٹر جنرل ممبئی پولیس ہیمنت کر کرے تھے جنہوں نے مالیگائوں، مکہ مسجد، پونا بیکری، اجمیر شریف، ممبئی اور دہلی میں ہوئے بم دھماکوں کے علاوہ سمجھوتا ایکسپریس کے اصل مجرموں کو گرفتار کر کے بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل پروہت نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا اور جن پر سخت دبائو تھا کہ تمام ملزموں کو رہا کیا جائے کیونکہ بی جے پی کے مرکزی لیڈروں اور کرنل پروہت سمیت دو میجروں کی ان واقعات میں شمولیت سے بھارتی فوج کی بدنامی ہو رہی تھی۔ اسی حملے سے اجمل قصاب کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ جس کی مکمل تفصیل میں اپنی کتاب'' ممبئی 26/11‘‘ میں انتہائی تفصیل سے دے چکا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں