"MABC" (space) message & send to 7575

رنجیت سنگھ کے بعد

سکھوں کے نزدیک گرو جیسا درجہ رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی زندگی سے سینکڑوں ایسے واقعات جڑے ہیں جنہیں سکھ اپنی تاریخ کے سنہری ابواب میں شمار کرتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کا شک نہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت موجودہ پنجاب، کے پی اور جموں و کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی اور اس خطے کی مغل اور مسلم بادشاہتوں کے برعکس رنجیت سنگھ کے دربار میں نظم و ضبط کمال کا تھا اور یہ غالباً پنجاب کی تاریخ کا واحد دور ہے جب حکومت کو کسی قسم کی محلاتی سازشوں کا کوئی سامنا نہیں تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ذاتی معالج 'جون مارٹر ہونگ برگر‘ اپنی کتاب ''مشرق میں 35 سال‘‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسے جنرل ایلارڈ نے بتایا کہ ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جنرل ایوٹ بائل کو سخت غصے کی حالت میں ڈانٹتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اس نے (چند باغی) مسلمانوں کو پھانسی کی سزا کیوں دی‘ ان کے متعلق گھر بیٹھے اور اپنے ہی ذہن میں یہ بات کیسے فرض کر لی کہ ایک یورپی گورنر کے ماتحت وہ مسلمان نوجوان گائے کا گوشت کھانے میں آزاد ہوں گے؟ رنجیت سنگھ کا خیال یہ تھا کہ بجائے پھانسی کی سزا دینے کے ان مسلم نوجوانوں کو قید کی سزا اس طرح دی جاتی کہ کچھ عرصہ بعد انہیں فرار ہونے کا موقع فراہم کر دیا جاتا۔ واضح رہے کہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں سکھوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔ اس کی کابینہ میں مسلمان، سکھ اور ہندو برہمن‘ سبھی شامل تھے۔ 1831ء میں رنجیت سنگھ نے برطانوی ہند کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک سے بات چیت کے لیے ایک وفد شملہ بھیجا تو سردار ہری سنگھ نلوا، فقیر عزیز الدین اور دیوان موتی رام یعنی ایک سکھ، ایک مسلمان اور ایک ہندو کو اپنا نمائندہ بناتے ہوئے وفد کا سربراہ مقرر کیا۔
رنجیت کی فو ج سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی جسے فرانس کے اعلیٰ اور پیشہ ور جرنیلوں نے تیار کیا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ انگریزی فوج جو دریائے ستلج تک پہنچ چکی تھی‘ رنجیت سنگھ سے پنجہ آزمائی سے کترا رہی تھی۔ اس حکمتِ عملی میں آج کے حکمرانوں کیلئے ایک بہترین سبق ہے‘ جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ رنجیت سنگھ کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سے دوستانہ تعلقات تھے اور انگریزوں نے کئی دفعہ افغانستان پر چڑھائی کا ارادہ کیا لیکن ہر بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انگریز فوجوں کو پنجاب سے گزر کر افغانستان جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور یہی وجہ تھی کہ کمپنی راج میں انگریز فوج کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے بلوچستان کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ قوموں کی دوستی اور تعلقات کے باب میں یہ ایک قابلِ تقلید مثال ہے کہ اپنا علاقہ بیرونی حملہ آوروں کو کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے اور وہاںکسی بھی قسم کی تخریب کاری کی سہولت کے لیے ہرگز فراہم نہیں کرنا چاہیے۔ دور اندیشی سے یہ فیصلہ کرنے کا رنجیت سنگھ کو فائدہ یہ ہوا کہ اس کی افغانستان سے ملحقہ سرحدیں محفوظ رہیں مگر بدقسمتی یہ رہی کہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی انگریزوں نے سکھ دربار میں نقب لگا دی۔
جنرل ایوٹ بائل ایک فرانسیسی جنرل تھا جو واٹر لو کی شکست کے بعد فرار ہو کر ہندوستان آگیا تھا۔ ر نجیت سنگھ کو پتا چلا تو اس نے اسے بلا کر اپنے دربار میں جگہ دی اور کچھ عرصے بعد اسے فوج کے ایک حصے کی کمان سونپ دی اور پھر ایک صوبے کا گورنر بھی مقرر کر دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کی داستانیں پڑھیں تو اس کے کئی روپ سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف رنجیت سنگھ کی ہیبت اور رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ گورنر کشمیر نے اپنی بیوی کو حمام کے اندر اس لیے جلا دیا تھا کہ اسے مہاراجا کی جانب سے پیغام ملا تھا کہ سکھ دربار میں یہ خبر پہنچی ہے کہ گورنر کشمیر کی بیوی سیاست اور سرکاری معاملات میں حصہ لیتی ہے اس لیے اسے قابو میں رکھو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا‘ لہٰذا مہاراجا کی ناراضی سے بچنے کے لیے گورنر نے اپنی ہی بیوی کو قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی رنجیت سنگھ کے ظلم اور جبر کی ایسی ایسی داستانیں بیان کی جاتی ہیں کہ تاریخ اس کے حوالے سے کوئی درست شبیہ تراشنے سے قاصر رہتی ہے۔ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں‘ اس کے عہدِ حکومت کی بہت سی مزاحیہ داستانیں بھی مشہور ہیں لیکن ایک بات جس پر سب کا اتفاق ہے‘ وہ یہ کہ رنجیت سنگھ کے دربار میں کسی بیرونی ملک کا مخبر یا کوئی جاسوس موجود نہیں تھا۔ اس کی کابینہ میں بے شک ہندو‘ مسلمان اور سکھ سمیت سبھی اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے بلکہ یہاں تک بھی ہوا کہ بعض صوبوں میں یورپی گورنر اور افسران بھی تعینات کیے گئے جن کی قابلیت کا ایک زمانہ آج بھی معترف ہے‘ مگر اس کے باوجود اس کی سلطنت اندرونی چپقلش یا سازشوں سے ہر طرح محفوظ رہی۔
اس سلطنت کا زوال اس وقت شروع ہوا جب رنجیت سنگھ کے بعد اس کا بیٹا کھڑک سنگھ راجا بنا۔ اسے رنجیت سنگھ کی عقل و دانش کا ایک فیصد بھی چھو کر نہیں گزرا تھا۔ افیم کھانے کی اسے اس قدر لت تھی کہ دن اور رات کا بیشتر حصہ وہ نشے میں دھت رہتا۔ سارا سارا دن وہ دنیا جہاں سے بے خبر رہتا۔ ایسے شخص کا دربار زیادہ دیر تک چلنا ممکن نہیں تھا‘ اسی لیے درباریوں نے اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو اس کی جگہ حکمران بنا دیا۔ ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ زیادہ نشہ کرنے کی وجہ سے کھڑک سنگھ ایسا لاغر ہوا کہ جلد ہی موت کی آغوش میں جا پہنچا۔ اس کا بیٹا نونہال سنگھ اپنے باپ کی چتا کو ابھی آگ دے رہا تھا کہ شاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں سازشیوں نے اس پر دیوار گرا کر اسے ہلاک کر دیا۔ یہی وہ دن تھا جب اس نے با قاعدہ طور پر تخت نشین ہونا تھا۔
وہ انگریز‘ جو رنجیت سنگھ کے پورے دورِ حکومت میں ایک ایجنٹ بھی اس کے دربار میں داخل نہیں کر سکے تھے‘ اب ایسے شیر ہوئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے نونہال سنگھ کو قتل کرانے کے بعد اپنے ایجنٹ سکھ دربار میں داخل کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے پہلے ایجنٹ اجیت سنگھ اور لہنا سنگھ تھے جنہوں نے ایسی سازشیں کیں کہ نونہال سنگھ کے بعد شیر سنگھ تخت پر بیٹھا تو اسے بھی اس کی حکومت میں بیٹے سمیت قتل کرا دیا گیا۔ ان کے علاوہ انگریزوں کا تیسرا بڑا ایجنٹ رجب علی تھا جس نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ساتھ مل کر شاہی قلعہ لاہور میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ سکھوں کے دو دھڑے بن گئے اور پھر وہ تلوار بازی ہوئی کہ کئی سکھ سردار اپنی رانیوں کے ہمراہ قتل ہو گئے۔
آج اگر ہم اپنے ملکی حالات کا جائزہ لیں تو یہ سکھوں کے آخری دور سے ملتے جلتے دکھائی دیں گے۔ کل اجیت سنگھ، لہنگا سنگھ اور رجب علی جیسے چند گنتی کے کردار تھے مگر آج یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی نظر آتی ہے۔ دنیا کی سپر طاقتیں اور ان کے سٹریٹیجک پارٹنر پہلے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کرا کے بنگلہ دیش بنانے کے گھنائونے کھیل کا حصہ بنے‘ اب وہ دوبارہ اس خطے میں کوئی گریٹ گیم کھیلنے میں مشغول ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے خدشات سر اٹھانے لگتے ہیں کہ کیا ہم عالمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ دنیا دو دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے‘ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں‘ عالمی حالات تیزی سے تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے مخالفین کو کچلنے ہی سے فرصت نہیں۔ سیاسی اختلافات کی بنا پر نوجوانوں بشمول خواتین کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
اس وقت ہزاروں افراد حکومت اور اقتدار کا جبر جھیل رہے ہیں۔ کب تک یہ خاموش بیٹھے رہیں گے؟ اگر ایک فیصد طبقہ بھی انتقام کی چنگاڑیاں لے کر باہر نکل آیا تو یہ تعداد کسی بھی معاشرے اور کسی بھی سماج کو تادیر وقفِ اضطراب رکھ سکتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے ملک میں حالات ایسا رخ اختیار کریں لیکن اگر آپ ہر دسویں گھر کو اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں زیرِ عتاب لانے کی کوشش کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی اضطراب کی لہر نہ اٹھے؟ آج ہر اختلافی آواز کا ناطقہ جس طرح بند کیا جا رہا ہے‘ کہیں کل کو مورخ یہ نہ لکھ دے کہ سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت ملک کی طنابیں نجانے کس کے ہاتھ میں تھیں کہ کوئی بھی اس وقت روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں