پہلے شاہد خاقان عباسی مفت آٹے کی آڑ میں بیس ارب روپے کے گھپلے پر بول اٹھے اور اب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فاروق ایچ نائیک نے بھری پارلیمنٹ میں وزیر مملکت برائے خزانہ سے سوال کیا کہ ہمیں بتائیے کہ ڈالرز پاکستان سے افغانستان کس کے حکم اور کس کی مرضی سے جا رہے ہیں اور کیا یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ڈالر کی قیمت 90 اور پاکستان میں 290 ہو چکی ہے؟ اس سے قبل امریکی ادارے ''بلومبرگ‘‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق پہلے ہی معاشی عدم استحکام کے شکار پاکستان سے ہر روز لاکھوں ڈالر افغانستان سمگل کیے جا رہے ہیں جس سے افغانستان کی معیشت کو تقویت مل رہی ہے جبکہ پاکستانی معیشت کمزور تر ہو رہی ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈالروں کی ترسیل اور مقامی کرنسی کی طلب کی وجہ سے افغانی کرنسی 89.96 تک آگئی جو دسمبر 2021ء میں 124.18 افغانی فی ڈالر پر تھی۔ دوسری جانب اسی عرصے میں پاکستانی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے 37 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ امسال جنوری کے آخری عشرے میں پاکستانی کرنسی میں ایک دن میں تقریباً 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی جو کم از کم گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ گراوٹ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کیلئے ڈالر پر سے مصنوعی کنٹرول ختم کرنے سے ہوئی مگر مزید تین ماہ گزر چکے ہیں‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ اب تک طے نہیں پا سکا، کیا یہ واقعی کوئی تکنیکی مسئلہ ہے یا اس معاملے میں بھی وہ مافیا سرگرم ہو چکا ہے جو ملک و قوم کی ہڈیاں تک نچوڑ چکا ہے؟
اب رجیم چینج کے کھلاڑی اپنی ہی ٹیم سے سوالات کرنا شروع ہو گئے ہیں بلکہ یہ کہیے کہ اب تو گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھائے چلے جا رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی سے متعلق لیگی دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ چند پارٹی فیصلوں کی وجہ سے ناراض ہیں اس وجہ سے ان کے بیانات قدرے تلخ ہیں مگر فاروق ایچ نائیک تو اپنی پارٹی کے سرگرم رہنما ہیں اور انکے لیڈر آصف علی زرداری سرعام عمران حکومت کو گھر بھیجنے کی سازش کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک جب الزام لگانا شروع کر دیں تو پھر شکوک و شبہات سر نہیں اٹھاتے بلکہ یقین ہو جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ڈالروں کی لوٹ کا بازار گرم ہے۔ فاروق نائیک صاحب کو بجائے وزیر مملکت برائے خزانہ سے یہ سوال کر نے کے‘ براہِ راست وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے پوچھنا چاہئے کہ ملکی زرمبادلہ کیساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جا ئے؟ کسے اس سے حاصل ہونے والی دولت کا مالک سمجھا جائے؟اس وقت معیشت جن سنگین حالات سے گزر رہی ہے اور آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے جس طرح ملکی خودمختاری کو گروی رکھا جا رہا ہے‘ان کے پیشِ نظر عوامی سطح پر ہر اس شخص کے خلاف صاف اور شفاف تحقیقات شروع کرنے میں ایک دن کی تاخیر کو بھی قومی جرم تصور کیا جا رہا ہے جس نے اس ملک کی دولت لوٹی ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ملک کی دولت لوٹ کر کسی بھی شکل میں اسے پاکستان یا باہر منتقل کرنیوالوں سے ایک ایک پائی کی وصولی ہی اس ملک کی معیشت میں بہتری لا سکتی ہے۔ اس سے ایک طرف ملک کے معاشی نظام میں سدھار آئے گا اور دوسری جانب باقی لوگوں کو عبرت ہو گی اور وہ وطن عزیز کی دولت کو مالِ مفت سمجھ کر اڑانے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اگر عدالتی حکم پر ہمیش خان کو لندن سے اور منصور الحق کو امریکہ سے واپس لایا جا سکتا ہے تو پھر یہاں کسی کو بھی بااثر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین‘ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کیا جانیوالا یہ مطالبہ اس وقت پاکستانیوں کے دل کی آواز بن چکا ہے اور ''اکراس دی بورڈ انصاف‘‘ کی گونج کو نظر انداز کرنا ملکی معیشت سے کھلواڑ اور ملکی دفاع سے غفلت کے مترادف ہے۔
عمران خان نے جب 2014ء میں‘ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سب سے پہلے یہ مطا لبہ کیا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ''کیا وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں احتسابی اداروں کو مطلوب کسی بھی شخص کو ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں انتظامیہ ملزمان کی گرفتاری کے بجائے انہیں سلیوٹ مارنے اور وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے میں دن رات مصروف رہتی ہے؟‘‘۔ پاکستان سے نجانے کتنی ڈالر گرلز لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے خلیجی ریا ستوں میں منتقل کر چکی ہیں۔ ایان علی کیس تو ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے اس واقعے سے کئی ماہ پیشتر ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ انکی معلومات کے مطابق‘ دبئی سمیت بعض خلیجی ممالک میں سینکڑوں پاکستانیوں نے اربوں روپے غیر قانونی طریقوں سے منتقل کیے ہیں۔ اگر ملکی دولت کا سنجیدگی سے سراغ لگانا چاہتے ہیں تو احتسابی اداروں کو چاہئے کہ وہ بڑی شخصیات کے بجائے ان کے فرنٹ مینوں اور قانونی مشیروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اس بات کا کھوج لگائیں کہ کس شخصیت نے اپنا پیسہ کس ملک میں چھپایا ہوا ہے۔ آئس لینڈ کی ایک بڑی گروسری سٹور چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بیشتر حصص ایک پاکستانی سیاسی شخصیت کے ہیں اور یہ انکے ایک جانے پہچانے فرنٹ مین نے خرید رکھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اکتوبر 2014ء میں 90 ملین ڈالر سے اس گروسری سٹور چین کے حصص خریدے گئے تھے۔ اس طرح کے مفروضوں کی تحقیقات کرنا بھی لازم ہے کہ ان میں سب جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتے۔ آئس لینڈ کے بڑے ہائپر سٹور کی چین خریدنے والے پاکستانی شخص کا نام کھوجنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ پتا کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ کون صاحب ہیں اور ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی آئس لینڈ ہے کہ جس کے وزیراعظم کا نام جب پاناما سکینڈل میں آیا تو اسی رات لاکھوں افراد وزیراعظم ہائوس کے باہر یہ کہتے ہوئے اکٹھے ہو گئے کہ وزیراعظم فوری طور پر استعفیٰ دیں۔ موصوف نے لاکھ وضاحتیں پیش کیں کہ پاناما میں ان کا نہیں بلکہ ان کے خاندان کے افراد کا نام ہے لیکن ان کا یہ عذر کسی نے بھی تسلیم نہ کیا اور مظاہرین اس وقت تک ان کے گھر کا گھیرائو کیے رکھا جب تک وزیر اعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دیا۔
اس وقت اسحاق ڈار ہی وزیر خزانہ تھے 2015-16ء میں جنہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانیوں کے 200 بلین ڈالر سے زائد پیسے سوئٹزر لینڈ کے مختلف بینکوں میں پڑے ہیں جس پرعمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے۔ سپریم کورٹ میں ایک بار ان افراد کی لسٹ بھی پیش کی گئی تھی جنہوں نے دبئی میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں اور پراپرٹیز خرید رکھی ہیں‘ ایف بی آر نے انہیں نوٹس بھیجنے کا اعلان کیا تھا‘ مگر اس پر بھی مزید کیا کارروائی ہوئی کچھ علم نہیں۔ یقینا بہت سے افراد نے پیسے نہ صرف جائز ذرائع سے کمائے ہوں گے بلکہ قانونی ذرائع سے باہر منتقل کیے ہوں گے لیکن اگر ان معاملات کا سراغ لگایا جائے تو بہت سا پیسہ‘ جو ٹیکس کی مد میں بچا لیا گیا یا چھپا لیا گیا تھا‘ ریکور کیا جا سکتا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ پاکستان‘ جو آج ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی سبھی شرائط ماننے پر مجبور ہے‘ کے شہریوں کی نہ صرف خلیجی ملکوں میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں ہیں بلکہ یہ لندن میں جائیداد خریدنے کے معاملے میں برطانوی شہریوں سے بھی آگے ہیں۔ آپ برطانیہ کی نیشنل اسیسمنٹ آف منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ کی چند سال قبل سامنے آنے والی رپورٹ پڑھیں جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان سے ناجائز پیسہ بلارکاوٹ برطانیہ آ رہا ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس اور ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زیادہ تر پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ پہنچتا ہے اور اس پیسے سے قیمتی اثاثے خریدے جاتے ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں‘ متعدد ملکوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا دامن اتنا خالی نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس کی دولت لوٹ کر یہاں سے منتقل کر دی گئی ہے۔