کسی پروگرام کے میزبان یا اس میں بلائے گئے کسی مہمان کو کیسی زبان استعمال کرنی چاہیے‘ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی میں کس حد تک جانے کی اجازت ہونی چاہیے‘ ہمارے ہاں ان باتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا اور ان باتوں کو میڈیا کی آزادی سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں کیسے ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اب تو بات بند دروازوں سے ہوتی ہوئی ایک دوسرے کے گھر تک جا کر ختم ہوتی ہے۔ اب تو کسی بھی گروہ یا جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی زبان سے اخلاقیات‘ معاشرتی رسم و رواج اور مذہبی پابندیوں کے اندر رہ کر بات کرنے کی توقع رکھنا عبث ہو چکا ہے۔
پروگرام میں شریک مہمان اپنے یا اپنی جماعت کے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی گھر میں اس قسم کے پروگرام دیکھنے والے بچوں پر یہ زبان اور بیان کس بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کا شاید کسی کواندازہ ہی نہیں ہو رہا۔ اکثر پروگراموں میں تو میزبان کو ہی ہدفِ تنقید بنا لیا جاتا ہے۔ جس شخص نے آپ کو اپنے پروگرام میں بلا کر آپ کی عزت افزائی کی ہے‘ اُسی پر چڑھ دوڑنے کا کیا جواز ہے؟ اس میں میزبان سے زیادہ مہمان کا قصور ہوتا ہے جو اپنے جھوٹ کی تان کر جان بوجھ کر اس قدر طویل کرتا جاتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والے اس کی جہالت اور ہٹ دھرمی پر جل بُن اٹھتے ہیں۔
آج اگر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ کا ستعمال کس طرح کرنا چاہیے‘ ایسا کرتے ہوئے کن اقدار کو ترجیح دینی چاہیے تو یہ سوال سب سے پہلے سامنے آتا ہے کہ ہر شخص الیکٹرانک میڈیا کی بات تو کرتا ہی ہے لیکن سب سے بڑے ہتھیار‘ جو کسی بھی خبر کو چند منٹوں میں دنیا بھرمیں وائرل کردیتا ہے‘سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی‘فروغ اور ترقی کی باتیں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ کل تک جو لوگ اس کی اچھائیاں بیان کرتے نہیں تھکتے تھے‘ آج اس کی برائیاں بیان کرنے سے انہیں فرصت نہیں مل رہی۔دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں میڈیا مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتا‘ اسے ہر جگہ کچھ پابندیوں اور شرائط کا خیال کرنا ہوتا ہے۔ کسی ملک میں میڈیا کتنا آزاد ہونا چاہیے‘ اس کا فیصلہ وہاں کے حالات کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ اب تو بیشتر ممالک میں ریاست میڈیا کو کنٹرول نہیں کرتی بلکہ یہ کام اب وہ طاقتیں کرتی ہیں جو اثرو رسوخ اور سرمایہ کاری کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ہمارے ملک میں بھی یہی چلن ہے۔ یہاں جب حکومت سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ریگولیٹر اتھارٹی کا کیا کردار ہونا چاہیے‘ یا ملک میں سنسر شپ کس حد تک ہونی چاہیے‘ پاکستانی اورا سلامی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے یا ہر حد کو پار کر نا آزادیٔ اظہار کا معیار بنایا جائے گا‘تو اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ملک کی سیا سی اور معاشی صورت حال کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور سماجی تبدیلیاں کس طرح نئی نسل کو متاثر کر سکتی ہیں‘اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
آج کے بچے گھروں اور سکولوں میں جو چیز سب سے زیا دہ سیکھ رہے ہیں‘ وہ سیا ست ہے۔ اب جس بچے کو سکول میں اور سکول سے باہر ایک ہی بات سننے کو ملے اور ظاہر ہے کہ اسے یہ باتیں اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور سکول اساتذہ سے سننے کو ملتی ہیں تو اسے آپ کس طرح ملکی صورت حال سے لا علم رکھ سکتے ہیں؟ بچہ جو کچھ دیکھتا ہے‘ اس کے اس پر اثرات مرتب ہونا لازمی ہے۔ اس منطق کو تسلیم نہ کرنے والے اگر کہیں کہ پھر تو ایک حاملہ ماں جو کچھ ٹی وی پر دیکھتی ہے‘ جو کچھ اخبار میں پڑھتی ہے اور جو سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہوتی ہے‘ ان سب عوامل کے اثرات بھی دنیا میں آنے والے بچے پر اسی طرح مرتب ہوتے ہوں گے جس سکول جانے والے بچے پر مرتب ہوتے ہیں۔ سکول جانے والا چار پانچ سال کا بچہ جو کچھ ٹی وی یا موبائل پر دیکھتا ہے‘ اس کے اس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بچہ جو کچھ ٹی وی پر دیکھے گا وہ اسے اپنی جانب متوجہ کرے گا۔ سکول جانے سے اسے کہانیاں اچھی لگنے لگتی ہیں۔اس سے وہ ٹی وی پر ایسے کارٹون دیکھنا شروع کر دیتا ہے جو کسی کہانی پر مبنی ہوں۔
اب تو ہر بچہ موبائل فون پر مختلف اقسام کی گیمز اورسلسلہ وار کارٹون کہانیوں کا دیوانہ ہے۔کون سا ایسا گھر ہے جہاں بچے موبائل میں دلچسپی نہیں لیتے مگر ایسا کرنے سے ان کا وقت ضائع ہونے کے علا وہ ان کی روٹین بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان کے کھانے پینے اور سونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا۔ تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ وقت سکرین دیکھنے میں صرف کرنے کی وجہ سے اس کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے۔نیند کی روٹین متاثر ہونے کے علاوہ بچے کے مزاج میں بھی چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔ بچہ ان کارٹون کہانیوں میں جو کچھ دیکھتا ہے‘ وہ اسی کا عادی ہوجاتا ہے بلکہ یہ تو اب جانوروں اور پرندوں تک پر آزمایا جا چکا ہے کہ انہیں ٹی وی یا کسی بھی سکرین پر اگر کوئی حرکت یا عمل بار بار دکھایا جائے تو وہ کچھ عرصے بعد اس کے عادی ہو جاتے ہیں بلکہ وہ خود بھی وہ عمل دہرانے لگتے ہیں۔
بچوں کی تفریحِ طبع کے لیے تیار کیے گئے کارٹون پروگرامز ان پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچوں کے نزدیک اب خوبصورتی کا معیار گرتا جا رہا ہے‘ وہ بری شکلوں اور شیطانی حرکات والے کرداروں کو زیا دہ پسند کرنے لگے ہیں۔ یہ سب پروگرامز چونکہ مغربی ممالک میں تیار کیے جاتے ہیں‘اس لیے ان کا معیار اور ان کی حدود وہ اپنے ماحول‘ معاشرت اور سماجی اقدار کو سامنے رکھ کر طے کرتے ہیں۔ اشتہارات بھی بچوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور وہ اُن میں دکھائی جانے والی حرکات دہراتے ہیں۔ مائیں تو یہ دیکھ کر سکھ کا سانس لیتی ہیں کہ بچے گھر کے کسی کونے کھدرے میں گھس کر موبائل استعمال کر رہے ہیں‘ کوئی گیم کھیل رہے ہیں یا کارٹون دیکھ رہے ہیں اورکم از کم دھینگا مشتی نہیں کر رہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ موبائل فون اور کارٹون ان کے بچوں کے زبان و بیان پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بچے کارٹون دیکھنے کے بعد اپنے پسندیدہ کردار کے مطا بق بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں اکثر ہندی کارٹون دیکھے جاتے ہیں‘ ہندی زبان تسلسل سے سننے کی وجہ سے وہ اپنی روز مرہ کی زبان میں ہندی کے الفاظ بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ہندوانہ رسومات سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے لگتے ہیں۔ موبائل پر کھیلی جانے والی گیمز بھی بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ''پب جی‘‘ کے متعلق تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے اب تک کتنے گھر اجڑ چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ والدین بچوں کی اچھی تربیت کے لیے انہیں موبائل فون اور ٹی وی سکرین کے مضر اثرات سے محفوظ رکھیں اور انہیں ان ا شیا کے مثبت استعمال کی طرف راغب کریں۔