نامور مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کا ایک انٹرویو اس وقت ہر جگہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ''جو ظلم آج کل پاکستان میں ہو رہا ہے‘ میں نے 70 سال میں ایسا نہیں دیکھا‘‘ ۔ ملک کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے انہوں نے حکومت پر کافی برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''چھوٹی چھوٹی باتوں پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بن رہے ہیں، موجودہ سیٹ اَپ جو کچھ کر رہا ہے وہ فسطائیت کی بہت بڑی مثال ہے، رب کی پکڑ آتی ہے تو ان کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے پاؤں پکڑے جا رہے ہیں اور اللے تللے بھی جاری ہیں، زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ آٹے کے لیے اس طرح لائنیں لگی ہوں‘‘۔ مولانا طارق جمیل نے یہ بھی کہا کہ ''جھوٹ، بددیانتی اور ناانصافی قوموں کو تباہ کرتی ہے، حکومتی سیٹ اَپ بدقسمتی سے اس حد تک گر گیا ہے کہ قومی تقاضوں کو بھلا دیا ہے، جمہوریت کا شعور ہوتا تو چھوٹی چھوٹی باتوں پردہشت گردی، غداری کے مقدمے نہ بنتے‘‘۔
یہ محض مولانا طارق جمیل کے خیالات نہیں‘ اس وقت ملک کا ہر سنجیدہ فکر اور باشعور شخص اسی قسم کی سوچ رکھتا ہے۔ البتہ یہ مولانا کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا انہوں نے ضروری سمجھا اور اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے وہ بے ساختہ بول اٹھے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے کسی حکومت کو اس طرح کا ظلم و ستم کرتے نہیں دیکھا۔ کون اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ جس قسم کا جبر‘ تشدد اور ظلم آج کل عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے روا رکھا ہوا ہے‘ اس کی نہ صرف ہمارے ماضی میں بلکہ دنیا کے کسی جمہوری معاشرے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تھوک کے حساب سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات ملک بھر کے مختلف شہروں اور صوبوں میں قائم کیے جا رہے ہیں۔ شہباز گل، علی امین گنڈاپور، بیرسٹر حسان نیازی اور مراد سعید سمیت عمران خان کے ساتھیوں کا کیا قصور ہے‘ یہ پوری قوم کے علم میں ہے۔ یقینا اربابِ اختیار بھی یہ سب دیکھ رہے ہیں مگر وہ اس کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔ جب ون یونٹ کے دور میں مغربی پاکستان ایک صوبہ تھا تو اس وقت مغربی پاکستان کی ہائیکورٹ کے جسٹس رستم کیانی کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کے خلاف یکے بعد دیگرے چار سے زیادہ مقدمات درج ہو گئے جس پر اس کی ضمانت کا مقدمہ جسٹس کیانی کے سامنے پیش ہوا، جسٹس کیانی کو علم تھا کہ یہ محض سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات ہیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ ان پر جتنے مقدمات درج ہو چکے ہیں ان سب میں ضمانت منظور کی جاتی ہے۔ مذکورہ صاحب نے استدعا کی کہ اب حکومت کوئی نیا مقدمہ قائم کر دے گی، جس پر جسٹس کیانی نے ہنستے ہوئے فیصلہ سنایا کہ جتنے مقدمات ان کے خلاف بعد میں بھی درج کیے جائیں‘ ان میں بھی ضمانت منظور کی جاتی ہے اور پولیس عدالت کی اجازت کے بغیر انہیں گرفتار نہیں کر سکے گی۔
اس وقت عمران خان کے خلاف کم و بیش 147 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، شنید ہے کہ کچھ مقدمات کو ابھی خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ سبھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام مقدمات جعلی اور بوگس ہیں‘ چاہئے تو یہ تھا کہ وزارتِ داخلہ اور حکومت کو بلا کر پوچھا جاتا کہ اس کے پاس جعلی مقدمات درج کرانے کی مشین کہاں سے آئی ہے؟ کاش کوئی ذمہ داران سے یہ بھی پوچھنے کی کوشش کرے کہ تم لوگ جو ان جعلی مقدمات کے ذریعے ملک و قوم اور عدالتوں کا قیمتی وقت اور جو کروڑوں روپے کے وسائل ضائع کر رہے ہو‘ کیوں نہ یہ سب تمہاری تنخواہوں سے کاٹ لیا جائے؟ اگر حقیقی انصاف کی بات کریں تو ان جھوٹی FIRs درج کرانے پر جھوٹے مدعیوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ تعزیراتِ پاکستان کی شق 182 غلط مقدمہ درج کرانے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر کسی شخص نے اپنے کسی مخالف کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرایا اور عدالت میں یہ مقدمہ ثابت نہیں ہوا تو مدعیِ مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کی ماتحت عدلیہ کی تاریخ میں سنگین نوعیت کے مقدمات کی درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جھوٹا مقدمہ درج کرانے پر مدعیِ مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ یہ وہ مقدمات ہیں جن میں ماتحت عدالتوں نے ملزمان کو سزائے موت یا عمر قید تک کی سزا سنائی تھی اور بعد ازاں اعلیٰ عدلیہ نے تمام ملزمان کو ان الزامات سے یکسر بری کر دیا۔ عدالت ہی کے حکم پر جھونے مدعیانِ مقدمات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی مگر اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی جھوٹے مدعی کو تین ماہ سے زیادہ سزا نہیں سنائی گئی۔
2013ء میں جب پنجاب میں شہباز شریف نے دوبارہ زمامِ کار سنبھالی تو پنجاب بھر کی انتظامیہ اور پولیس کو پی ٹی آئی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو بھرپور ٹکر دی تھی۔ اس وقت عمران خان پولنگ ڈے سے چند دن قبل لاہور میں کنٹینر سے گر کر شدید زخمی نہ ہوتے تو یقینا الیکشن کا رزلٹ مختلف ہوتا۔ بہرکیف حکومت سنبھالتے ہی پی ٹی آئی کے وفاداروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین کو تحریک انصاف چھوڑ کر نواز لیگ میں شامل کرانے کے سبھی لالچ اور سبھی حربے جب ناکام ہو گئے تو پھر شہری ترقیاتی ادارے کا ڈنڈا حرکت میں آیا اور چودھری امیر حسین کے سکول اور گھر کو سِیل کر دیا گیا۔ امیر حسین ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے لیکن ان کی ہر پکار صحرا کی وسعتوں میں گم ہوتی رہی۔ گزشتہ سال 25 مئی سے اب تک کراچی سمیت اندرونِ سندھ اور پنجاب و اسلام آباد میں تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کیساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر جس طرح مقدمات درج کرائے گئے‘ اس کی کسی جمہوری معاشرے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک طرف عمران خان کو سیاسی مقدمات میں عدالتی پیشیوں پر مجبور کیا گیا اور دوسری جانب پر پیشی پر اداروں پر حملے کا ایک نیا مقدمہ قائم کر لیا گیا۔ درجنوں پی ٹی آئی کارکنان محض ان پیشیوں کے مواقع پر گرفتار کیے گئے، کریک ڈائون میں جو ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے‘ وہ باب ہی الگ ہے۔
2008-09ء جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو شہباز شریف بحیثیت وزیراعلیٰ خود دستی پنکھے لے کر مینار پاکستان اور عتیق سٹیڈیم میں پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے رہے اور لیگی اراکین اسمبلی ہر روز لوڈ شیڈنگ کے خلاف جلوس نکالتے رہے، اس دوران لاتعداد بجلی دفاتر پر حملے ہوئے‘ کچھ کو جلایا بھی گیا لیکن کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا مگر اسی لاہور میں جب 2014-15ء میں مرکز اور پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت تھی تو انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بجلی کی سولہ سولہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف لاہور میں مظاہرہ کیا، وفاقی حکومت کے ایما پر تھانہ فیکٹری ایریا میں مقدمہ درج کرا کے تحریک انصاف کی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے چالیس سے زائد طالبعلموں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیے گئے اور پھر انہیں پکڑ کر ساری رات حوالات میں ان پر تھرڈ ڈگری تشدد کیا گیا۔ اگلے دن یہ طلبہ اپنے اپنے وکلا کے ساتھ عدل کی تلاش میں دھکے کھاتے دکھائی دیے۔ کسی نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ وہ پتا کرے کہ ان بچوں سے وہ کون سا سنگین جرم سرزد ہوا تھا کہ جس کی پاداش میں ان پر یہ ستم روا رکھا گیا کہ اب یہ بچے درد سے کراہتے ہوئے عدالتوں کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔